English - عربي
  صفحہ اول ويب سائٹ ہم سے رابطہ زائرين کا ريکارڈ
  فتوے -: روزے دار كا بواسير وغيرہ كے ليے مرہم اور كريم استعمال كرنا - فتوے -: کسی شخص نے فجرکے بعد یہ گمان کرکے کہ ابھی اذان نہیں ہوئی سحری کھا لی اس کا کیا حکم ہے؟۔ - فتوے -: چاند ديكھنے كا حكم - فتوے -: سيكسى سوچ كے نتيجہ ميں منى كا انزال ہونے سے روزہ باطل ہو جائيگا؟۔ - فتوے -: روزے كى حالت ميں ناك كے ليے سپرے استعمال كرنا - نخلستان اسلام -: فصل کاٹنے کا وقت قریب آگیا - نخلستان اسلام -: نجات کی کشتی قریب آگئی -  
ووٹ ديں
مغرب کی اسلام دشمنی کے اسباب میں سے ہے؟
اسلام اور مسلمانوں سے نفرت
صحیح اسلام سے عدم واقفیت
تطبیق اسلام کی صورت میں غیراخلاقی خواہشات پر پابندی
تمام سابقہ اسباب
سابقہ را? عامہ
کتابيں -

مغرب کی اسلام دشمنی کے پہلو۔۔ اندلس کی فتح

س?د ابوداؤدبقلم: سید ابوداؤد۔۔ مسلمانوں کے ہاتھوں اندلس کے فتح کئے جانے کا اہل مغرب پر بہت ہی برا اثر پڑا نیز یہ فتح ان کے اسلام کو ناپسند کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب بن گئی کیونکہ اسی فتح کے نتیجہ میں انہیں صدیوں تک اسلام کے سامنے سرنگوں رہنا پڑا اور اس پوری مدت میں انہیں ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہیں لگا۔ سنہ 711ء سے 714ء کے عرصہ میں اموی دور میں طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر کی قیادت میں قوطیوں کی مغربی ریاست کے سقوط سے اندلس میں فتح اسلامی کا ستارہ چمکا، اور یہیں سے اندلس میں اسلامی دور کی شروعات ہوتی ہے جس کی مدت تقریبا 800/ برس کے لگ بھگ ہے جو سنہ 1492ء میں ریاست غرناطہ کے سقوط پر آ کر ختم ہوجاتا ہے۔

قوطیوں کی دورحکومت میں اندلس آخری دور میں سیاسی اور اقتصادی کمزوری سے دوچار تھا جس کی بناء پر وہ جنوب یا شمال سے ہر حملہ آور کے لئے ترنوالہ ثابت ہو رہا تھا اسپینی معاشرہ میں اس وقت پانچ طبقہ کے لوگ رہتے تھے اور ان میں سے بعض ایک دوسرے پر چڑھائی بھی کیا کرتے تھے، ان کے پانچوں طبقے یہ تھے:

پہلا طبقہ: بادشاہ اور شرفاء کا تھا، بادشاہت وراثت سے نہیں ملتی تھی بلکہ انتخاب کے ذریعہ اس کو لایا جاتا تھا کیونکہ نظام حکومت شاہی اور انتخابی تھا مگر اس نے آخر میں چل کر شرفاء کے درمیان تخت و تاج کے حصول کے لئے باہمی آمیزش کی شکل اختیار کرلی تھی اور اس کی وجہ سے ان میں باہم شازشیں بہت رچی جاتی تھیں جس کی بناء پر حکومت کی طاقت اور کمزور ہوتی چلی گئی، اس طبقہ کے افراد کو غیرمحدود اثرورسوخ حاصل تھا، یہ بہت ساری عمارتوں کے مالک ہوتے تھے اور ان عمارتوں پر کوئی ٹیکس بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔

دوسرا طبقہ: علماء دین کا تھا، اندلس کے اندر مذہب کو عہد وسطی میں بڑا ہی نفوذ حاصل تھا، مذہبی لیڈروں کو سیاسی اور روحانی طور پر کافی اثرورسوخ حاصل تھا، اور بادشاہ کو منتخب کرنے میں انہیں لوگوں کا ہاتھ ہوا کرتا تھا، ان کے پاس بھی جو عمارتیں ہوتی تھیں ان پر کسی طرح کا ٹیکس نہیں ہوا کرتا تھا۔

