|
۔(1۔1) جہاد کی روشن مثالیں تاریخ نے اپنے صفحات پر اُس سے زیادہ بلند، شاندار، پاک اور سچی مثال ریکارڈ نہیں کی جو مسلمانوں نے ہر زمانے میں اپنے مقدس جہاد میں پیش کی ہیں انہوں نے یہ مثالیں اپنے پاک خون سے تحریر اور ان کی تصویر کشی کی ہے۔ یہ سورج کی مانند روشن تھیں ان پرنہ کوئی بادل اور نہ ہی کوئی پردہ حائل ہوا۔ ان کا لازوال جہاد آج تک مشعل راہ ہے۔ غور وفکر کرنے والوں کی راہ روشن کرتا ہے یہ گمراہ اور شر انگیزوں کے دلوں کو خاکستر کرنے والی شدید آگ ہے، اپنے رب کے حکم سے ہر باطل کو تباہ وبرباد کرتی ہے اپنے شھاب سے ان کے شبہات کو نشانہ بناتی ہے اپنے شعلوں سے ان کے گمراہ چہروں کو خاکستر اور اپنی تیز روشنی سے ان کی بینائی اچک لے جاتی ہے۔ (فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ) (التوبہ:45): (پس وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہیں)، (كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا) (النساء:91): (جب کبھی پھیرے جاتے ہیں فتنہ کی طرف تو منہ کے بل گر پڑتے ہیں)۔ اور ان پر آج تک ہر طرف سے اللہ رب العزت کی آگ برسائی جاتی ہے یہاں تک کہ اللہ رب العزت کا وعدہ پورا ہو (إِنَّ اللَّهَ لاَ يُخْلِفُ المِيعَادَ) (آل عمران:9): (بیشک اللہ تعالی نہیں پھرتا اپنے وعدہ سے)۔
شجاعت وبہادری سے ان کا عظیم جہاد صرف میدان کار زار اور جھگڑوں کے علاقوں تک محدود نہیں تھا بلکہ جہاد ہر میدان میں تھا۔ صبر کے میدان میں ان کے جہاد کی عظمت کے سامنے عقلیں ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور ان کی شان و شوکت کے آگے سر احتراماٴ جھک جاتے ہیں۔
یہ زلزلوں، تیز وتند ہواؤں اور آندھیوں کے سامنے ثابت قدم اور اس کی قوت وطاقت سے بڑے بڑے سورما خوفزدہ رہتے ہیں اور اس کی عظمت کے سامنے بہادروں کی ہمتیں پست ہوجاتی ہیں۔ ان کا جہاد ، جہاد نفس کی شاندار مثال تھا۔ کس قدر شدید اور کس قدر بھاری تھا۔ یہاں تک کہ ان کے نفس ان کے ما تحت ہوگئے اور لگام ان کے حوالے کر دی چنانچہ وہ اپنے پاک اور مطمئن نفوس کو اللہ رب العزت کی طرف لے گئے اللہ رب العزت نے انہیں اپنی محبت کی جنت میں اس طرح داخل کیا کہ وہ اللہ سے خوش اور اللہ ان سے خوش ہے۔
ان کا جہاد، زمین، اھل اور مال کو چھوڑنے سے قبل اپنی آمدنی کو ترک کرنے اور تعلقات کو منقطع کرنے کی شاندار مثال تھا۔ چنانچہ جب انہوں نے اللہ رب العزت کی خاطر انہیں ترک کیا تو اللہ رب العزت نے یہ چیزیں انہیں واپس کردیں، اور انہیں اِن چیزوں کی طرف لوٹا دیا اور اپنی رحمت سے انہیں مزید عطا فرمایا۔ کیا اس سے بہتر کوئی بات ہے کہ ان کا اجر اللہ رب العزت پر ہو۔ (وَمَن يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِراً إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ المَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ) (النساء:100): (اور جو شخص نکلے اپنے گھر سے ہجرت کر کے اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف، پھر آلے اُس کو (راہ میں) موت تو ثابت ہوگیا اس کا اجر اللہ کے ذمہ)۔
میدان جنگ اور معرکہ آرائی میں ان کا جہاد بہادرانہ تھا انہیں کوئی خوف نہیں ہوتا اور نہ ہی خوف ان کی جانب راہ پاتا۔ اُن کے سامنے دو عظیم مقاصد میں سے صرف ایک مقصد ہوتا فتح ونصرت یا شھادت۔
