|
آندھی و طوفان کے بعد کی بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بارے میں اہانت آمیز ڈنمارکی خاکوں کے واقعہ نے مسلمانوں کے احساسات و جذبات کو متحد کیا ہے، اس لہر نے جس کا دیار اسلام اور دور و نزدیک کے اسلامی ملکوں کے معاشروں نے مشاہدہ کیا، آن واحد میں بد بخت ناہنجار مجرموں کے بارے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دفاع کے لئے مسلمانوں نے ایک بات پر اتفاق کیا "یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہم آپ پر قربان جائیں" مسلمانوں نے اتفاق و اتحاد کی ضرورت کو محسوس کیا۔ اس نئی بربریت انگیز مھم کا مقصود رسول معظم حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس ہے۔ سچ فرمایا اللہ رب العزت نے (وَعَسَىٰ أَنْ تَكْرَهو ا شَيْئًا وَهو خَيْرٌ لَكُمْ) (البقرۃ: 216): (ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور در اصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو)۔
لیکن اس کے بعد بھڑکیلے جذبات کچھـ ٹھنڈے ہونے لگے اور آندھی کی تیزی بھی آہستہ آہستہ ساکن ہونے لگی؛ ہمیں سچائی اور ایمانداری سے اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے؛ کیا ہم اس واقعہ کو اسلام کی خدمت کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہو سکے تا کہ یہ دوبارہ سر نہ اٹھاۓ؟؛ یا پھر ہم انہی مظاہروں اور جلوسوں پر اکتفا کریں گے اور بعض نعروں اور علامتوں اور جذباتی افعال کے ذریعے اپنی ذمہ داری سے بری ہو گۓ؟!۔
جواب سے پہلے میں ایک مثال دیتا ہوں جو اس بیان کو قریب اور مضمون کو مضبوط کرے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودی، نازی خوں ریزی جو "ھولوکوسٹ" کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس سے بہتر استفادہ کرنے میں کامیاب رہے۔ انھوں نے صرف مذمت، بھڑاس نکالنے اور ناپسندیدگی پر ہی اکتفا یا بس نہیں کی بلکہ اس واقعہ کے بارے میں یورپی معاشرے پر دباؤ ڈالتے رہے اور اس ہلاکت خیزی -اگر یہ واقع ہوئی- کو خوفناک شکل دی، جو یورپی معاشرے کے لئے ایک کلنک کا ٹیکہ بن گئی، جسے مٹانے اور زائل کرنے کے لئے وہ کام کرتے رہے، یہودی ایسے قوانین جاری کرانے میں کامیاب ہوۓ جن کے ذریعے وہ معاوضہ لے سکیں جو ابھی تک اشتعال انگیز نما صورت میں جاری ہیں۔
ہم سب کو یاد ہے جو مفکر جارودی کے ساتھـ ہوا۔ اس کو قید کی سزا ہوئی۔ اس نے ہولوکوسٹ کے بارے میں نہیں لکھا تھا بلکہ اس نے صرف اس تعداد پر شک کا اظہار کیا تھا جو عام طور پر رائج ہے (یہودی روایت کے مطابق ساٹھـ (60) لاکھـ یہودی نست و نابود کر دئے گئے) اس نے اپنی بات کے درست ہونے کے لئے علمی دلائل دئے۔ یہ ایک علمی تحقیقی میدان تھا نہ کہ اسے قید میں ڈالا جاتا۔ اور یہ معاملہ اب یورپ تک پہنچ چکا ہے، جیسا کہ گذشتہ عرصے میں ایرانی صدر نے وضاحت کی کہ اللہ تعالی کے وجود میں تو شک کا امکان ہے (اللہ جل مجدہ کی شان اس سے بالاتر ہے) انھوں نے ہولوکوسٹ کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے اس واقعہ کے انکار کا پہلو نکلتا ہو یا یہودی روایت پر صرف شک کا اظہار ہی ہوتا ہو۔ یہودی کس طرح سیاسی، ابلاغی اور مالی فوائد کے حصول کے لئے اس واقعہ کو نفع بخش بنانے میں کامیاب ہوۓ۔۔۔ الخ
