English - عربي
  صفحہ اول ويب سائٹ ہم سے رابطہ زائرين کا ريکارڈ
  فتوے -: روزے دار كا بواسير وغيرہ كے ليے مرہم اور كريم استعمال كرنا - فتوے -: کسی شخص نے فجرکے بعد یہ گمان کرکے کہ ابھی اذان نہیں ہوئی سحری کھا لی اس کا کیا حکم ہے؟۔ - فتوے -: چاند ديكھنے كا حكم - فتوے -: سيكسى سوچ كے نتيجہ ميں منى كا انزال ہونے سے روزہ باطل ہو جائيگا؟۔ - فتوے -: روزے كى حالت ميں ناك كے ليے سپرے استعمال كرنا - نخلستان اسلام -: فصل کاٹنے کا وقت قریب آگیا - نخلستان اسلام -: نجات کی کشتی قریب آگئی -  
ووٹ ديں
مغرب کی اسلام دشمنی کے اسباب میں سے ہے؟
اسلام اور مسلمانوں سے نفرت
صحیح اسلام سے عدم واقفیت
تطبیق اسلام کی صورت میں غیراخلاقی خواہشات پر پابندی
تمام سابقہ اسباب
سابقہ را? عامہ
جہاد کا حکم -

۔(2-5) عصر حاضر کے نئے مسائل اور جہاد کے احکام

حال اور ماضی کے حالات میں بڑا فرق ہے، ہمارے اسلاف صالحین کی فقہ کی کتابوں میں آج کے مسلمانوں کو در پیش مسائل کے بارے میں فتوے اور احکام نہیں ملتے اس وجہ سے مجتہد علماء کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آج کے حالات کے مناسب جہاد کے احکام بیان کریں۔ آئے دن نئے مسائل رونما ہو رہے ہیں جو بہت سے احکام پر بلا شبہ واضح اثرات کے موجب ہوتے ہیں خواہ یہ اثرات مسائل کے مناسب شرعی حکم کے تعیین پر ہوں یا نئے امور کے مناسب شرعی حکم کے استنباط پر ہوں۔ اس اہم قضیے کے پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے ہم آنے والے صفحات میں، احکام جہاد پر، ان وقوع پذیر نئے امور اور عصر حاضر کے نئے مسائل کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں خواہ یہ اثرات مسائل کے پیش آنے کے مرحلے میں ہوں یا استنباط کے مرحلے میں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تیز رفتار ٹیکنولوجیکل ترقی، مسلم عقلیت پر روزانہ نت نئے وسائل مسلط کر رہی ہے جو اپنے مناسب شرعی حکم کے بیان کے لئے فقہی کوشش اور محنت کے ضرورت مند ہوتے ہیں اور یہ نئے امور فقہ کے تمام ابواب پر اپنے آپ کو مسلط کرتے ہیں مثال کے طور پر، آج ہمیں موجود بہت سے سوالات کے جوابات دینے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر تمام قسم کی تجربہ گاہی تولید کے بارے میں شرعی حکم، دودھـ کے بنک میں محفوظ ماؤں کے دودھ کا استعمال،  مغربی سمت میں سفر کرنے والا ہوائی جہاز کا مسافر اپنا روزہ کب کھولے جبکہ وہ سورج دیکھـ رہا ہو، فضائی جہاز (میزائل) پر سوار، پانچ وقت کی نمازیں کس وقت ادا کرے۔ سیاسی پارٹی کی تشکیل اور اقتدار کی تقسیم، اور انہیں جیسے دیگر مسائل ہیں جو اٴئمہ اسلاف کے سامنے نہیں آئے تھے۔ جہاد کے بعض احکام بھی نئے امور سے متاٴثر ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل مثالوں سے ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں۔

أ- مال غنیمت کی تقسم کا حکم:

فقہ کی کتابوں میں عام طور پر ایک فصل مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں ہوتی ہے۔