ان کا جہاد جس طرح معرکہ آرائی میں شاندار تھا اسی طرح پیش قدمی میں بھی شاندار تھا وہ پلٹ کرحملہ کرنے میں شیر تھے جو فتح ونصرت کے علاوہ کسی اور چیز سے واقف نہیں تھے۔ تلوار بازی کے دھنی ۔ موت سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی بشدت پھیرتے بلکہ اُس جماعت کی طرف ہوجاتے جو دشمن پر پلٹ کر حملہ کرتی اور ان کے خلاف لڑتی۔ شھادت کی خواہش میں ان کا جہاد عظیم تھا۔ اللہ کی راہ میں موت ان کی تمنّا تھی۔ اس کے حصول میں اُن کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں تھی ـــــــــــ اور نہ کسی اور واجب کی ادائیگی اُن کے لیے کافی ہوئی۔ اور نہ ہی یہ سخت اور عظیم ذمہ داری اُن سے ساقط ہوئی اور نہ ہی اُن کے بے تحاشہ آنسو تمہیں تعجب میں مبتلا کریں جب کہ وہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں سواری مہیا فرمائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً أَلاَّ يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ) (التوبہ:92): (میں تو تمھاری سواری کے لیے کچھـ بھی نہیں پاتا، تو وہ رنج وغم سے اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں کہ انہیں خرچ کرنے کے لیے کچھـ بھی میسر نہیں)۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یہ نفوس قدسیہ، شجاعت بہادری، عزت وکرامت، سخاوت اور عطاء کے مکمل ترین مفہوم میں مجاہد تھےمیرے برادر اب آپ کو ان عظیم شخصیتوں کی خبریں اور میدان جہاد میں ان کے شوق شہادت کے بارے میں جاننے کی خواہش ابھر رہی ہوگی اور اب وقت آچکا ہے کہ آپ کے لیے ہم ان کے باغات سے کچھـ پھول توڑ لائیں ہو سکتا ہے اِن سے تمھارے چہروں پر خوشی اور ہر طرف انواع واقسام کی بہترین خوشبو پھیل جائے۔
اخلاق کی تلوار:
کیا تاریخ اخلاق کی تلوار سے بھی واقف ہے؟ جنگ میں لڑنے والے کسی اخلاق سے واقف نہیں ہوتے۔ اور نہ ہی ان کے نزدیک اقدار یا اصول ہوتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی ہی تلواریں ہیں یا ایسی تلواریں ہیں جن کی جھنکار اور چمک ودمک کے سائے میں رحمن کی جنت ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اور جان لو کہ جنت تلواروں کی چھاؤں میں ہے) (صحیح مسلم:3276) یہ تلواریں دھوکے۔ خیانت۔ حقارت وذلت اور کم ظرفی سے واقف ہیں۔ بلکہ یہ انسان کی عزت وکرامت کی محافظ اور روح وجسم کی قدر وقیمت سے واقف ہیں۔ امام المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نافرمانوں اور سرکشوں کے خلاف اپنی تلوارکھینچنے والوں (یعنی شمشیر بازوں) سے فرماتے ہیں (جس نے اپنی پناہ میں رہنے والے(یعنی جس سے عہد ہے) شخص کو قتل کیا اسے جنت کی کوئی خوشبو تک نہ ملے گی حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے ہی پائی جاتی ہے) (صحیح بخاری:2930) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثلہ کرنے (یعنی ہاتھـ پاؤں کاٹنے اور چہرہ بگاڑنے) سے منع فرمایا ہے اور اس کے مرتکب کی شدت سے مذمت فرمائی ہے۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق رحیمانہ تلواریں، کمزوروں، مجبوروں، مظلوموں، پرامن اور امن چاہنے والوں کو قتل نہیں کرتیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے فرماتے ہیں: (جاؤ اللہ کے نام کی برکت کے ساتھـ اور اللہ کی تائید کے ساتھـ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر، (خبردار) تم شیخ فانی ضعیف وکمزور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، نہ بچے کو، نہ کم سن کو اور نہ عورت کو، اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا) (سنن ٲبی داؤد:2247)۔ اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ۔اللہ کی سونتی ہوئی تلوار۔ سے فرمایا (عورتوں اور مزدوروں کو قتل نہ کرنا) (سنن ابی داؤد:2295)۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اپنے فوجیوں کے قائدین کو ہدایت فرماتے کہ "کاشتکاروی کے بارے میں اللہ سے ڈرو جو تمھارے خلاف اعلان جنگ نہیں کرتے"۔ کہاں ہیں یہ عظیم اخلاق۔ توپیں، بم، ٹینک، طیارے اور میزائل تو کسی پر رحم نہیں کرتے یہ صرف تباہی وبربادی پھیلاتے ہیں۔