اب ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس میں غور و فکر کریں اور اس بحران کا ایسا علاج دریافت کریں کہ اس کی گرد صرف بعض یہاں اور وہاں کے مظاہروں، مٹھی بھر مذمتوں اور مضامین کے بنڈلوں کی نذر نہ ہو جاۓ۔ اگرچہ یہ معاملات بھی مطلوب ہیں لیکن صرف اکیلے ہی نہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ جماعت کی ویب سائٹ پر ان موضوعات کے ذریعے غور و خوض کا دروازہ کھولا گیا ہے جو ہم طوفان کے بعد کے مرحلے میں بحران سے نمٹنے کی کیفیت کے بارے میں تجویز کر رہے ہیں:
پہلا محور
یہ مسلمانوں کی ذات کے ساتھـ خاص ہے، اس وحدت کی حالت سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے جس نے مسلمانوں کے مابین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدایت اور سنت کو فعال کرنے کے لئے ہم کو اپنے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پرمتحد کیا ہے۔
سوال جس کا صراحت کے ساتھـ جواب دینا ہم سب پر لازم ہے۔۔۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے بارے میں ہم کہاں ہیں؟۔۔۔ سچی محبت کی دلیلیں اور نشانیاں ہوتی ہیں، ورنہ وہ تو صرف ایک دعوی بن جاتی ہے۔۔۔ رسول کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے: (تم میں کوئی بھی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش (چاہت) اس کے تابع نہ ہو جو میں لایا ہوں) (الجامع الكبير للسيوطي:1430)۔
آج صورت حال تو ہے کہ۔۔۔ سنت حق تو ہجرت کرچکی اور بدعت عام ہو گئی ہے۔ لوگ اس ہدایت و طریقۂ نبی، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کنارہ کش ہو چکے ہیں جو سب لوگوں کے لئے زندگی کا نصب العین ہے۔ اور ہم یہاں سے دعوت دے رہے ہیں۔۔۔ آئیے ہمارے ساتھـ سنت حبیب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آغاز نو کی طرف، جو محبوب خدا حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صورت کی توہین کرنا چاہتا ہے اس کا قوی جواب مسلمانوں کے مابین ایک مرتبہ پھر ہدایت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کی بحالی ہے۔ ہر مسلمان مرد اور عورت مخلوق کے سردار امام الوری (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہانت پر غمزدہ ہے۔ ہم سب دکھی ہیں۔ فوت شدہ سنت کو زندہ کیجۓ اور پھیلی ہوئی بدعت کا قلع قمع کیجۓ۔۔۔ مضبوطی کے ساتھـ سنت حبیب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تھام لیں۔ اپنی اولاد کو محبت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم دیں، ان کی سیرت پاک بیان کریں، ان کے اوصاف بتائیں تاکہ ہمیں یاد رہے کہ روز قیامت ایسی قومیں آئیں گی جن کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حوض سے دور کردیا جاۓ گا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پکاریں گے؛ میری امت میری امت۔۔۔ جواب دیا جاۓ گا: آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمائیں گے۔۔۔ مجھـ سےدور ہوجاؤ، مجھـ سے دور ہوجاؤ۔ (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ) (الأحزاب:36): ( اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا)۔ اگر ہم نے اپنی زندگی میں حقیقی پیروی کی تو ہم نے سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زندہ کردیا۔ اس طرح ہم اس حقیر اہانت کا بہت خوبصورت جواب دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
دوسرا محور