یہ وہ مال  ہوتا ہے جو فوج معرکہ کے ختم ہونے کے بعد حاصل کرتی ہے۔ اس فصل میں مال غنیمت کی تقسیم سے متعلق تمام احکام کی وضاحت کی جاتی ہے ان میں سے اہم قواعد یہ ہیں: مال غنیمت فوج میں مندرجہ ذیل طریقے سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ فوجیوں میں ٥/٢ کے بقدر مال غنیمت تقسیم کیا جاتا ہے بقیہ ٥/١ حصہ امام اپنے مصارف میں خرچ کرتا ہے۔ پیادہ کو ایک حصہ دیا جاتا ہے جبکہ سوار کو تین حصے دیئے جاتے ہیں دو حصے اس کے گھوڑے کے لئے اور حصہ اس کے لئے۔ اس تقسیم میں اسوقت کوئی دشواری نہیں تھی جبکہ ہر فوجی کے پاس اپنا اسلحہ ہوتا تھا لیکن فوج میں ترقی ہونے کے بعد  جبکہ فوج کی تشکیل ملک کی جانب سے کی جانے لگی تو اس حالت میں کسی فوجی کو اپنے سازوسامان اور ذاتی اسلحے کے ساتھـ فوج میں آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ دوسری طرف اسلحے اب کئی قسم کے ہوگئے ہیں مثال کے طور پر ٹینک، طیارے - میزائل - بم اور جنگی بحری جہاز وغیرہ، کیا مال غنیمت کی تقسیم میں آج کے ٹینک سوار کو، پرانے زمانے کے شہ سوار پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہوگا ؟۔ اور کیا ہوائی جہاز کے پائلٹ اور ٹینک ڈرائیور کو کچھـ نہیں ملے گا: بلا شبہ اس سلسلہ میں مناسب شرعی حکم جانے کے لئے نیا اجتہاد واجب ہو جاتا ہے۔

ب- دار الحرب میں شادی کا حکم:

پرانے زمانے کے بعض فقہاء نے دشمن کی زمین یا دار الحرب میں مسلمان کی شادی کا قضیہ پیش کیا اور اس کی متعدد صورتیں پیش کیں ہیں اور وہ درج ذیل ہیں:

١- مسلمان، دشمن کی زمین پر، مسلم فوج میں ہو تو اس حالت میں اسے شادی کی اجازت ہے۔

٢ - مسلمان دشمن کے پاس جنگی قیدی ہو تو اس کے لیے وہاں شادی کرنا یا اس کے ساتھـ بیوی کے بھی قید ہونے کی حالت میں اسی خدشہ سے ہم بستری جائز نہیں کہ دیگر کافر بھی ایسا کریں، شادی کرنے کی حالت میں اگر اس کے لڑکا پیدا ہو تو کافر اس پر غالب ہوں گے اور اسے کافر بنائیں گے یہ رائے امام احمد اور امام زھری کی ہے اور حضرت امام حسن کے نزدیک یہ مکروہ ہے۔

٣ - مسلمان، تاجر یا اسی طرح کسی اور حیثیت سے، امن وامان کے ساتھـ دار الحرب میں داخل ہو تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اُن میں شادی کرے۔ بجزا اس کے کہ اس پر شہوت غالب آجائے اور اسے گناہ کے ارتکاب کا خدشہ ہو جائے اس حالت میں وہ کس مسلمہ سے شادی کرے اور اس سے عزل کرے تاکہ اولاد پیدا نہ ہو کہ کافر اسے نا پسند کریں اس کا بیٹا کافر ہو۔

اگر ہم  جہاد کی اسلامی تحریکوں میں کام کرنے والوں کو دیکھیں کہ وہ ان اقوال پر کس طرح عمل کرتے ہیں تو ان میں سے بعض یورپی ممالک، امریکہ اور دیگر ممالک میں شادی کی حرمت کے قائل ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ ممالک دار الحرب ہیں ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں اسلامی شریعت نافذ نہیں ہے۔ ان لوگوں کے قول کے مطابق، مسلمان کی شادی کی حرمت میں پوری دنیا آجاتی ہے خواہ مسلمان جنگی قیدی ہو یا امن کے ساتھـ ان ممالک میں داخل ہوا ہو۔ اور اگر شہوت کے غلبہ کے باعث شادی ضروری ہو جائے تو وہ اسی سے عزل کرے تاکہ وہ حاملہ  نہ ہو۔ آئیے تصور کریں کہ یورپ، امریکہ اور دوسرے ممالک جہاں مسلمانوں کی کمیونٹیاں ہیں اور وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ان مسلمانوں پر اگر یہ قوانین نافذ کئے جائیں تو کیا صورت ہوگی۔

