English - عربي
  صفحہ اول ويب سائٹ ہم سے رابطہ زائرين کا ريکارڈ
  فتوے -: روزے دار كا بواسير وغيرہ كے ليے مرہم اور كريم استعمال كرنا - فتوے -: کسی شخص نے فجرکے بعد یہ گمان کرکے کہ ابھی اذان نہیں ہوئی سحری کھا لی اس کا کیا حکم ہے؟۔ - فتوے -: چاند ديكھنے كا حكم - فتوے -: سيكسى سوچ كے نتيجہ ميں منى كا انزال ہونے سے روزہ باطل ہو جائيگا؟۔ - فتوے -: روزے كى حالت ميں ناك كے ليے سپرے استعمال كرنا - نخلستان اسلام -: فصل کاٹنے کا وقت قریب آگیا - نخلستان اسلام -: نجات کی کشتی قریب آگئی - نخلستان اسلام -: اسراء و معراج کے سائے میں -  
ووٹ ديں
مغرب کی اسلام دشمنی کے اسباب میں سے ہے؟
اسلام اور مسلمانوں سے نفرت
صحیح اسلام سے عدم واقفیت
تطبیق اسلام کی صورت میں غیراخلاقی خواہشات پر پابندی
تمام سابقہ اسباب
سابقہ را? عامہ
حادثات -

جورج ڈبلیو بوش کی انتہاء پسندی دوبارہ واپس لانے کے لئے کیا امریکی عوام \"رومنی\" کا انتخاب کرے گی؟۔

بقلم: سید ابوداؤد۔۔ ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار "مٹ رومنی" حالیہ صدر باراک اوباما کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کے لئے انتخابی پروپیگنڈہ کے دوران امریکی عوام کو اور پوری دنیا کو سابق صدر جورج ڈبلیو بوش کی اس انتہاء پسندی پر مبنی پالیسی کو دوبارہ یاد دلانا چاہتے ہیں جس نے امریکی ریاست کو دنیا کے بہت سارے ممالک کے خلاف لاکھڑا کیا اور امریکی عوام کے لئے بھی ایک حقیقی آفت و مصیبت کا سبب بن گیا۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ رومنی نے امریکہ کے متعدد داخلی مشکلات کو نظرانداز کردیا جیسے کہ شدید اقتصادی بحران اور مالیاتی خسارہ جس کا امریکہ پچھلے چار سالوں سے شکار ہے، بڑے پیمانے پر بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح، امریکی قرضے کے بحران کی بڑھتی ہوئی بےمثال اوسط، اس کے علاوہ نئے مالی سال کے بجٹ کو لے کر امریکی کانگریس میں بحران، دفاعی بجٹ، ٹیکس اور امیگریشن میں کمی کرنا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار نے ان تمام داخلی معاملات کو بالائے طاق رکھـ دیا جو امریکی ووٹرس کے لئے بنیادی طور پر بہت ہی اہم تھے، انہوں نے ان موضوعات پر بہت ہی کم گفتگو کی، انہوں نے خارجی پالیسی پر کافی زور دیا تاکہ اس کی روشنی میں وہ اپنے حریف امیدوار باراک اوباما کو شکست دینے کے لئے ان پر شدت کے ساتھـ تنقید کرسکیں۔

 وہ امریکہ کی اس خارجہ پالیسی کو اپنا رہے ہیں جو بین الاقوامی معاملات سے زیادہ قریب تر ہے اور بین الاقوامی سطح پر زیادہ مؤثر بھی ہے۔ ان کی انتخابی مہم نے ایک ورقہ تیار کیا جس کا عنوان تھا "امریکی صدی: امریکہ کے مستقل مفادات اور نظریات کو محفوظ کرنے کی حکمت عملی"، اس ورقہ میں "امریکی صدی" سے متعلق اس مفہوم کو ازسرنو دہرایا گیا، جو ایک لمبی گفتگو کا توجہ بنا رہا اور "نئے قدامت پسند" رجحانات رکھنے والے اشخاص کو شامل رہا اور ان کے معروف و مشہور منصوبہ "منصوبہ برائے نئی امریکی صدی" کو بھی شامل حال رہا۔