جی ہاں تباہی۔۔۔ ہر چیز کی تباہی،جانوں کی، زرعی املاک کی۔ سرسبزوشاداب اور خشک وبنجر زمین ہرچھوٹی اور بڑی چیز کی تباہی۔ پھر تباہی وبربادی پھیلانے والوں کو یہ گمان ہے کہ وہ تہذیب، ترقی ، آزادی اور امن کے حامی ہیں۔ (سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ) (النور:16): (اے اللہ تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان اور تہمت ہے) اور ان کے صبر سے قندیل ہدایت روشن ہوئی اور یہ ہے اللہ رب العزت کی راہ میں ان کا جہاد، ان کے باغ صبر کا ایک پھول تاکہ ہم ظلمت کدوں میں قندیل ہدایت کی عظمت سے واقف ہوں۔
حضرت خبیب۔۔۔ آپ خبیب کے بارے میں کیا جانتے ہیں: اعظم شھید آپ کا جسم زیر زمین اور آپ کی روح ستاروں کے جھرمٹ سے بلند۔ صبر کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں شھید ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ نے فرمایا جو صبر کرتے ہوئے وفات پائے وہ سب سے بہتر شھید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کو بعض صحابہ کرام کے ساتھـ تبلیغ اسلام کے لیے قبیلہ عضل اور قارہ (کے لوگوں کی طرف) بھیجا۔ لیکن اِن لوگوں نے بد عہدی اور خیانت کی، بعض صحابہ کرام راہ خدا میں شھید ہوئے اور بعض کو قیدی بنا لیا گیا۔ انہیں میں حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ تھے جو اصل میں آزاد تھے بد عہدوں نے آپ کو اہل مکہ کے ہاتھوں بطور غلام فروخت کر دیا انہوں نے آپ کو قید کردیا۔ اہل مکہ نے حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ عظیم، شریف اور کریم قیدی نہیں دیکھا تھا۔ اللہ رب العزت کے یہاں آپ کی عزت کے لئے کیا یہ کافی نہیں کہ لوگ قید خانے میں آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ کو انگور کھاتے ہوئے پاتے ہیں جبکہ پورے مکہ میں کوئی پھل نہیں ہے چنانچہ وہ آپ سے کہتے ہیں یہ تمھارے پاس کہاں سے آئے؟ آپ فرماتے ہیں: "یہ اللہ تعالی کے پاس سے ہے، بے شک اللہ تعالی جسے چاہے بے شمار روزی عطا فرماتا ہے" حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس خبریں آتی ہیں کہ ظالم کافروں نے آپ کو کھجور کے تنے سے باندھ کر، تیروں اور نیزوں سے ہلاک کرنے کا عہد شکن ظالمانہ فیصلہ کرلیا ہے؛ آپ کو موت کی سختی، تکلیف اور شدت کی کوئی پرواہ نہ ہوئی اور نہ ہی آپ کے صبر اور عزیمت میں کوئی فرق آیا بلکہ تاریخ نے بہادری اور اعلی اخلاق کے دو واقعات ریکارڈ کئے جسے بیان کرنے سے قلم عاجز ہے۔
پہلا واقعہ: جب حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کو علم ہوا کہ انہیں قتل (شھید) کر دیا جائے گا ان کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں پڑی ہوئی ہیں انہوں نے چاہا کہ اللہ رب العزت سے فطری حالت میں ملیں (یعنی جسم پرنا پسندیدہ بال نہ ہوں) انہوں نے اپنے قید کرنے والی کی بیوی سے کہا کہ میری بیٹریاں کھول دو اور مجھے تیز چھری (استرا) دے دو۔ پس میں جسم سے نا پسندیدہ بال صاف کردوں اس کے بعد تم پہلے کی طرح بیٹریاں پہنا دینا۔ میرا تم سے اللہ کا عہد اور امانت ہے، چنانچہ عورت نے ان کی بیٹریاں کھول دیں اور اپنے بیٹے کو چھری (استرا) دیکر بھیجا، اس موقع پر خبیب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میرے ہاتھـ میں چھری ہے اور کوئی شخص لڑکے کو مجھـ سے نہیں بچا سکتا ہے اور یہ میرے دشمن اور مجھے قید کرنے والے کا بیٹا ہے اور کل مجھے قتل کیا جائے گا، عورت کی نگاہیں مجھـ پر ہیں اس کے چہرے پر شدید خوف طاری ہے، مجھے صرف عہد کی پاسداری اور وفاداری نےلڑکے کو قتل کرنے سے روکے رکھا چنانچہ میں اپنے عہد پر قائم رہا اور اس سے کہا مجھے بیٹریاں پہنا دو اس نے مجھے دوبارہ قید کر دیا اور میں بیٹھا اللہ رب العزت سے ملاقات کا انتظار کرتا رہا۔
