|
۔(عربی نظام) اور تیونسی منظر سے عبرت ونصیحت بقلم: سمیر عرکی۔۔ تیونسی نوجوان محمد بوعزیزی کو کیا معلوم تھا جس وقت وہ اپنے جسم میں آگ لگا رہا تھا کہ یہ آگ صرف اسی کے جسم پر نہیں اثر کرے گی، بلکہ یہ اس راستے میں آگے بڑھکر ایک مکمل نظام کی شکل اختیار کر جائے گی اور یہی نہیں بلکہ یہ اس پورے خطے میں تبدیل نظام میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے گی۔ بوعزیزی یہ کوئی چور نہیں تھا جو اپنی قوم کی روزی روٹی ہڑپنا چاہتا تھا اور ان کے مال و دولت کو چھیننا چاہتا تھا جو پولس والے نے اس کے چہرے پر ایک تھپّڑ رسید کردیا جس کے ساتھـ ساتھـ اسکی عزت و ناموس اور اسکی شخصیت متاثر ہو گئی،(مزید یہ کہ پولس والوں نے) اس سے اس کی ہاتھـ گاڑی چھین لی جو اسکے زندگی کی ساری پونجی تھی اور اس کے امیدوں کی آخری کرن تھی جس سے وہ اپنی پوری فیملی کا خرچ چلاتا تھا۔
زین العابدین بن علی کی حکومت بوعزیزی سے اس کی روزی روٹی چھین کر اور اس کی شخصیت کو مجروح کرکے اس سے کیا امید کر رہی تھی؟ سوائے اس کے کہ وہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک ایسے بدترین حل کا سہارا لے جو انسان آخری حد تک سوچ سکتا ہے اور انسان اس کو برداشت کر سکتا ہے اور وہ یہ کہ آگ سے جلا کر اپنے آپ کر خاکستر کر لے، اس کے بعد مفتی تیونس آگے بڑھے تا کہ بوعزیزی کے کرتوت پرحرمت کا فتوی جھاڑ کر ہمیں یہ فتوی عنایت کریں "یقینا یہ چیز حرام ہے لیکن میں اللہ رب العالمین سے اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہوں" یہ مفتی اس وقت کہاں تھے جب زین العابدین نے اسلام، اس کے عقائد اور اس کے اصولوں کے خلاف مسلسل جنگ چھیڑی، اللہ رب العالمین کے حلال کردہ چیزوں کو حرام کیا اور اس کے حرام کردہ چیزوں کو حلال کیا، اور یہ مفتی اس دن کہاں تھے جب فسق و فجور نے انہیں یہاں تک پہنچا دیا کہ لاؤڈاسپیکر میں اذان دینے کو منع کردیا، اور نمازیوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے مغناطیسی کارڈ جاری کئے تا کہ وہ نمازی اسی کارڈ کی بنا پر مسجد میں داخل ہوسکیں اور اپنے موکلوں (نظام حکومت میں کام کرنے والے پولس وغیرہ) کو آزاد چھوڑدیا کہ وہ (دیندار) پردہ نشین خواتین سے چھیڑ چھاڑ کرتے پھریں۔
مفتی تیونس نے "حرام" کا فتوی اس دن کیوں نہیں جھاڑا تھا؟ ان کو صرف ایک غریب ومسکین اور لاچار نوجوان پر ہی یہ فتوی جھاڑنے کے لئے یاد آیا؟۔
شروع شروع میں زیادہ تر لوگوں نے اس پر توجہ نہیں دی جو کچھـ "سیدی بوزید" میں ہو رہا ہے اور میں بھی انہیں لوگوں میں سے ہوں، کیونکہ یہ تو بس ایک دو دن کی بات ہے "سیدی بوزید" یہ زمیں بوس ہو جائے گی اور تیونس کے باقی شہروں کے لئے باعث عبرت و نصیحت بن جائے گی، لیکن ساری کی ساری امیدیں دھری رہ گئیں اور "سیدی بوزید" یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جس کے باشندوں کی تعداد تیس ہزار (30،000) سے زیادہ نہیں ہے، اور (یہ شہر چھوٹا ہونے کے باجود بھی) تیونس کے صفاقس اور جربہ میں باقی شہروں کے لئے یہ ایک جانب ہونے کے باوجود بھی کافی اہمیت کا باعث ہے۔
