English - عربي
  صفحہ اول ويب سائٹ ہم سے رابطہ زائرين کا ريکارڈ
  فتوے -: روزے دار كا بواسير وغيرہ كے ليے مرہم اور كريم استعمال كرنا - فتوے -: کسی شخص نے فجرکے بعد یہ گمان کرکے کہ ابھی اذان نہیں ہوئی سحری کھا لی اس کا کیا حکم ہے؟۔ - فتوے -: چاند ديكھنے كا حكم - فتوے -: سيكسى سوچ كے نتيجہ ميں منى كا انزال ہونے سے روزہ باطل ہو جائيگا؟۔ - فتوے -: روزے كى حالت ميں ناك كے ليے سپرے استعمال كرنا - نخلستان اسلام -: فصل کاٹنے کا وقت قریب آگیا - نخلستان اسلام -: نجات کی کشتی قریب آگئی -  
ووٹ ديں
مغرب کی اسلام دشمنی کے اسباب میں سے ہے؟
اسلام اور مسلمانوں سے نفرت
صحیح اسلام سے عدم واقفیت
تطبیق اسلام کی صورت میں غیراخلاقی خواہشات پر پابندی
تمام سابقہ اسباب
سابقہ را? عامہ
مسلم خاندان -

جب بیوی کے پاس امن و امان کا فقدان ہو

بقلم/ علی دیناری۔۔ زیادہ تر ازدواجی زندگی کی ظاہری پریشانیاں اس کا حقیقی سبب بیوی کے دل کا اپنے شوہر کے ساتھـ ہونے کے باوجود بھی امن و امان سے خالی ہونا ہے اور جب بیوی کے پاس امن و امان کا فقدان ہو تو اس صورت میں بیوی اپنی سعادت مندی کا احساس بھی کھو دیتی ہے، اور اس کا مزاج چڑچڑا ہو جاتا ہے اور اس کو ایک طرح کی تنگدستی لاحق ہو جاتی ہے اور ناراضگی چھائی ہوئی ہوتی ہے جب بھی کوئی ہوا چلتی ہے اس کے دل میں دبی ہوئی چنگاری اور چھپی ہوئی بے چینی بھڑک اٹھتی ہے۔ اور جب انسان کی پاکیزگی مکدّر ہو جائےاور کشادگی کی جگہ تنگی آ جائے تو وہ معمولی سا ٹکراؤ بھی برداشت نہیں کرتا اور چھوٹے چھوٹے وجوہات کی بناء پر بھی ہنگامہ کھڑا کر دیتا ہے۔

اور اس عورت کی بدقسمتی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے اس طور پر کہ اس کی بےچینی کی وجہ خود اس کا پیارا شوہر ہے جس سے بے پایاں محبت کرتی ہے اوراس کا احترام کرتی ہے اور اس کے ساتھـ زندگی گذارتی ہے۔۔۔ اور بسا اوقات اس کے اندر وہ خوبیاں بھی پا لیتی ہے جس کے بارے میں شادی سے پہلے تصور میں سوچتی رہتی تھی، لیکن افسوس در افسوس کہ وہ اس (شوہر) کی طرف سے امن و امان نہیں پاتی۔

پھر یہاں سے عجیب و غریب طرح کی پریشانیاں اور انوکھا ردّ عمل سامنے آتا ہے حالانکہ اس کے اسباب اس لائق نہیں ہوتے کہ بیوی اس طرح کا رد عمل ظاہر کرے۔ اور بسا اوقات پریشانیوں میں گھری ہوئی بیوی بنا کسی قصد و ارادہ کے برانگیختہ ہوجاتی ہے اور شوہر کے ساتھـ طرح طرح کے اختلافات شروع ہو جاتے ہیں پھر دونوں اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کبھی کبھی یہ پریشانیاں اور بھی گمبھیرو سنگین ہو جاتی ہیں اور دوسرے لوگ حل تلاش کرنے کے لئے دخل اندازی کرتے ہیں لیکن وہ بھی الجھـ جاتے ہیں اور بسا اوقات وہ بھی کسی حل تک نہیں پہونچ پاتے یا کوئی حل نکالتے ہیں لیکن وہ عارضی و سطحی قسم کا ہوتا ہے پریشانی کی اصل تہ تک پہونچ کر اس کا علاج نہیں کرتا، اور حقیقت میں اس کے تار بیوی اور شوہر ہی سے ملے ہوئے ہوتے ہیں ان کے سوا کسی تیسرے سے نہیں۔ اور کبھی کبھی کوئی آدمی ذہانت کی بنیاد پر بیوی کی تعبیر سے سمجھـ جاتا ہے جو ان حقیقی وجوہات کی طرف اشارہ کرتی ہے جو بیوی کے اندر خفیہ طور پر چھپی ہوئی ہوتی ہے، دراصل وہی سارے پریشانیوں کی جڑ ہوتی ہے اور ان ظاہری وجوہات کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی جس کا بیوی دعوی کرتی ہے۔ بے شک عورت اس حد تک صبر کر سکتی ہے اور اتنا زیادہ قربانی دے سکتی ہے کہ شوہر حضرات اتنا سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔ بس اس کی شرط یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر کی طرف سے امن و امان محسوس کرے، لیکن جب اس طرح کے امن و امان کا فقدان ہو تو وہ اتنا شکوہ کرتی ہے کہ بس اللہ کی پناہ۔