اس سلسلے میں رومنی کا خیال ہے کہ باراک اوباما نے امریکی طاقت و قوت، اس کے لیڈران اور عالمی پیمانے پر اس کے کردار کی بھینٹ چڑھادی، انہوں نے بین الاقوامی نظام کی قیادت کرنے میں اچھی طرح سے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا، یہ سب باتیں ایسی ہیں جو ہمیں ان تنقیدوں کی یاد دلاتی ہیں جو نئے قدامت پسند لوگوں نے کی تھیں، اور یہی لوگ ڈیموکریسی صدر بیل کلنٹن کی سیاست کے جورج ڈبلیو بوش کے حق میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔

رومنی کا خیال ہے کہ اوباما کی انتظامیہ نے امریکی ریاست کو "استثنائی کمزوری" تک پہنچا دیا ہے، موجودہ صورتحال کی سدھار کے لئے رومنی نے یہ وعدہ کیا کہ وہ فوجی اخراجات کو زیادہ کرکے، عالمی پیمانے پر پالیسی میں مزید تیزی لاکرکے، امریکہ کا کھویا ہوا امتیاز اور ماند پڑی ہوئی طاقت کو واپس لانے کے لئے کام کریں گے۔ اور اکیسویں صدی میں امریکہ ہی کا تارہ چمکے گا، یہ تمام باتیں اس وقت پوری ہو سکتی ہیں جب امریکی ریاست اقتصادی اور فوجی اعتبار سے عظیم طاقت و قوت اور عالمی پیمانے پر سب سے آگے نظر آئے، اور واشنگٹن آزاد دنیا کی قیادت کرے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ باقی ملکوں کی بھی قیادت کرسکے گا۔

رومنی کا خیال ہے کہ یہ خواب اس صورت میں شرمندہ تعبیر ہوسکتی ہے جب امریکی فوجی کے اخراجات کو بڑھا کر 30/ارب کردیا جائے، امریکی فوج کی تعداد مزید ایک لاکھـ اور بڑھائی جائے، جس قدر امریکی بحری بیڑے کی اوسط میں اضافہ ہوتا ہے اسی کے مطابق امریکی بحری فوج میں بھی اضافہ کیا جائے اور میزائیل کے ذریعہ کئے جانے والے دفاعی نظام کے اخراجات کو بڑھایا جائے۔

ایران کے حوالے سے امریکی پالیسی میں مزید شدت اختیار کرتے ہوئے رومنی کا کہنا ہے کہ "اگر ہم نے باراک اوباما کا دوبارہ انتخاب کیا تو اس صورت میں ایران جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوجائے گا، اور اگر ہم نے مٹ رومنی کا انتخاب کیا تو اس صورت میں ایران جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا ہے"۔ انہوں نے ایرانی ڈیموکریسی احتجاج جو سنہ2009ء میں سامنے آیا کی حمایت میں سست روی اور پالیسیوں پر بھی باراک اوباما کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اسی طرح سے انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ امریکی ریاست بین الاقوامی برادری کی مدد سے ایران پر مزید سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرے گی، اور اگر بین الاقوامی برادری کی مدد سے ایسا نہ ہو سکا تو امریکہ تن تنہا ایران پر ایسی پابندی عائد کرے گا۔

 جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو رومنی نے کھل عام یہودی ملک سے وفاداری کرنے کا اعلان کیا اور ایران کے خلاف اسرائیلی فوجی موقف اپنانے کا وعدہ کیا، اسی پر اکتفاء نہیں بلکہ وہ تو اس موضوع پر مزید دوقدم آگے بڑھـ گئے جب انہوں نے اسرائیل کی اپنی آخری زیارت میں یہ اعلان کیا کہ یہودی ثقافت یہ فلسطینی ثقافت سے زیادہ بہتر ہے، انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ آئندہ آنے والے 6/ نومبر کے الیکشن میں اگر وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو تل ابیب پہلی راجدھانی ہوگی جس کی وہ زیارت کریں گے۔