یہ دوسروں (غیرمسلموں) کے لئے خاص ہے۔ اس سے مقصود یورپی قومیں ہیں جن میں اکثریت اسلام کے ایک دین اور حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول اور آخری نبی ہونے کے بارے میں ناواقف ہے۔۔۔ یہ قومیں اس بات کی ضرورت مند ہیں کہ ان کے لئے اسلام کی تشریح اور اس کی وضاحت کی جاۓ۔ اس کی بنیادوں کو اجاگر کیا جاۓ اور اسلام کے بارے میں اٹھاۓ گۓ شبھات کا جواب دیا جاۓ ہم اس طرح یورپی باشندوں کو بتائیں کہ یہ ہے اصل اسلام۔ ہم پر لازم ہے کہ اسلام اور نبئ اسلام کے خلاف اس مھم کے علم برداروں اور عام یورپی عوام میں فرق کریں۔
اب یہ موقع ہے کہ اسلام اور نبئ اسلام کی تعریف کی مھم شروع کی جاۓ بالخصوص اب جبکہ مسلمان ملکوں میں زبردست مظاہروں نے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرادی ہے اور وہ اسلام اور شخصیت رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں پوچھنا شروع ہو گۓ ہیں؛ کہ یہ کون سی ذات ہے جن کی خاطر مسلم دنیا میں زبردست انقلاب دیکھنے میں آرہا ہے۔
ہمارے ہاں جو کچھ ہوا یہ یورپی انسان کے لئے ایک عجیب چیز ہے کیونکہ یورپ میں یہ ایک عام سی بات ہے کسی بھی شخصیت (کی ذات) پر حملہ کیا جا سکتا ہے اگرچہ وہ کوئی رسول ہی کیوں نہ ہو اور خالق کائنات کے نزدیک اس کا کتنا بڑا مرتبہ ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے ہاں ایسا پایا جانا معروف تاریخی اور معاشرتی حالات کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔
ہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ ہم ان قوموں تک اپنے پیغام کوکیسے پہنچا سکتے ہیں جو معلوماتی اور تاریخی تسلسل کا پس منظر رکھتی ہوں۔ ان لوگوں نے چرچ (کنیسہ) کی سرکشی سے چٹھکارے کی خاطر زبردست لڑائیاں لڑی ہیں، جس نے ان کے قلب و روح کو بے معنی اور سوچ کو گمان میں مبتلا کرکے غلام بنا رکھا تھا۔ اس چیز کا ہم سے تقاضا یہ ہے کہ ہم ان قوموں کی فطری سوچ کے مطابق مطالعہ کریں اور یہ مت بھولیں کہ مسلمانوں کی تصویر مہذب قوموں کی مانند مغربی باشندوں کے ذہن میں ڈانواں ڈول ہو چکی ہے بالخصوص 11 ستمبر، مڈریڈ اور لندن میں ہوۓ دھماکوں کے واقعات کے بعد۔ اس لئے اعتماد کی بحالی اور اسلام کے تہذیبی پہلو کی دوبارہ تشریح، جن قدروں کی جانب اسلام دعوت دیتا ہے اور جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت کو اجاگر کرتی ہیں، ان کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
تیسرا محور
سرکاری اور نجی سطح پر معاشرتی انجمنوں کے انداز گفتگو کا اعادہ، مذاہب کی اہانت کو روکنے کے بارے میں قانون سازی پر عملدرآمد کی خاطر انسانی حقوق کا اقرار، رسولوں اور انبیاء کرام کی حمایت، مذاہب کے پیروکاروں کے جذبات کا بالعموم اور مسلمانوں کے جذبات کا بالخصوص احترام۔ کیونکہ یہ مھم بار بار دھرائی جا سکتی ہے۔ خاص طور پر بحرانوں کو ہوا دینےکی کوشش میں پوشیدہ ہاتھوں کے پاۓ جانے کی وجہ سے ہم کسی نۓ بحران کے واقع ہونے کے منتظر نہ رہیں۔ بلکہ ہم پر واجب ہے کہ اس کے تکرار کو روکنے، اشاعت اسلام، حقیقت اسلام اور اسکی عظیم تہذیب سے قوموں کو آگاہ کرنے کے لئے متفقہ حکمت عملی وضع کریں۔ یہ ایسی دعوت ہے جسے ہم دین اسلام اور رسول اسلام سے محبت کرنے والے ہر ایک کو دے رہے ہیں۔
تو کیا اس کے لئے کوئی کمربستہ ہے؟!۔
مصری جماعت اسلامى حديث ما بعد العاصفة UR
بيانات -
|