تیسرا طبقہ: آزاد لوگوں پر مشتمل تھا، دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ یہ عوام کا طبقہ تھا، عوامی طبقہ کے زیادہ ہونے کا مطلب ہے معاشرے کی خوشحالی اور اس کے کم ہونے مطلب ہے ان میں توازن کا برقرار نہ رہنا، قوطی حکومت کے آخری عرصہ میں اس طبقہ (عوام) کی تعداد بہت ہی کم تھی اور دوسری جانب یہ ٹیکس کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔

چوتھا طبقہ: غلاموں کا تھا، قوطی حکومت کے آخری عرصہ میں معاشرہ میں یہی کثرت سے پائے جاتے تھے، ان میں سے اکثر و بیشترشرفاء اور بڑے بڑے لوگوں کے کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے یہ غلام اہل زمین کی ملکیت ہوا کرتے تھے اور جب ان زمینوں کو فروخت کیا جاتا تھا تو ان کی ملکیت بھی زمین خریدنے والے شخص کے ہاتھوں میں آجاتی تھی یعنی ان غلاموں کی ملکیت بھی کھیت کی ملکیت کے ساتھ ہی منتقل ہوجایا کرتی تھی۔

پانچواں طبقہ: یہودیوں کا تھا جو کہ حکومتی اداروں میں مالی امور اور حسابات کے کام انجام دیتے تھے، ان کے دینی عقائد کے مختلف ہونے کی وجہ سے انہیں پسند نہیں کیا جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ انہیں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ کبھی کبھی انقلاب لا کریہ حکومت کا تختہ پلٹ دیتے تھے اور کبھی کبھی سازشوں کے ذریعہ بھی یہ کام انجام دیا کرتے تھے۔

فتح اسلامی سے پہلے اسپین کی یہ سماجی کیفیت تھی، ہر چہارجانب فساد، بگاڑ اور بدنظمی کا بول بالا تھا، جبکہ اسپین کے پڑوس میں مغربی زمینیں کافی طاقت و قوت میں تھی۔

اسپین میں مسلمانوں کے داخل ہونے کے اسباب کیا تھے اس سلسلے میں عربی روایت اسپانوی روایت سے مختلف ہے، عربی روایت اس کی وجہ یہ بیان کرتی ہے کہ یہ شخصی انتقام اور بدلہ کا نتیجہ ہے، کہانی کچھ اس طرح ہے کہ کاونٹ جولین جوکہ سبتہ کا حاکم تھا اس کی بیٹی بہت ہی حسین وجمیل تھی اس کا نام فلورنڈا تھا، کاونٹ نے وہاں کے رسم و رواج کے مطابق اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت کی خاطر طلیطلہ میں قوطی بادشاہ کے محل میں بھیج دیا تاکہ وہاں اعلی طبقہ کی لڑکیوں کے سنگ تربیت پائے، چنانچہ قوطی بادشاہ راڈارک (Rodrigo) کی نظر اس پر پڑی اور اس کو ایک ہی نظر میں فلورنڈا بھاگئی، اور ہوا یوں کہ اس کے ساتھ وہ جنسی تعلقات قائم کربیٹھا، فلورنڈا نے اپنے باپ کو بذریعہ خط پیغام بھیجا اور اسے ساری حقیقت سے آشنا کیا اور جوکچھ بھی ہوا تھا وہ سارا کہہ سنایا، چنانچہ جولیان بادشاہ کے محل میں گیا اور وہاں سے اپنی بیٹی کو واپس لے آیا، اور اسی وقت سے جولیان اس سے انتقام لینے کے بارے میں سوچنے لگا، چنانچہ جولیان نے موسی بن نصیر سے رابطہ کیا اور وہاں کے برے حالات سے مطلع کرتے ہوۓ انہیں اسپین فتح کرنے پر قانع کردیا، لہذا موسی بن نصیرنے ان کی اس طلب کو قبول کیا اور اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اجازت لے کر وہاں کا رخ کیا۔