ہمارے خیال میں صحیح یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں رونما ہوئے نئے امور پر غور کیا جائے۔ جن کی بنا پر مسلم آبادیاں ان ممالک میں امن و سکون اور اطمنان سے رہتی ہیں اور ان ممالک میں مسلمان یا ان کی اولادیں اُس خوف کی حالت میں نہیں ہیں جس کی بنا پر ان قدیم فقہاء نے یہ رائے دی تھی۔

جـ- دشمن کی سر زمین میں قرآن کریم ساتھـ لے جانے کا حکم:

فقہاء کی ایک بڑی جماعت  دشمن کی سر زمین میں قرآن کریم ساتھـ  نہ لے جانے کی حامی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: ابن عبد البر نے کہا کہ: فقہاء متفق ہیں کہ مسلمان سرابا (چھوٹی جماعتیں) اور فوجیوں کی مختصر جماعت کے ساتھـ قرآن کریم نہ لے جائیں اس طرح سے قرآن کی بے حرمتی کا خدشہ ہے، جبکہ بڑی جماعت کے ساتھـ یہ محفوظ ہو تو اس میں مختلف آرا ہیں۔ امام مالک مکمل طور پر منع کرتے ہیں، امام ابو حنیفہ نے تفصیل سے بیان کیا ہے امام شافعی نے خوف ہونے یا نہ ہونے دونوں حالتوں میں مکروہ بتایا ہے۔ بعض نے وہی رائے اختیار کی جو مالکیوں کی ہے۔ اگر ہم آج بین الاقوامی تعلقات کے نئے امور اور صورتحال پر نگاہ ڈالتے ہیں تو منع کرنے کی علّت نہیں پاتے خواہ یہ کراہیت کے لئے تھی یا حرام ہونے کے لئے۔ آج ان دونوں کی علت اور وجہ نہیں پاتے۔ آج بہتر اور افضل یہی ہے کہ مغربی ممالک کے مسافر یا وہاں مقیم مسلمان، اپنے ساتھـ قرآن شریف لے جائیں اہانت یا تحریف کا خوف دل سے نکال دیں۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ ان تمام مسائل میں اجتہاد، گہرے غور وفکر اور فقہ کی ضرورت ہے۔

سابقہ تمام مثالوں سے، قدیم فقہاء کے اقوال میں نظرثانی کی اہمیت واضح ہوتی ہے تاکہ بعض امور اور مسائل جو خاص نوعیت کے ہیں اور جن کے بارے میں نئے امور رونما ہو چکے ہیں ان امور ومسائل سے متعلق شرعی حکم کا فیصلہ کرنے میں ان پر مکمل انحصار نہ کیا جائے خواہ یہ ٹیکنولوجی کے مسائل ہوں یا سیاسی نظاموں یا بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں ہوں۔ یہ نئے امور اگر ان عظیم فقہاء کے سامنے ہوتے تو ان کی آراء اس سے مختلف ہوتیں جو ہم نے اُن سے نقل کی ہیں۔

المستحدثات العصريــة وأحكـام الجهــاد 2-5 UR



جہاد کا حکم -

  • اخبار
  • ہمارے بارے ميں
  • نخلستان اسلام
  • بيانات
  • مسلم خاندان
  • موجودہ قضيے
  • کتابيں
  • حادثات
  • جہاد کا حکم
  • ملاقاتيں
  • ويب سائٹ کي خدمات
  • اپني مشکلات بتائيں
  • فتوے
  • ارئين کي شرکت