یہاں تک کہ راجدھانی تیونس پر آکر یہ ختم ہوئی تا کہ زین العابدین بن علی کی حکومت میں یہ آخری منظر پیش کرسکے، 14/ جنوری یہ پورے عرب خطے کی تاریخ میں حد فاصل بن گئی، اس کے اندر جو عربی حکومت کے لئے عبرتیں اور نصیحتیں ہیں کہ وہ اپنے آپ کی طرف اچھی طرح سے متوجہ ہوں اگر وہ یہ چاہتی ہوں کہ تیونس کے عبرت آمیز منفی پہلوؤں سے بچیں۔ اس میں سے چند یہ ہیں:
پہلا: فتنہ و فساد پر قدغن لگانا اور "ایک صاف ستھرے" نظام کے اصول کو اہمیت دینا، کیونکہ عربی ملکوں میں فتنہ و فساد یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ اس کے اقتصادی ترقی کو بآسانی نگل لے اور اقتصاد کو چند متعین جماعتوں پر منحصر کردے، اسی وجہ سے زیادہ تر عربی قوموں نے اس اقتصاد کے پھل کا احساس نہیں کیا۔
جس وقت تمام حکومتوں کے سربراہ اقتصادی اضافہ کی شرح پر فخر محسوس کر رہے تھے جو 7٪ کے قریب یا اس کے برابر ہو گئی تھی اس وقت عربی باشندے ان کی طرف غضبناک حالت میں دیکھتے تھے اور غیظ و غضب کی حالت میں عیب جوئی کرتے تھے کیونکہ وہ تو ابھی تک محتاج اور فقیر ہی تھے بھوک کی وجہ سے پریشان تھے، ان کے پاس کوئی حیلہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی کسی طرح کی (اقتصادی) ترقی یا عدم ترقی کو محسوس کر رہے تھے، اللہ اللہ کرکے کسی طرح سے بمشکل اپنی بنیادی ضروریات کو پوری کرتے تھے، زیادہ تراگر اللہ رب العالمین کی بے پایاں رحم و کرم اور سرکاری تنظیموں کا تدخل نہ ہو تو کبھی کبھی تو نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ وہ (بم کی طرح) پھٹ پڑے، رؤساء اور وزراء کا کام تو صرف بیان دینا ہے جو معاملے کو مزید بھڑکانے کا کام کرتے ہیں۔ بنابریں فساد نے تو اقتصادی اصلاح اور اضافہ کا پھل تو توڑ لیا لہذا کوئی بھی آدمی کسی سادہ لوح اور بھولے بھالے فرد (مواطن) کو لعن طعن نہ کرے جو نہ تو ان ارقام کی زبان سمجھتا ہے اور نہ ہی اس کی پیچیدگیوں کو سمجھتا ہے، وہ تو بس روٹی کا ایک ٹکڑا چاہتا ہے جس سے اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکے۔
دوسرا: آزادی کا دائرہ کار مزید کشادہ کیا جائے اور عربی باشندوں کو بیرون ملک سے پہلے اپنے ہی ملک میں مزید اہمیت دی جائے، سب سے بری نصیحت جو عربی حکومت آج کل پیش کر رہی ہے وہ ملک پیمانے پر سکیورٹی کی سخت سے سخت طریقے سے پکڑ ہے، قبضہ جمانے کے احکام ہیں اور زبان پر تالا لگانے کا رویہ ہے، بلکہ مطلوب تو یہ ہے کہ ان کو مزید وسعت و کشادگی بخشی جائے۔ یہی وہ سبق ہے جو زین العابدین نے آخری مرحلے میں سیکھا۔ لہذا انہوں نے 13/ جنوری کو اپنے آخری خطاب میں تیونسی پبلک (جمہور) کو ان ویب سائٹ کے کھولنے کی خرشخبری سنائی جن ویب سائٹوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ لیکن پبلک اس سے پہلے ہی دسیوں شہیدوں کی قربانی دے چکی تھی اور یہ چیز اس کے "فیس بک اور ٹویٹر" دیکھنے کے لئے کافی نہیں تھی۔ لہذا موقع ہاتھـ سے نکل جانے سے پہلے ہی پبلک کو اس حل کی سخت ضرورت مند تھی اور یہی چیز ضروری ہے کہ عربی حکومت اس کو اب اچھی طرح سے سمجھے، کیونکہ نوجوانوں کے طبقے میں بھی جوش و جذبات ہیں، پسماندہ جماعتوں کے بھی اپنے دکھڑے اور ان کی امیدیں ہیں، اور وہ جماعتیں جن پر پابندی عائد کردی گئی ہے ان کے بھی اپنے نظریات اور آراء و افکار ہیں لہذا ضروری ہے کہ حکومت کا سینہ سب کے لئے واسع اور کشادہ ہو۔ جو لوگ تہذیب و ثقافت اور میڈیا پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور اس شکل وصورت میں ہو گئے ہیں کہ انہیں کوئی پسند نہیں کرتا، ایک لمبے عرصہ سے ان کے آئیڈیالوجی (نظریاتی) افکار و تصورات زمانے میں چھائے ہوئے ہیں، قلم ان کے ہاتھـ میں ایک کوڑے کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کو وہ اپنے مخالفین کی پشتوں پر برسا رہے ہیں، اور اپنے آپ کو یہ حق دے رکھا ہے کہ ہر اس شخص کے مقابلے میں "ثقافتی تفکیر" میں وہی سیاہ وسفید کے مالک ہیں جو کسی رائے یا نظریہ میں ان کا مخالف ہے ان لوگوں کو ثالثی بنائے بغیر بڑے اونچے پیمانے پر عربی تنظیموں اور ان کی قوموں کے درمیان گفت و شنید کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ لوگ عربی تنظیموں پر بوجھـ بن گئے ہیں، ان کے لئے وہی کافی ہے جو انہوں نے مال و دولت اور ہدیہ تحفہ کے نام پر اکٹھا کیا ہے، کیونکہ جب زین العابدین بن علی بھاگے تو ان کا ساتھـ نہ تو ان کے تعلیم یافتہ لوگوں نے دیا اور نہ ہی (خود) ان کی روشن خیال جماعت ہی ان کی سائڈ لے سکی۔
تیسرا: ان اصلاحی کوششوں کا احترام کرنا جو امن وسلامتی کے ساتھـ اصلاحی تنظیمیں انجام دے رہی ہیں، بطور مثال مصر میں معتدل اسلامی تحریکوں اور مصری حکومت کے درمیان صاف ستھرا گفت وشنید کے مواقع دکھائی دے رہے ہیں، خاص طور پر اس فکری ترقی کے بعد جو تحریکوں نے اپنایا اور اسے اپنے افکار ونظریات کی ترقی قرار دیا، جس سے ملک کے سیاسی استحکام اور اس کے امن و سلامتی کی حفاظت ہوتی ہے اور یہ اچھے فکری نظم ونسق کی بنیاد ہے جو نوجوانوں کو تشدّد اور انتہاء پسندی کی لعنت سے محفوظ رکھتی ہے، اس کے ساتھـ ساتھـ اس پختگی کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے جو تحریک کے اندر حکومت کے تئیں پیدا ہوئی ہے، کیونکہ تحریک کا مقصد حکمرانوں اور ان کی تنظیموں پر غلبہ پانے کے لئے چھلانگ لگانا نہیں ہے جیسا کہ پہلے تھا، بلکہ تحریک کی نظر اب علانیہ اور دائمی طور پر اپنے احساس وبیداری پر ہے جس کا بنیادی دور(رول) اصلاح اور تعلیم و تربیت میں پوشیدہ ہے، اور اس پر ضروری ہے کہ وہ پچھلے دنوں کے اپنے انتہائی سخت ٹکراؤ کو ویسے ہی گزار دے (بھول جائے)۔ یہاں اس نظریہ کا احاطہ کرنا اور اس کی تشہیر کرنے اور منتشر کرنے کے لئے مناسب ماحول فراہم کرنا ضروری ہے، چہ جائے کہ اس کا محاصرہ کیا جائے چند خاص مثقفین، اور فکری نظریہ کے حق میں جسے زمانہ نے درگزر کردیا ہے، وہ اس کے ایمان وعقیدے کے ساتھـ بھی ٹکراتی ہیں، اور ہم کو وہمی جنگ "داڑھی، نقاب، (مدرسوں میں) دینی گھنٹے، ذاتی شناختی کارڈ میں دین کا خانہ اور اذان کو ایک کرنے والی قبیل سے جنگ" کی تنّور(بھٹی) میں جھونکنے پر اصرار کرتی ہیں۔ ان جنگوں نے ترقی کی گاڑی کو ایک بالشت بھی آگے نہیں ڈھکیلا، اور نہ ہی تعلیم وتربیت، صحت وتندرستی اور بےروزگاری کا کوئی نسخہ نکالا، لہذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ عربی نظام (حکومت) کو آج کل اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ حقیقی طور پر اصلاحی کوششوں سے استفادہ کرے جو امت کے ایمان و عقیدے سے نکلتی ہیں، اور ماضی کے کارگزاریوں کو نظرانداز کرجائیں تا کہ مستقبل کے چیلینج کے بارے میں غور وفکر کر سکیں۔
چوتھا: احتجاجی تحریکیں چاہے وہ اسلامی ہوں یا۔۔۔ روایتی تحریکوں چاہے وہ اسلامی ہوں یا بائیں بازو کی پارٹی ہوں یا محاذآرائی والی پارٹی ہوں ان کی روایتی طور پر پرورش وپرداخت کرنے والے گہوارے کا ختم ہوجانا خاص کر جب انٹرنیٹ اپنی لامحدود فضائیات کے ساتھـ ان نوجوانوں کے احتجاج اور سرکشی کا گہوارہ بن گیا "فیس بک" اور"ٹیوٹر" کے صفحات یہ ہائیڈ پارک ہو گئے جس کے ذریعہ نوجوانوں کی یہ نسل (طبقہ) احتجاجی اعلان کرتا ہے ہر طرح کے روایتی آئیڈیالوجی تنظیرات سے دور رہ کر اور ساتھـ ہی ساتھـ فکری و سیاسی طور پر معروف ومشہور قائدین کی وصیت سے بھی پرے ہٹ کر۔ نوجوانوں کی اپنی ایک خاص فضاء بن گئی، ان کے اپنے خاص پریشانیاں سامنے آئیں جس کے لئے عربی نظام (حکومت) کے لئے ضروری ہو گیا کہ وہ اس کا حل تلاش کرے، اور ان پریشانیوں سرفہرست بے روزگاری کا مسئلہ ہے جس نے نوجوانوں کو بداخلاق اور سرکش بنا دیا وہ خود اپنے ہی وطن کی طرف اپنی نسبت کا احساس نہیں کرتا، خاص طور پر میڈیا کا دانستہ طور پر اسے بھڑکانا فٹ بال کی اور فنی طور پر جو سودے بازی خبروں کے ذریعہ نشر کی جاتی ہے جس میں نوجوان دیکھتے ہیں کہ لاکھوں پاؤنڈ ان لوگوں کے قدموں میں نچھاور کئے جا رہے ہیں جو علم ومعرفت میں اس سے کمتر ہیں بنابریں وہ اسی سراب (فریب) کا احساس کرنے لگتا ہے جس سے وہ پہلے ہی دوچار تھا۔
نوجوان کسی بھی معاشرے کی حقیقی طاقت وقوت ہیں اور یہ بہت ہی شرم کی بات ہے کہ ہم انہیں نقصان اور محرومی کا شکار ہونے کے لئے ویسے ہی چھوڑدیں، ان کی طرف توجہ نہ دیں سوائے اس صورت کے جب وہ غیظ وغضب کی وجہ سے بھڑک اٹھیں۔ یہ اچھی بات نہیں ہے کہ ہم وقت کو غیر مفید قسم کے بحث و مباحثہ میں ضائع کریں۔ کیا تیونسی پبلک کی بغاوت باقی دوسرے عربی ممالک میں منتقل ہوگی یا نہیں؟ بلکہ یہ ضروری ہے کہ ہم ابھی سے بگڑے ہوئے باشندوں کی اصلاح کرنے کے لئے کام کریں اور سماجی کشیدگی جو عربی معاشرہ پر چھائی ہوئی ہے اسے ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اور شروعات یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اخلاق، ایمان وعقیدہ اور اسلام کے ثابت شدہ اصولوں کے رنگ میں رنگ لیں کیونکہ ہمارے متمیز ہونے کی علت انہیں چیزوں میں پنہاں ہے۔
لنظام العربى ودروس المشهد التونسى UR
حادثات -
|