جبکہ اسپانوی روایت اس کی وجہ یہ بیان کرتی ہے کہ قوطی بادشاہ (Akhila) کو جب اپنے تخت و تاج سے بے دخل کردیا گیا تو اس کے حمایتی اس کے حلیف سبتیہ کے حاکم کاونٹ جولین کے پاس چلے گئے، اور اس سے مدد مانگی، اس وقت کاونٹ جولین انہیں قیروان میں موسی بن نصیر کی خدمت میں لے گئے اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ موسی بن نصیر انہیں اپنے پاس سے فوجی مدد فراہم کرکے انہیں ان کو کھویا ہوا ملک واپس دلائیں گے اس شرط کے ساتھ کہ وہ لوگ عرب کو سالانہ جزیہ ادا کیا کریں گے۔

مسلمانوں کا اندلس فتح کرنا ایک طےشدہ منصوبہ کا حصہ تھا جسے اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک  نے دمشق سے مغرب میں موجود اپنے لیڈر موسی بن نصیر کے ساتھ اتفاق کرکے پاس کیا تھا ۔ مسلم جنرل موسی بن نصیر نے پتہ لگانے کے ارادے سے متعدد بار اندلس کے جنوبی حصہ پر حملہ کیا اور اپنے حلیف کاونٹ جولیان (جوسبتہ کا حاکم تھا) کو طلب کیا اور اس کے بعد جولیان نےاپنی فوج اکٹھا کی اور دو جہازوں میں بیٹھ کر سمندر پار کرکے اندلس کے ساحل پر پہنچ گیا اور جنوبی حصہ پر چڑھائی کی اس جنگ میں اس نے کچھ لوگوں کو قید کیا اور کچھ لوگوں کو قتل کیا، اس میں انہیں بہت مال غنیمت ہاتھ لگا اور اس حملہ کی خبر ہر طرف پھیل گئی اور مزید لوگ جنگ میں شریک ہونے کے لئے تیار ہوگئے۔ موسی بن نصیر نے اس کھوجی حملے پر ہی بس نہیں کی جو کاونٹ جولیان نے کی تھی بلکہ انہوں نے اپنے ایک کمانڈر (طریف بن مالک)کو بلا کر اسے اندلس کے جنوبی ساحل پر حملہ کرنے کا حکم دیا چنانچہ طریف نے 100/ گھوڑسوار اور 400/ پیادہ کو لے کر جون سنہ 710ء مطابق رمضان سنہ91ھ میں آبنائے کو پار کیا۔ طریف بن مالک اور اس کے فوجیوں نے شہر طریفہ میں پہنچ کر پڑاؤ کیا اور اس کے ماتحت مقام خضراء تک پھیلے ہوئے علاقوں پر حملہ کیا اور بہت ہی زیادہ مال غنیمت حاصل کرکے صحیح سلامت واپس لوٹ آئے۔ اس حملہ سے موسی بن نصیر پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جوکاونٹ جولیان نے کہا تھا کہ اسپینیوں میں ٹکر لینے کی ہمت نہیں ہے وہ اندر سے بہت کمزور ہے یہ بالکل سچ ثابت ہوا، لہذا موسی بن نصیر نے طارق بن زیاد کی قیادت میں اندلس پر حملہ کرنے کے لئے سات ہزار(7،000) جنگجؤں پر مشتمل ایک فوج تیار کی۔

مغربی ساحلوں پر ان کی قیادت میں جو اسلامی بحری بیڑہ موجود تھا موسی بن نصیر نے اسی پر اعتماد کیا، اور موسی بن نصیرنے طارق بن زیاد کو شہرطنجہ کی طرف بھیجا، اور وہیں سے عربی اسلامی کشتیاں اس پہاڑ کی جانب بڑھیں جو آج تک جبرالٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