عورت کے اندر بےچینی کہاں سے آتی ہے؟!

عورت کے اندر اس طرح کی گھبراہٹ اور بے چینی اس کے شوہر کی طرف سے کئی راستے سے آتی ہے:

(1) بسا اوقات اس کا شوہر بہت زیادہ غصّے والا ہو جو غصّے میں بے قابو ہی نہیں بلکہ ساری چیزیں تباہ وبرباد کر ڈالتا ہو اور جلد بازی میں طلاق بھی بول جاتا ہو تو ایسی صورت حال میں وہ (بیوی) محسوس کرتی ہے کہ جیسے وہ ہوا کے اندر اڑتی ہوئی کوئی پر ہو اور اس کا سارا کا سارا مستقبل اس پاگل کے قبضے میں ہے اور ممکن ہے وہ کسی بھی دن اپنے آپ کو اچانک مطلقہ پائے اور مطلقہ عورتوں کی طرح دردر کی ٹھوکریں کھائے۔ وہ جب بھی کسی مصیبت زدہ مطلقہ - جس کو اس کے غیر مستحکم مزاج اور بر انگیختہ شوہر نے غصے کی حالت میں طلاق دے دیا ہو- کو دیکھتی ہے وہ سوچتی ہے کہ وہ خود یہ مطلقہ عورت ہے اور اس شکّی عورت کی موجودہ پریشانیاں ہی قریب مستقبل میں اس کی بھی پریشانیاں بنیں گی جو بسا اوقات کسی بھی وقت آ سکتی ہیں۔

(2) کبھی کبھی تباہ کن تشویش و بےچینی بہت ہی خطرناک جگہوں سے آتی ہے وہ یہ کہ اس کا شوہر ان لوگوں میں سے ہے جو جھگڑتے وقت گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں، تو وہ کسی بھی دین و شریعت کی پابندی نہیں کرتا ہے اور نہ ہی تقوی و پرہیزگاری کی رعایت کرتا ہے اور نہ اللہ ہی سے خوف کھاتا ہے، اور بالائے ستم کہ لوگوں کے سامنے اس کی ظاہری شکل و صورت ایسی نہیں ہے، کیونکہ وہ مسجد میں امام ہے، اپنے دوستوں کے سامنے بہت امانتدار ہے، کوئی آدمی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ ایسی غدّاری کر سکتا ہے، یا اس (بیوی) کی زندگی کو تباہ و برباد کر سکتا ہے یا اس کو ایسی دھمکی دے سکتا ہے جس طرح کا اس پر ظلم کرنا جائز نہ ہو۔۔۔ ایسی صورت حال میں بیوی اپنے اس شوہر کو اپنا دشمن تصور کرتی ہے اور یہ خیال کرتی ہے کہ وہ اس کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہی ہے۔

مسکین عورت اپنی کمزوری کے ساتھـ ایسے طاقتور کے چنگل سے اپنا حق حاصل کرنے کے لئے کیا کرے؟

اس دن اس کے لئے صرف اور صرف تباہی و بربادی ہے، اس جیسی عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس (شوہر) کے شر سے بچنے کے لئے ابھی سے ہوشیار رہے اور اپنی زندگی اس کے ساتھـ بہت ہی احتیاط اور چوکنا ہو کر گزارے۔