دوسرا واقعہ: شہادت کے دن صبح کے وقت جب کفار حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کو مقام شہادت پر لے گئے تو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت مانگی، قاتلوں نے مہلت دے دی اور انہوں نے نماز ادا کی اور سلام پھیر کر کہا دیر تک نماز پڑھنے کو جی چاہتا تھا، لیکن سوچا، کہ دشمن یہ نہ کہیں کہ موت سے ڈر گیا ہے، اور آسمان کی طرف ہاتھـ اٹھا کر یہ دعا کی اے اللہ اِن سب کو ایک ایک کر کے گھیر لے اور انہیں مکمل طور پر ہلاک کر دے اور ان میں سے کوئی باقی نہ رہے، اس کے بعد آپ نے جو فرمایا اس سے ہر عقل مند دہشت میں آجاتا ہے انہوں نے مقتل میں کھڑے ہوکر انتہائی جوانمردی سے فی البدیہہ یہ اشعار پڑھے
انبوہ درا نبوہ (جھنڈ درجھنڈ) لوگ میرے ارد گرد کھڑے ہو رہے ہیں
انہوں نے بڑے بڑے قبیلوں کو بلا لیا ہے
ان قبائل نے اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی بلا رکھا ہے
اور مجھے ایک بلند لکڑی یعنی سولی کے پاس لے آئے ہیں
اللہ رب العزت سے فریاد کرتا ہوں، اپنی بے وطنی، بے کسی اور درماندگی کی
اُن ارادوں کی جو میری موت کے بعد یہ لوگ رکھتے ہیں
اور انہوں نے مجھے کفر اور موت دونوں میں سے کسی کا اختیار دیا ہے
مگر کفر اختیار کرنے سے تو مجھے موت سھل ہے
میری آنکھوں سے لگاتار آنسو جاری ہیں مگر کچھـ بے قراری نہیں
اور موت سے مجھے اس لیے خوف نہیں کہ میں مر جاؤں گا
بیشک میں جانتا ہوں کہ میں خدا کی طرف جا رہا ہوں
جب میں اسلام کے لیے قتل کیا جا رہا ہوں
تو مجھے اسکی پرواہ نہیں کہ کس پہلو قتل کیا جاؤں گا
یہ جو کچھـ ہے خالص اللہ کےلیے ہے اور اگر وہ چاہے گا تو
جسم کے ان پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکت نازل کرے گا
یا للبطولہ
واہ کیا بہادری، مردانگی، صبر اور ثابت قدمی ہے۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ تاریخ کے صفحات کو مزین کر رہے ہیں ابو سفیان اُن سے کہتے ہیں: کیا تمھیں خوشی نہ ہوتی کہ اس وقت تمھارے بدلے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) قتل کئے جاتے اور تم اپنے اہل و عیال میں ہوتے، حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم مجھے خوشی نہیں ہوگی کہ میں اپنے اہل و عیال میں رہوں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میری جگہ، میں تو اپنی جان کو اس بات کے برابر بھی عزیز نہیں سمجھتا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلووں میں کانٹا بھی چبھے، کیا ان لوگوں کی کوئی مثال ہے، کیا اِن پاک نفوس کی مردانگی اور ان کے ایمان میں کوئی اُن کی برابری کرسکتا ہے؟۔
تو یقینا اس کا اجر اللہ تعالی کے ذمے ہوگیا، جب انہیں دنیا کی قدر وقیمت اور حقیقت کا علم ہوا تو یہ ان کے نزدیک حقیر وقابل نفرت ہوگئی اہل ایمان نے اسے ترک کردیا، اسے (جنت کے بدلے) فروخت کردیا انہوں نے اپنے پالنہار کی طرف طویل سفر کئے اِن میں سے کوئی بھی تل برابر کسی چھوٹی چیز اور کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے مالک بھی نہیں ہیں انہوں نے اپنے دل سے اسے ترک کردیا، چنانچہ اپنے وطنوں سے ہجرت کرنا اُن کے لیے آسان ہوگیا انہیں کوئی دکھـ نہیں کہ موت کہاں ہے اور کیسے ہے؟ پس آخری منزل خوشیوں بھرا علاقہ ہے اور وہاں (أُوْلَئِكَ يُجْزَوْنَ الغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلاماً) (الفرقان:75): (یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند و بالا خانے دیئے جائیں گے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا)۔