طارق بن زیاد اور ان کی فوج نے پہاڑ کے بالائی حصہ پر جہاں پڑاؤ ڈالا وہاں انہیں ان قوطیوں سے ہلکی پھلکی ایک جھڑپ کا سامنا کرنا پڑا جن کو اس بات کا پہلے سے علم تھا کہ مسلمان یہاں جنگ کرنے کے لئے آنے والے ہیں کیونکہ ان کا اس سے پہلے کھوجی حملے سے پالا پڑ چکا تھا، لہذا مسلمانوں نے اپنا فوجی خطہ تبدیل کرڈالا اور یہ فیصلہ کیا کہ رات میں وہاں سے اتر کر  کوہستانی جگہ میں قیام کریں، ان لوگوں نے اس حملہ کے دوران جانوروں کے پالانوں کے نیچے رکھے جانے والے کمبلوں اور کشتیوں کے چپووں کو پانی میں گھسنے اور چٹانوں پر چڑھنے کے لئے استعمال کیا۔ اسی طرح سے آگے بڑھکر انہوں نے قوطیوں کی جماعتوں کو گھیر لیا اور اس سے پہلے کہ قوطیوں کو ان کی آمد کا احساس ہوتا وہ ان پر ٹوٹ پڑے، اندلس میں داخل ہونے کے بعد طارق بن زیاد کی یہ سب سے پہلی فتح تھی، وہ  اس وقت ایک پہاڑی پر قبضہ کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے جو آج تک ان ہی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جہاں تک کشتیوں کے جلانے کا واقعہ ہے جو تاریخ میں فتح اندلس کے حوالے سے ذکر کیا جاتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ طارق بن زیاد نے اسپین کے ساحلوں پر پہنچ کر وہ ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں تاکہ وہ اپنے فوجیوں کو یہ باور کراسکیں کہ اب یہاں سے واپس جانے کے بارے میں کوئی نہ سوچ سکے۔

طارق بن زیاد نے جبرالٹر میں چند دنوں قیام کیا، اس دوران انہوں نے اپنی فوجوں کی حفاظت کے لئے ایک چہار دیواری تعمیر کرائی  جس کا نام انہوں نے (عربوں کی چہار دیواری) رکھا، اسی کے ساتھ ہی انہوں نے پہاڑ کے دامن میں ساحل سمندر پر ایک فوجی اڈہ بھی تیار کرایا تاکہ مقبوضہ علاقے کو خالی کرنے یا شکست کی صورت میں اپنی فوج کے پچھلے حصے کی حفاظت کی جا سکے (یہ شہرشبہ جزیرہ خضراء ہے، جو جزیرہ ام حکیم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس بندرگاہ کا محل وقوع شہرسبتہ جو دوسری جانب مغربی ساحل پر واقع ہے سے قریب اور مواصلات کے اعتبار سے نہایت ہی آسان ہے، جبکہ دوسری جانب اسپین کے راستے نہایت ہی دشوار گزار ہیں کیونکہ ان کے بیچ کئی پہاڑیاں حائل ہیں) اس طرح انہوں نے ایک اور فوجی اڈہ اپنی فوج کی سامنے کی سمت میں شہر (طریفہ) میں طریف بن مالک کی قیادت میں قائم کیا اور قوطی بادشاہ لزریق کو اپنے ملک میں مسلمانوں کے وارد ہونے کی خبر مل گئی۔

اس وقت قوطیوں کا بادشاہ لزریق ایک انقلاب کو دبانے میں مشغول تھا جو شمالی اسپین میں نافارا کے باشندوں میں سے بشکنس نے برپا کر رکھا تھا۔ چنانچہ لزریق بادشاہ اپنی تمام فوجوں کو لے کر اسپین کے جنوب کی جانب رخ کیا تاکہ وہاں پہنچ کر مسلمانوں کا مقابلہ کرسکے۔ اس وقت طارق بن زیاد مغربی جانب متوجہ ہوچکے تھے اور اپنے پیچھے طریفہ کے اڈہ کو اپنی پناہ گاہ بنایا جس سے اپنی فوج کے آخری حصہ کو محفوظ رکھ سکیں اور انہوں نے اپنا مہم جاری رکھا یہاں تک کہ وہ اس بحیرہ تک پہنچ گئے جو کورۃ شذونہ میں بحیرہ لاخندہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

طارق بن زیاد نے شمال کی جانب اپنے جاسوسوں کو بھیجا تاکہ اس فوج کا اندازہ لگایا جاسکے جس فوج سے مسلمانوں کا سامنا ہونے والا تھا، جب یہ جاسوس واپس آئے اور طارق بن زیاد کو یہ اطلاع دی کہ لزریق بادشاہ ایک لشکر جرار لے کر لڑائی کے لئے آیا ہے تو طارق بن زیاد یہ خبر سن کر بہت پریشان ہوگئے اور موسی بن نصیر کی جانب یہ پروانہ روانہ کیا  جس میں انہوں نے مدد کے لئے مزید فوج طلب کی، چنانچہ موسی بن نصیر نے ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے مزید پانچ ہزار (5،000) فوجی روانہ کردیا، اس کے بعد اندلس میں مسلم فوجوں کی تعداد بارہ ہزار(12،000) ہوگئی۔