یہ بیوی چاہے جتنا ہی اپنے شوہرکے حق میں نرم پڑ جائے یہاں تک کہ اس کے ظاہری تقوی و پرہیزگاری کے پس پردہ خواب بھی دیکھنے لگے پھر بھی وہ (شوہر) اس پر خونخوار بھیڑیا بن کر بھونکنے لگتا ہے۔۔۔ اور بیوی کے گذشتہ یادوں سے شوہر کے ظالمانہ مواقف سامنے لاتا ہے اور اس کے شوہر کا اللہ کے حدود کو پار کرنے والا منظر پیش کرتا ہے۔۔۔ اور اس کو آواز دیتا ہے کہ تیار رہے اور احتیاط برتے دھوکہ نہ کھائے۔۔۔ پھر عورت یہاں کسی بھی وجہ سے یا بغیر کسی وجہ کے ساری کا یا پلٹ دیتی ہے اور بہت ساری پریشانیاں کھڑی کر دیتی ہے۔

(3) اور کبھی بیوی اس بے چینی کا شکار ہو جاتی ہے کہ وہ عمردراز ہوگئی ہے لہذا یہ فطری بات ہے کہ اس کا شوہر کسی کمسن اور خوبصورت لڑکی کی خواہش رکھے جو(بیوی کے) اس عمرمیں اور اتنی محنت و مشقت کے بعد جو بیوی نے اپنے شوہر کے ہمراہ اٹھائی ہیں یہاں تک کہ وہ شوہر ترقی کے اس مرحلے میں پہونچ گیا ایسے وقت میں دوسری عورت اس (کے شوہر) کو اچک لے، پھر (بیوی) یہاں تصور کرتی ہے کہ اس کا شوہر اس کے گداز جسم سے کھیل کھیل کر بڑھاپے کی عمر میں اس سے کس طرح ملے گا!، اور نئی نویلی دوشیزہ کا کس طرح اہتمام کرے گا اور اس (پرانی بیوی) کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا، اور اس کے سارے اخراجات کس طرح سے دوسری کی طرف بغیر کسی عدل و انصاف کے منتقل ہوجائیں گے اور اس کو محروم رکھیں گے؟!۔

یہاں سے یہ بیوی مختلف حربہ استعمال کرتی ہے: کہ وہ کس طرح سے اپنے شوہر اوراس کے اس کرتوت کے درمیان حائل ہو یا ابھی سے اپنے حقوق کی حفاظت کیسے کرے؟!، اور مصیبت یہ ہے کہ وہ شاید ہی کوئی بہتر راستہ اختیار کرنے میں کامیاب ہو سکے یا کبھی شش وپنج میں مبتلا ہو کر خود اپنے ہی پیروں میں کلہاڑی مار لے اور مرنے سے پہلی ہی ساری چیزیں برباد کرلے۔

(4) رہے وہ شکوک و شبہات جس سے وہ ابھی متاکد نہیں ہے۔۔۔ تو یہ اس کا احساس ہے کہ اس کا پیارا شوہر اسے دل و جان سے نہیں چاہتا اور وہ (شوہر) اپنی محبت کا اظہار ایسے انداز میں نہیں کرتا جو اس کو بھائے اس لئے وہ بیوی سوچتی ہے کہ وہ اس کے آنکھوں کو نہیں بھاتی ۔۔۔۔ اور یہ اس کے خوابوں کی شہزادی نہیں ہے جس سے وہ شادی کا خواہاں تھا اس لئے وہ ابھی تک یہ امید کرتا ہے کہ وہ اپنے دل کی مراد حاصل کرے۔

اس لئے اس مرحلے تک پہونچ کر عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر غور کرے: کیا وہ عمردراز ہو گئی؟۔۔۔ کیا اس کی خوبصورتی میں تغیر آ گیا؟۔۔۔ کیا۔۔۔ کیا۔۔۔؟

وہ اپنے شوہر سے زیادہ تر یہ سوال کرتی ہے: کیا آپ ہمیں دل و جان سے چاہتے ہیں؟!۔۔۔ اور جب بھی یہ اس سے سوال کرتی ہے اس کا جواب غیراطمئنان بخش پاتی ہے ایسے پر جوش و پر تپاک اسلوب میں نہیں پاتی جس کی بنیاد پر وہ اس دل میں اپنی قدرومنزلت پائے جو اسے حقییقت میں دل و جان سے چاہتا ہے۔ اور پھر یہاں سے مختلف انداز میں بے چینیاں اور طرح طرح کی مشکلیں اس کی طبیعت، سمجھـ بوجھـ  اورشخصیت کے حساب سے رونماں ہوتی ہیں۔