اگر ایک طرف اوبامہ انتظامیہ نے چین اور روس کے ساتھـ تعلقات بہتر بنانے کے لئے بہت کچھـ کیا، تو دوسری جانب رومنی ان دونوں ملکوں کے تئیں خارجہ پالیسی میں کافی شدت کی بات کر رہے ہیں۔ وہ چین سے متعلق اوبامہ کی پالیسی کو ٹھکرا رہے ہیں، اور بیجنگ کی تجارتی پالیسیوں اور کرنسی کی ہیرا پھیری کی پالیسیوں کے حوالے سے وہ پالیسیوں میں مزید شدت اختیار کرنے کی دعوت دے رہے ہیں، اور اس کے ساتھـ ہی وہ روس کے ساتھـ اوباما کی پالیسی کو بھی ٹھکرا رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ پوٹین روسی شہنشاہیت کی بنیاد ازسرے نو رکھنا چاہتے ہیں، ان کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ کا روس کے ساتھـ اسٹراٹیجک اسلحوں (اسٹارٹ 2) میں کمی کرنے پر دستخط کرنا یہ اوباما انتظامیہ کے خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کی بہت بڑی غلطی ہے۔

شدت پسندی پر مبنی رومنی کے اس نظریہ کا اثر یہ ہوا کہ امریکہ کے بڑے بڑے تجربہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر رومنی صدارتی الیکشن میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی مدت ریاست امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والوں کے ساتھـ سختی برتنے میں، اسرائیل کی غیرمحدود تائید کرنے میں اور اسرائیل کا عالم عربی و اسلامی کے تئیں انتہائی شدت پر مبنی پالیسی اختیار کرنے میں یہ جورج ڈبلیو بوش کی تیسری بار مدت ریاست میں باقی رہنے کے مساوی ہوگی۔

رومنی کے اس قدر آہنی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی ٹیم میں ایسے لوگ شامل ہیں جو جورج ڈبلیوبوش کی انتظامیہ میں کام کرچکے ہیں، اور یہ وہی انتظامیہ کمیٹی ہے جو قدامت پسندی اور انتہاء پسندی کو اپنا رہی ہے۔

بنابریں بارک اوبامہ کا یہ کہنا بالکل معقول ہے کہ ان کے مدمقابل کھڑے ہوئے مٹ رومنی نے اور ریپبلکن نے کوئی نئی چیز نہیں پیش کی، جو کچھـ بھی انہوں نے پیش کیا ہے وہ بس پرانے زمانے میں کسی وقت کے لئے مناسب تیار کردہ پروگرام ہے، بلکہ بسا اوقات وہ سب ہم لوگ بلیک اینڈ وایٹ ٹیلیویژن پر دیکھـ بھی چکے ہیں۔

یہ کہنا باقی رہ گیا ہے کہ آنے والے امریکی صدر کا انتخاب یہ امریکی باشندے ہی کریں گے، اب اگر وہ لوگ مٹ رومنی کا انتخاب کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سب نئے قدامت پسند اور دائیں بازو کے انتہاء پسندوں کی پالیسی سے راضی و خوش ہیں، اس کے ساتھـ ہی اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ لوگ دنیا کے باقی ملکوں کے ساتھـ حقیقی طور پر تعاون اور متبادل امن وامان کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، بلکہ وہ ایسی زندگی کی تمنا کر رہے ہیں جو دائمی کشمکش اور ہمیشہ جاری رہنے والی جنگوں میں گھری رہے، انہیں ان لاشوں کی ذرہ برابر بھی کوئی پرواہ نہیں ہے جو افغانستان اور عراق سے ان کے بچوں کو لاش کا ڈھیر بننے سے پہلے دوبارہ واپس لاسکتے تھے۔ سمجھـ بوجھـ، مہارت اور تاریخی تجربہ نے ہمیں اس لائق بنادیا ہے کہ ہم ان سب میں شک کریں اور اس کو بعید سمجھیں۔

هل ينتخب الأمريكيين رومني لإعادة تطرف بوش  الابن؟ UR



حادثات -

  • اخبار
  • ہمارے بارے ميں
  • نخلستان اسلام
  • بيانات
  • مسلم خاندان
  • موجودہ قضيے
  • کتابيں
  • حادثات
  • جہاد کا حکم
  • ملاقاتيں
  • ويب سائٹ کي خدمات
  • اپني مشکلات بتائيں
  • فتوے
  • ارئين کي شرکت