اکثر مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں اور قوطیوں کے درمیان ہونے والی وہ فیصلہ کن جنگ جس نے اندلس کے مستقبل کو طے کردیا یہ وہ جنگ ہے جو اندلس کے جنوب مغربی ضلع (شذونہ) میں پیش آئی، یہ جنگ مسلسل آٹھ دن (اتوار 28/ رمضان تا اتوار 5/شوال سنـہ 92ھ مطابق 19/جون تا 26/جون سنـہ 711ء) تک جاری رہا۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ بہت ہی شدید معرکہ تھا۔ اس جنگ میں فریقین نے ایسا زبردست مقابلہ کیا کہ لگتا تھا کہ اب کوئی بھی نہیں بچے گا۔ اس جنگ میں جتنی تعداد میں لوگ مارے گئے اتنے مغرب میں کسی بھی دوسری جنگ میں نہیں مارے گئے۔ اس جنگ میں مرنے والوں کی ہڈیاں تک ایک لمبے زمانے تک میدان جنگ میں یونہی پڑی رہیں اور یہ معرکہ بالآخر مسلمانوں کی فتح اور قوطی فوج کی شکست پر ختم ہوا۔ چند عربی و اسپینی مراجع و مصادر میں اس معرکہ کو مختلف ناموں (معرکہ بحیرہ، وادی لکۃ، وادی برباط، شریش اور سواقی) سے موسوم کیا گیا ہے۔ دراصل ان ناموں کی نسبت ان جگہوں کی طرف کی گئی ہے جہاں یہ معرکہ کارزار پیش آیا اور ان جگہوں سے یہ معرکہ کورہ شذونہ کے علاقہ تک پھیلتا ہوا چلا گیا۔ اس فیصلہ کن جنگ کے بعد جس کی انتہاء طارق بن زیاد کی فتحیابی پر ختم ہوئی تمام جنگیں جو اس وقت اندلس کے مختلف گوشوں میں پیش آئیں ان میں صرف باہم ہلکی پھلکی جھڑپوں پر ہی آکر ختم ہوگئی اور پہلے گہما گہمی والے جنگ کی طرح نہ تھیں، مسلمانوں نے اندلس پر تین سال کے دوران قبضہ کرلیا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہاں کے لوگوں کے اندر مزاحمت کرنے کی سکت باقی نہ رہ گئی۔