یہ صرف ان شگاف اور راستوں کے نمونے ہیں جہاں سے بیوی کے جذبات کو تباہ وبرباد کرنے والی ہوائیں آتی ہیں۔۔۔۔ اورکچھـ ہی عرصہ گزرنے کے بعد معمولی معمولی باتوں پر بھی فتنے بھڑک اٹھتے ہیں۔۔۔ ابھی ایک فتنہ ختم بھی نہیں ہونے پاتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے، (ایسی صورت حال میں) شوہر حیران و پریشان ہو جاتا ہے اور کسی طرح سلجھانے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کی (وقتی طور پر) معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔۔۔ لیکن اس کی رگیں ابھی بھی برقرار ہیں کیونکہ گھبراہٹ اور بے چینی کی آگ اندر ہی اندر خفیہ طور پر سلگ رہی ہے جو گاہے بگاہے بھڑکتی رہتی ہے۔

اور بیوی ان مشکلات و پریشانیوں کے بارے میں کھل کر نہیں بتاتی بلکہ دوسرے وجوہات کا دعوی کرنے لگتی ہے خاص طور پر وہ مشکلات و پریشانیاں جن سے وہ دوچار ہے شرمندگی و ندامت کا باعث ہوں۔۔۔ اور ان کا کھل کر اظہار کرنا ممکن نہ ہو۔ ام درداء رضی اللہ عنہا کا یہ قول بھی اس کی تاکید کرتا ہے جو انہوں نے اپنے شوہر کی صفات میں کہا ہے۔ (تمہارے بھائی ابو درداء کو دنیا سے کوئی واسطہ نہیں۔۔۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تیرے رب کا تجھـ پر حق ہے اور تیری جان کا تجھـ پر حق ہے اور تیرے بچوں کا تجھـ پر حق ہے اس لئے ہرحق والے کا حق ادا کرو۔۔۔) (بخاری:5674)۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس شکایت کی تہ تک پہونچ گئے، کیونکہ ان کا شوہر اپنی بیوی اور ان کی پیار و محبت اوران کے اہتمام اور ان کی طرف رغبت کو کم کر کے اور اسی طرح ان کی جسمانی حقوق میں کوتاہی کر کے عبادت گزاری میں مشغول ہے۔

کیا آپ کو اپنی بیوی کی خوشحالی میں دلچسپی ہے؟؟۔

ہر شوہر کے لئے ایک اہم سوال: اللہ رب العالمین نے چاہا کہ آپ سے کوئی انسان منسلک ہو اورآپ کی زندگی میں آپ کا شریک ہو۔۔۔ تو کیا آپ یہ پسند کروگے کہ وہ انسان آپ کے ساتھـ اٹھنے بیٹھنے سے خوش ہو؟۔

یا آپ کو اس کی کو‏ئی پرواہ نہیں، کیونکہ آپ اپنی زندگی سے خوش ہیں اور ساری چیزیں آپ کو ویسے ہی ملی ہوئی ہیں جس طرح سے آپ چاہتے ہیں؟!۔

ہاں! اگر ہم نے یہ تصور بھی کر لیا کہ یہ انسان بہت خوشحال ہے پھر بھی انانیت و خود غرضی کی بناء پر دوسرے ساتھی کو متہم کرے گا، کیونکہ شوہر اور بیوی کے درمیان پختہ علاقات ان میں سے کسی ایک کی خوشحالی دوسرے کی خوشحالی پر موقوف ہوگی۔۔۔ لہذا جب فریقین میں سے کسی ایک کی خوشحالی ختم ہو جائے تو دوسرے کی زندگی پر بھی اس کا اثر ہوگا بھلے ہی وہ ایسا چاہے یا نہ چاہے۔۔۔ یہاں سے اس لئے یہ ضروری ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے بارے میں یہ جاننے کی کوشش کرے کہ اس کی بیوی اس کے ساتھـ کس قدر خوش ہے۔

ایمان اور امن و امان:

اللہ پر ایمان رکھنا یہ شوہر کو اپنی بیوی کی خوشحالی کو تلاش کرنے کے لئے اس کی طاقت کے مطابق کئی وجوہات سے ابھارتا ہے ۔