جب وہ اللہ کی راہ میں ہوتے ہیں تو ان کا اجر اس کے ذمے ہوتا ہے اور جس کا اجر رب کریم پر ہو تو وہ سعادت مند ہوتے ہیں اور آنکھیں دار خلود سے ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ (خَالِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَراًّ وَمُقَاماً) (الفرقان:76): (ہمیشہ اس میں رہیں گے کیا ہی اچھی ٹھہرنے اور بسنے کی جگہ ہے)۔
دیکھئے برادر: میں تمھارے سامنے ان کے واقعات بیان کرتا ہوں تاکہ آپ ان کے منفرد مقام ومرتبے سے واقف ہوں جو انہیں ہر زمانے میں حاصل رہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص کہتےہیں: "میں پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا۔ اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھـ غزوہ میں شریک ہوتے تھے ہمارے پاس سوائے کیکرکے پتوں اور کیکرکے کوئی کھانے کی چیز نہ تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم لوگ بکریوں کی طرح مینگنی کرتے تھے جو آپس میں نہیں ملتی تھیں" (صحیح بخاری:5972)۔
مکہ کے نوجوان خوبصورت زلفوں والے معطر مصعب بن عمیر نسیم جن کا ذکر کرتی ہے، انہوں نے اللہ رب العزت کے لیے ہر چیز چھوڑدی اپنا شہراور وطن چھوڑا ریشم اور ریشمی کم خواب (کپڑے کی ایک قسم) کو ترک کیا، اپنے اہل و عیال اور مال ودولت کو خیر آباد کہا اور اللہ رب العزت کی طرف آئے، لوگوں کو اللہ رب العزت کی طرف بلاتے اس کا پیغام انہیں پہنچاتے۔ زندگی کے آخری وقت تک اس کی راہ میں جہاد اور مدافعت کرتے رہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ان کے سینے اور گردن کے درمیان تھا؛ آپ کا دایاں بازو کٹ گیا تو آپ نے جھنڈا بائیں ہاتھـ سے تھام لیا؛ اسے گرنے نہ دیا۔ اور جب آپ کا بایاں ہاتھـ علیحدہ ہوگیا تو اسے اپنے سینے اور گردن پر اسے بلند رکھا یہاں تک کہ آپ شھید ہوگئے، اہل زمیں اور اِن سے بڑھ کر آسمان نے ان پر آنسو بہائے۔
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھـ ہجرت کی، ہم اللہ رب العزت کی خوشنودی چاہتے ہیں چنانچہ ہمارا اجر اللہ رب العزت کے ذمّے ہے۔ ہم میں سے جو شھید ہوئے اور جن کا اجر کم نہیں ہوا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ہیں احد کے دن شھید ہوئے انہوں نے ایک چھوٹی سی چادر چھوڑی یہ اس قدر چھوٹی تھی کہ اگر ہم اُن کا سر ڈھانپتے تو پاؤں کھل جاتے اور اگر اُن کے پاؤں ڈھانپتے تو سر کھل جاتا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کا سر ڈھانپنے کا حکم فرمایا اور پاؤں گھاس سے ڈھانپنے کو کہا۔ چنانچہ ان کی حسن جزاء، ان کے مقام آرام، ان کی جائے سکونت اور ان کے انجام کے بارے میں سوال نہ کیا جائے اُن کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کا اجر اللہ کے ذمہ پر ہے۔ (وَمَن يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِراً إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ المَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ) (النساء:100): (اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالی اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نکل کھڑا ہوا، پھر اسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقینا اس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ ثابت ہو گیا)۔
نماذج جهادية مضيئة 1-1 UR
جہاد کا حکم -
|