معرکہ شذونہ میں جو شاندار کامیابی طارق بن زیاد کو ملی اس کے بعد مسلمانوں کے لئے اندلس کے سارے دروازے کھل گئے، طارق بن زیاد نے اپنی فوج کے ساتھ شمال کی جانب راجدھانی طلیطلہ کا رخ کیا، راستے میں ان کا گزر قلعہ اسیجہ (Ecijah) سے ہوا، انہوں نے اس کا محاصرہ کیا اور پھر اس پر بھی ان کا قبضہ ہوگیا، اس وقت طارق بن زیاد نے اپنی فوج سے چند لوگوں کو اندلس کے ارد گرد علاقوں میں بھی بھیجا، فوجیوں کی ایک جماعت عبدالملک بن مروان کے ایک غلام جن کا نام مغیث تھا ان کی قیادت میں شہر قرطبہ کی جانب گئی، چنانچہ انہوں نے تین ماہ تک اس کا محاصرہ کرکے اسے بھی فتح کرلیا، فوجیوں کی ایک جماعت بیرہ اور اس کے گرد و پیش میں بھی گئی اور اسے فتح کیا۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ طارق بن زیاد اور ان کے لیڈران کو اسپین میں مقیم ان یہودیوں سے کافی مدد ملی جو قوطیوں کے ظلم وستم سے دوچار ہو رہے تھے، یہی وجہ ہے کہ طارق بن زیاد نے ان علاقوں کو فتح کرنے کے بعد ان علاقوں کی حفاظت کی ذمہ داری ان کو سونپ دی۔ طارق بن زیاد شمال کی جانب برابر بڑھتے رہے یہاں تک کہ راجدھانی طلیطلہ تک پہنچ گئے، اور بغیر کسی مزاحمت کے بآسانی وہ وہاں داخل ہوگئے، کیونکہ وہاں کے حکمراں اور باشندے سب کے سب وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے، لہذا پورا شہر تقریبا خالی ہوچکا تھا، نتیجہ میں مسلمانوں کو وہاں کے کنیسوں اور محلوں سے کافی سونا چاندی بطور غنیمت ہاتھ لگا جیسا کہ عربی مراجع و مصادرمیں بیان کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد طارق بن زیاد کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قوطی ان کا راستہ بند کردیں کیونکہ وہ کوہستانی علاقہ تھا، اور موسم سرما کا وقت بھی قریب آچکا تھا، اسلامی فوج بھی مسلسل جنگ کرکے تھک چکی تھی، وہ مال غنیمت سے بھی بوجھل ہو رہے تھے، چنانچہ انہوں نے موسی بن نصیر کی خدمت میں پروانہ بھیجا اور ان سے مدد طلب کی، ماہ رمضان سنـہ 93 ھ مطابق جون 712ء میں موسی بن نصیر نے اٹھارہ ہزار سے زائد لڑاکؤں پر مشتمل فوج کے ساتھ آبنائے جبرالٹرکو عبور کیا ان لڑاکؤں میں سے اکثر قیسی و یمنی نسل کے تھے۔ ان میں کچھ تابعین کرام بھی شامل تھے اور اس پہلے عربی لشکر کو موسی بن نصیر کے مقدمۃ الجیش کے طور پر جانا گیا اور موسی مغربی راستے سے چلے اس راستے سے ہٹ کر جس راستہ سے طارق بن زیاد گئے تھے، انہوں نے بھی ان شہروں پر قبضہ کیا جن شہروں کو طارق بن زیاد نے فتح نہیں کیا تھا، چنانچہ انہوں نے اشبیلیہ، ماردہ اور قرمونہ پر قبضہ کیا اور ان شہروں کو فتح کرتے ہوئے طلیطلہ کے قریب نہر تاجو کے پاس پہنچ کر طارق بن زیاد سے مل گئے اور پھر وہاں طارق بن زیاد کو سرزنش کیا کیونکہ وہ بہت زیادہ دورتک اندر جا چکے تھے، اور اندلس کی کشادگی میں ان کے نقل و حرکت کے وسائل و ذرائع خطرے میں پڑ گئے تھے، اندلس کے مشرق اور مغرب میں زیادہ تر علاقے باقی رہ گئے جو فتح نہ کئے جاسکے تھے۔

اس کے بعد ان دونوں قائدوں نے شمال کی جانب برتات نامی پہاڑ تک اپنے مہم کو جاری رکھا، یکے بعد دیگرے شہر ان کے سامنے فتح ہوتے ہو رہے جیسے کہ وشقہ، ولاردہ اور سرقسطہ وغیرہ یہاں تک کہ یہ دونوں شمال میں فرانس اور ہسپانیہ کی سرحد کے سمندری ساحلوں تک پہنچ گئے۔

اس طرح سے طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر کے فتوحات کا سلسلہ ختم ہوا، اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے دونوں قائدوں کو دمشق واپس لوٹنے کا حکم دیا، چنانچہ موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد وہاں سے واپس آگئے اور اندلس میں اپنے بعد عبدالعزیز بن موسی بن نصیر کو سنـہ 95ھ مطابق 714ء میں وہاں کا والی مقرر کیا۔

اندلس میں اب مشرق اور شمال مغرب میں تھوڑے سے علاقوں کے علاوہ کچھ نہ بچا تھا، رہا اندلس کا مشرقی حصہ تو اسے عبدالعزیز بن موسی بن نصیر نے فتح کرلیا جو اس وقت اندلس کے والی مقرر ہوچکے تھے۔