پہلی وجہ: اللہ رب العالمین نے شوہر کو حکم دیا ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھـ اچھائی سے پیش آئے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے کہ: (وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ) (النساء:19): (ان کے ساتھـ اچھی طرح سے بودوباش رکھو)۔

بہتر یہ ہے کہ بیوی کو اپنے حق کے مطالبے سے پہلے ہی اس کے حق کی ادائیگی کرے اور اس کو صراحتا مانگنے کی نوبت نہ آئے اور اس کی نفسیاتی راحت کی بھی خبر لے اور اس سے یہ بھی دریافت کرے کہ وہ(بیوی) کس چیز کے بارے میں زیادہ سوچتی رہتی ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان اس قدر پیار ومحبت ہو کہ  بیوی اپنےشوہر کو اپنے ہر افکار وخیالات کے بارے میں بنا شوہر سے پوچھے بتادے پھر شوہر اس کو حسب ضرورت نصیحت کرے اور دونوں مل کر اپنے ایمان کو تازہ کریں اور ہر قسم کے خوف وہراس کو دور کریں۔

دوسری وجہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ (تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز نہ پسند کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے) (مسند احمد:13452)، اور ہم میں سے ہرآدمی یہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے گھر میں خوشحال زندگی گزارے اوراس کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ یہی چیز اپنی بیوی کے لئے نہ چاہے اور وہی چیز اپنی بیوی کو فراہم کرنے کے لئے حتی الامکان کوشش کرے۔

تیسری وجہ: مسلم مرد وعورت کا آپس میں ایک دوسرے کو اذیت وتکلیف دینا جائز نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے (کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقوی یہاں ہے کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت وآبرو) (صحيح البخاری:7402)۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس نے پیاز اور لہسن کھائی ہو وہ مسجد سے دور رہے جب تک کی اس کی بد بو نہ ختم ہو جائے یہاں تک کی کسی مسلمان کو اس کی بد بو سے تکلیف نہ دے لہذا شوہر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بات کا لحاظ کرے کہ اس کی طرف سے بیوی کو کوئی ایسی تکلیف نہ پہنچ رہی ہو جو اس کی زندگی میں بے چینی پیدا کردے اوراس کو اللہ کے غیظ وغضب کا مستحق قرار دے۔

چوتھی وجہ: مومن کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ جیسا کرے گا ویسا پائے گا۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے (من يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ) (النساء:123): (جو برا کرے گا اس کی سزا پائے گا)، جیسی کرنی ویسی بھرنی، اسی وجہ سے وہ کسی پرظلم کرنے اوراس کو اذیت دینے کے انجام سےڈرتا ہے کہ اللہ رب العالمین آخرت سے پہلے دنیا ہی میں اس کو اس کے کرتوت کا مز ہ چکھا دے۔

پانچویں وجہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے (مومن باہم مانوس ہوتا ہے اوراس شخص کے اندر کوئی بھلائی نہیں جو نہ کسی سے مانوس ہوتا ہو اور نہ ہی اس سے کوئی مانوس ہوتا ہو) (مسند احمد:21773)۔

اس لئے ایک پرہیزگار مومن کے ساتھـ زندگی بہت ہی خوشحالی اور فارغ البالی کی زندگی ہوتی ہے، لیکن بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ زیادہ تر لوگ اس پر ثابت قدم نہیں رہتے اگر چہ وہ دوسرے چیزوں میں ثابت قدمی اور صبر و جوش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

لہذا ایک مسلمان بھائی پر یہ ضروری ہے کہ وہ ان مشاکل و پریشانیوں میں گھرنے کا انتظار نہ کرے بلکہ اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کے پہلے ہی دن سے اس ازدواجی باغ میں امن و امان کی بیج بونے کے لئے سبقت کرے۔

عندما تفقد الزوجة الأمان -1- UR



مسلم خاندان -

  • اخبار
  • ہمارے بارے ميں
  • نخلستان اسلام
  • بيانات
  • مسلم خاندان
  • موجودہ قضيے
  • کتابيں
  • حادثات
  • جہاد کا حکم
  • ملاقاتيں
  • ويب سائٹ کي خدمات
  • اپني مشکلات بتائيں
  • فتوے
  • ارئين کي شرکت