رہا اندلس کا شمال مغربی حصہ جو اسٹوریاس (Asturias) کے نام سے جلیقیہ یا غالیسیا (Galicia) میں جانا جاتا ہے، تو امویوں کا یہاں پر مکمل طور پر قبضہ نہ ہوسکا کیونکہ یہاں بہت ہی کڑاکے کی سردی ہوتی تھی، یہاں کے راستے بھی بہت ہی دشوارگزار تھے بنابریں انہوں نے ان علاقوں کو اہمیت نہ دیتے ہوئے یونہی چھوڑ دیا۔

اندلس میں اسلامی حکومت کے مراحل:

مؤرخین نے متفقہ طور پر اندلس میں اسلامی حکومت کے مراحل کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے جو کچھ اس طرح ہیں:

(1) گورنروں کا زمانہ: یہ دور عربی فتح سے شروع ہوکر اندلس میں اموی حکوت کے قیام تک محیط ہے۔ (سنـہ 711ء تا 756ء مطابق 91ھ تا 138ھ) اس عرصہ میں اندلس دمشق میں موجود اموی خلافت کے تابع ایک صوبہ سمجھا جاتا تھا۔

(2) اندلس میں اموی حکومت کا دور: اس کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ: اس دور میں (سنـہ 756ء تا 929ء / مطابق 138ھ تا 316ھ) اندلس کی حیثیت خلافت عباسیہ سے الگ ہو کر مشرق میں قائم ہونے والی ایک اموی امارت کی تھی۔ دوسرا حصہ: یہ اسوقت شروع ہوتا ہے جب اندلس نے خلافت عباسیہ سے روحانی طور پر بھی الگ ہو کر ایک باضابطہ اموی خلافت کی شکل اختیار کرلی، اور عبدالرحمن الثالث نے اپنے آپ کو ‍خلیفہ ہونے کا اعلان کیا اور ناصر لدین اللہ کا لقب اختیار کیا۔

(3) مختلف جماعتوں کے بادشاہوں کا دور: یہ دور (سنـہ 1031ء تا 1086ء) اندلس میں اموی حکومت کے خاتمہ اور اس کے باہم دست و گریباں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل ہونے سے لے کر مغرب کے مرابطین کے اندلس میں داخلہ تک پھیلا ہوا ہے۔ بربری لیڈر یوسف بن تاشفین کی قیادت میں (سنـہ 1086ء میں) معرکہ زلاقہ میں ہسپانیوں پر فتح حاصل کرکے اندلس کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو سلطنت مرابطین میں شامل کرلیا گیا۔

(4) مغربی اقتدار یا مغربی حکومتوں کا دور: (سنـہ 1086ء تا سنـہ 1214ء) اندلس یہ مرابطین اور پھر موحدین کے دور میں مغرب کی ایک ماتحت ریاست کے طور پر رہا اور ان دونوں بالترتیب آنے والی حکومتوں میں اس کا دارالحکومت مراکش کا مغربی شہر تھا اور اس دور کا خاتمہ جنگ عقاب (سنـہ 609ھ مطابق 1212ء) میں یورپ کی اتحادی فوجوں کے سامنے موحدین کے شکست پر ہوا، اس کے بعد پھر ایک بار مختلف جماعتوں کے بادشاہوں کا دور آیا جس کا خاتمہ اسپینیوں نے کردیا اور ان میں سے مملکت غرناطہ کے علاوہ کوئی بھی مملکت باقی نہ رہ گئی۔

(5) مملکت غرناطہ کا دور: اسے ناصری حکومت یا بنواحمر کی حکومت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یہ اندلس میں اسلامی دور کا آخری عرصہ ہے جو سنـہ 1231ء سے شروع ہو کر سنـہ 1492ء پر پہنچ کر ختم ہوجاتا ہے، یہ وہی سال ہے جس میں یہ مملکت بادشاہ فرنانڈو دوم اور ملکہ ایزابیلا کے ہاتھوں ختم ہوگئی، اور یہ وہی سال ہے جس میں کریسٹوف کولمبو نے قارہ امریکہ دریافت کیا تھا۔



کتابيں -

  • اخبار
  • ہمارے بارے ميں
  • نخلستان اسلام
  • بيانات
  • مسلم خاندان
  • موجودہ قضيے
  • کتابيں
  • حادثات
  • جہاد کا حکم
  • ملاقاتيں
  • ويب سائٹ کي خدمات
  • اپني مشکلات بتائيں
  • فتوے
  • ارئين کي شرکت