|
مجھـ پر اسلام کی عظمت امریکہ میں بزنس ایڈمنسٹریشن پڑھنے سے واضح ہو گئی ڈاکٹر حسن الحیوان سے انٹرویو پہلا حصہ
میزبانی اور تعارف کے فرائض ڈاکٹر ناجح ابراھیم نے انجام دئیے۔۔ ڈاکٹر حسن الحیوان شرقیہ پراونس Province کے ایک بڑے مذہبی اور علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ المقطم ایسو سی ایشن برائے ثقافت اور ڈائیلاگ۔ مکالمہ کے مجلسِ ادارت کے صدر ہیں۔ آپ انجینئر بھی ہیں۔ بزنس ایڈمنسٹریشن میں امریکہ سے ڈاکٹریٹ حاصل کی۔ امریکہ میں بزنس ایڈمنسٹریشن پڑھنا ڈاکٹر الحیوان کی زندگی میں ایک حدِ فاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُنہوں نے اسلام کا از سرِ نو مطالعہ کیا۔ یا یوں کہئیے کہ اُنہوں نے اسلام کا پھر سے انکشاف کیا۔ ایڈمنسٹریشن کے گہرائی سے مطالعے نے ان کے سامنے اسلام کو ایک ہمہ گیر، گہرے اور فعال طریقے سے سمجھنے کا بڑا دروازہ کھول دیا۔ جس میں فروعیات کی بجائے کلیات۔ اُصولوں کو اہمیت دے کر مقدم رکھا گیا۔ ڈاکٹر حسن الحیوان یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ کوئی عالمِ دین یا مفتی اعظم ہیں۔ ان کی بعض فقہی آراء سے ہمیں اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور اتفاق بھی۔ مگر اس سے اسلام کی حمایت میں ان کی کوششوں اور قربانیوں کی قدر میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان سے ہماری دلی محبت میں کمی نہیں آئے گی۔ اس لئے کہ وہ اسلامی تصوارت وافکار کے زبردست حامی ہیں۔ ڈاکٹر حسن الحیوان کی تحریروں کے مطالعے، اسکندریہ کے سمندری کنارے کے ایک خوبصورت مقام پر محترم جناب رفعت حسن اور عبد الکبیر محسب کی معیت میں ان سے ملاقات کے بعد میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر حسن الحیوان ہی سیکولر تصورات کے حامل افراد کا قومی مفادات کی خاطر بہترین مقابلہ اور بحث ومباحثہ کرنے والے مدِ مقابل ہیں۔ وہ معروف ابن خلدون سنٹر جاتے رہے۔ وہاں لیکچر دیتے رہے ہیں۔ اور وہ بہت سارے سیکولر تصورات کے حامل افراد کو اس بات کے قائل کر سکے کہ اسلام ہی زندگی اور حکومت چلانے کا حقدار ہے۔ اسلام ہی وہ دین ہے جو جدید ریاست کا تشخص بننے کے قابل ہے۔ چاہے اس ریاست میں عیسائی اور یہودی یا نسلی اقلیتیں ہی کیوں نہ ہوں۔ ڈاکٹر حسن الحیوان ایک سنجیدہ آدمی ہیں۔ آزادی، انصاف اور مساوات کے عاشق ہیں۔ ان کی نظر میں یہ قدریں Values جہاں بھی آئیں ساری بھلائیاں لے کر آئیں۔ ان کی رائے میں معاصر مصری اسلامی تحریک کو چاہئے کہ وہ اسلامی شریعت کے قوانین کے نفاذ کے مطالبے پر آزادی اور انصاف فراہم کرنے کو مقدم رکھے۔ نفاذِ شریعت کا جو مفہوم آج کل اسلامی رجحان رکھنے والوں میں چھایا ہوا ہے۔ اور وہ اس کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ اس پر آزادی اور انصاف فراہم کرنے کو مقدم رکھے۔ کیونکہ اگر اس کے بجائے نفاذِ شریعت کو مقدم رکھا گیا تو شریعت کے قوانین کا غلط استعمال کیا جائے گا۔ اور پاک شریعت کے ساتھ بڑی نا انصافی ہو گی۔ شریعت کے قوانین کی وجہ سے بڑی تعداد میں ایسے لوگ نا جائز فائدہ اُٹھائیں گے جنہیں ظلم کرنے سے کوئی بھی اخلاقی ضابطے نہیں روک سکیں گے۔ اور ظلم ہی ہوگا، مگر شریعت کے نام پر۔ اور یہی سب سے بری بات ہے۔ حالانکہ شریعت کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ ڈاکٹر حسن الحیوان ایک سنجیدہ دانشور ہیں۔ فضولیات پر ضیاعِ اوقات نہیں کرتے۔ شروع میں اُنہوں نے اپنے اور اپنی زندگی پر بات کرنے سے انکار کیا۔۔ اور گفتگو کو صرف عام مسائل تک محدود کر دیا۔ اب ہم آپ کی خدمت میں ڈاکٹر حسن الحیوان سے لئے گئے انٹرویو کا پہلا حصہ پیش کرتے ہیں۔ الجماعة الاسلامیة کے (ویب سائٹ)۔ پلیٹ فارم پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں؟۔ میں آپ لوگوں کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے ویب سائٹ پر گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا۔ آپ ہمیں اپنے بارے میں بنیادی معلومات بتائیں؟۔ میرا نام حسن الحیوان ہے۔ تحصیل (فاقوس) ڈویژن (شرقیة) سے تعلق رکھتا ہوں۔ عمر 50 سال ہے۔ شادی شدہ ہوں۔ میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ضبطِ تولید کا مخالف بھی ہوں۔ وہ کیوں؟۔ میں ضبطِ تولید کی مخالفت اس اعتبار سے کرتا ہوں کہ یہ حکومت کی طرف سے لوگوں کی زندگی میں ایک طرح کی بےجا مداخلت ہے۔ اگر ضبطِ تولید کا فیصلہ خود فیملی اپنی مرضی سے کرے تو؟۔ تو پھر کوئی حرج نہیں۔ اگر فیملی سمجھتی ہے کہ یہ اس کے مفاد میں ہے۔ ہر فیملی کو حق حاصل ہے کہ وہ اسلام کی روشنی میں اپنی ترجیحات کو ترتیب دے۔ اگر کوئی مسلم فیملی ایسی ہے جس کے افراد تعلیم یافتہ، خوش حال اور بغیر کسی رکاوٹ کے پانچ اولاد کی تربیت اور پرورش کر سکتے ہیں۔ مگر وہ یہ فیصلہ کریں کہ صرف دو ہی پر اکتفا کریں گے۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟۔ اگر وہ مادی استطاعت سمیت نفسیاتی، جسمانی، اجتماعی اور تنظیمی استطاعت بھی رکھتے ہیں تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ اپنے دین اور شریعت کے حق میں کوتاہی کے مرتکب ہیں۔ میں یہاں کوئی فتویٰ نہیں دے رہا۔ میں تو نہ مفتی ہوں۔ اور نہ ہی فقہاء میں سے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے گھرانے جو مختلف وسائل اور مذکورہ بالا استطاعت رکھنے کے با وجود ضبطِ تولید پر عمل کرتے ہیں، زندگی اُنہیں سخت سبق سکھاتی ہے۔ مثلا دونوں بیٹوں میں سے کوئی پردیس میں رہتا ہے۔ اور دوسرا بیمار رہتا ہے۔ یا ان میں سے ایک اپنے والدین کی نا فرمانی کرتا ہے۔ آپ نے اس قسم کی بے شمار مثالیں دیکھی ہوں گی۔ بات صحیح ہے نا؟۔ اس سے بڑھ کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تعداد کو نہیں، بلکہ نوعیت کو بھی قابلِ فخر بتایا۔ یہ اسلام کا ایک مضبوط اور بنیادی اصول ہے۔ یعنی تعداد کی کوئی وقعت نہیں ہے اگر نوعیت نا لائق اور نکمی ہے۔ جب ہم تجوید القرآن کہتے ہیں تو اس سے مراد عمدہ قراءت، صحیح سمجھـ اور زندگی کے مختلف میادین میں اپنے اپنے تخصص کے مطابق قرآن وسنت پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ تجوید القرآن کا وہ مطلب نہیں جو آج کل سمجھا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں کوئی ایسا طاقت ور اور مضبوط ملک نہیں جس کی آبادی کم ہو۔ زیادہ آبادی ایک مفید سرمایہ ہے بشرطیکہ اس کے لئے آزادی اور انصاف کا ما حول مہیا کیا جائے، ورنہ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کا شرعی مفہوم اور اہمیت اس آیت میں موجود ہے: (الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا) (الکہف:46) (مال وفرزند دنيوي زندگي کي زيب وزينت ہيں) دنیوی اعتبار سے ہم کہتے ہیں (الاولاد عزوة : اولاد بڑی دولت ہے)۔ مگر سیکولر کلچر نے مصری معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ عوام وخواص کو ان اثرات کا احساس تک نہیں۔ چنانچہ بعض اسلامی رجحان رکھنے والے دانشور بھی یہ محسوس نہیں کر سکے کہ سیکولر کلچر مصری معاشرے میں کس حد تک سرایت کر چکا ہے۔ اور کس حد تک اس پر اثر کیا ہے۔ ہم آپ کے حالاتِ زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں؟۔ مجھے اپنے بارے میں بات کرنا پسند نہیں ہے۔ میں یہاں پر اسلام اور اسلامی مسائل کے بارے میں بات کرنے آیا ہوں۔ مگر آپ کو قریب سے جاننا آپ کی شخصیت کو سمجھنے، اور آپ کے قریب آنے میں قاری کو مدد دے گا۔بہر حال ہم ذاتی امور پر اس قدر بات کریں گے جس قدر وہ زیرِ گفتگو عام جہات اور مسائل سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو؟۔ اگر یہی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ اب آپ ہمیں اپنی زندگی کے اہم موڑ کے بارے میں کچھ بتائیں؟۔ میں نے فیکلٹی آف انجنئیرنگ، زقازیق یونی ورسٹی سے گریجویٹ کیا۔ فیکلٹی آف اینجینئرنگ کے سٹیوڈنٹ ممبر بھی رہا۔ زمالک اور جزیرہ کلب میں معروف کھلاڑی بھی رہا۔ زمالک کلب مصر میں بڑا فٹ بال کلب ہے۔ اور جزیرہ کلب مصر کا سب سے بڑا سوشیل کلب ہے جہاں معاشرے کا اُونچا طبقہ جاتا ہے۔ اس کے بعد ائیر کنڈیشنرز کی کمپنی میں انجینئر کی حیثیت سے کام کیا۔ جب کمپنی والوں نے میری انتظامی صلاحیتیں دیکھیں تو مجھے یہ تجویز دی کہ آپ کے لئے بہتر ہے کہ ٹیکنیکل انجنئیر کے بجائے سیلز مینجر کا کام کریں۔ مجھے اس بات پر سخت تعجب ہوا۔ میری فیملی اور سب واقف لوگوں نے اس تجویز کو رد کیا۔ کس طرح ایک محترم انجینئر کے بجائے سیلز مینجر بنوں ! یہ تو بڑے شرم کی بات ہے۔ حالانکہ یورپ میں اور جدید ایڈمنسٹریشن کے تناظر میں ٹیکنیکل انجینئر کی بہ نسبت مینجر کے کام بہت نادر اور چیدہ چیدہ ہوتے ہیں۔ مہنگے بھی ہوتے ہیں۔ماہر سے ماہر ٹیکنیکل لوگ بڑی تعداد میں دستیاب ہیں۔ اس کے بر عکس Lead کرنے والے لوگ شاذ ونادر ہی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوا؟۔ فیملی کے ساتھ طویل بحث ومباحثے کے بعد میں نے کمپنی کی تجویز قبول کی۔ کمپنی نے مجھے اپنے خرچ پر بزنس ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے امریکہ بھیجا۔ میں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بزنس ایڈمنسٹریشن پڑھ کے مجھے ذاتی طور پر بہت فائدہ ہوا۔ اس کی بدولت میری زندگی میں بہت تبدیلیاں آئیں۔ ایک کمپنی آپ کی ڈاکٹریٹ پر کئی سال خرچ کیوں کرے! کیا یہ عجیب نہیں لگتا!۔ بالکل نہیں۔ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کمپنی والوںنے منافع اور نقصان کا حساب کتاب کیا۔ اُنہوں نے دیکھا کہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں سپشلائزیشن کرنے سے وہ بہت منافع کمائیں گے۔ اور واقعی میں یہی ہوا۔ مجھے کمپنی کا سیلز مینجر بنایا گیا تو سیلز کی شرح بڑھنے کی وجہ سے جو منافع ہوا، وہ میری ڈاکٹریٹ پر خرچ ہونے والی رقم سے بہت زیادہ تھا۔ ایڈمنسٹریشن میں تخصص کرنے سے اسلام کو سمجھنے کے حوالے سے آپ میں کیسی تبدیلیاں آئیں؟۔ میں نے اسلام کو بزنس ایڈمنسٹریشن ہی کے ذریعے صحیح طرح سمجھا۔ بزنس ایڈمنسٹریشن پڑھنے ہی سے مجھ پرزندگی کو چلانے میں اسلام کی عظمت، ہمہ گیریت اور فعالیت آشکار ہوئی۔ اس کے ذریعے پتہ چلا کہ اسلام عظیم دین ہے۔ اس کی حقیقت کا ادراک وہی کر سکتا ہے جو ایڈمنسٹریٹو اور اسٹراٹیجک وژن رکھتا ہو۔ کس طرح؟۔ براہِ مہربانی اس کی وضاحت کیجئے؟۔ مثال کے طور پر جب ہم حقیقت میں اسلام کا نفاذ کرتے ہیں تو اس میں دو طرح کے احکامات ملتے ہیں: 1- اٹل (نا قابلِ تغییر) احکامات۔ 2- قابلِ تغییر احکامات۔ اٹل احکامات بہت کم ہیں۔ جبکہ قابلِ تغییر احکامات بہت زیادہ ہیں۔ صحیح مجتہد وہ ہے جو اٹل احکامات کا صحیح ادراک رکھتا ہو۔ اور قابلِ تغییر احکامات کو علماء کے وضع کردہ قواعد وضوابط کی روشنی میں تبدیل کرتا ہو۔ عموما زندگی کے ہر پہلو میں قابلِ تغییر اور نا قابلِ تغییر چیزیں ہوتی ہیں۔ خود انسان میں قابلَ تغییر اور نا قابلِ تغییر دونوں پہلو موجود ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ مصر میں دعوتِ اسلامی سے متعلق ہر میدان میں جید علماء اور مجتہدین موجود ہیں۔ جناب البشری ایک قانونی اور سیاسی، ڈاکٹر عمارة ایک تاریخی وثقافتی، بریگیڈئیر (مرحوم) صلاح الدین سلیم عسکری، اور جمال قطب فقہی پس منظر رکھنے والے مسلم دانشور ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر علماء اسلام کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان سارے علمائے کرام کی خدمات اور کوششوں کو مکمل اسٹراٹیجک وژن کے ساتھ ایک ہی مقصد کے لئے اکٹھا کون کرے؟۔ یہ سب رجحانات مطلوب ہیں۔ مگر یہ سب ایک مقصد کے لئے نہیں اکٹھے ہو رہے۔ فیکٹری مینجر، فنانس مینجر اور مارکیٹنگ مینجر کو ایسے مکمل اسٹراٹیجک وژن کے مطابق چلنا چاہئے جو جنرل مینجر ( جی ایم ) وضع کرے۔ کیا آپ بزنس ایڈمنسٹریشن کی روشنی میں اسلام کا مفہوم واضح کر سکتے ہیں؟۔ جی۔ اسلام ایک اسٹراٹیجیک وژن کے مطابق زندگی کو چلانے کا نام ہے۔ مثال کے طور پر اسلام عورت کو آزادی دیتا ہے۔ اور مرد کو قوامت عطا کرتا ہے۔ اور دونوں ہی صحیح، اہم اور مطلوب ہیں۔ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو ان دونوں کو ایسے صحیح طریقے سے جمع کرتا ہے کہ کوئی ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرے (اس سب کی تفصیل انٹرویو کی اگلی قسطوں میں ملاحظہ کیجئے گا)۔ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو افراط وتفریط، مذہبی وغیر مذہبی انتہا پسندی، سرمایہ داری اور اشتراکیت وغیرہ کا تنازع ختم کر سکتا ہے۔ کیا آپ ایسی مفصل مثال دے سکتے ہیں جس کا روزمرہ زندگی سے زیادہ تعلق ہو؟۔ جی ہاں! زندگی کے کئی بنیادی پہلو ( میدان ) ہیں 1۔ اقتصادی پہلو (میدان(۔ 2۔ سیاسی پہلو (میدان(۔ 3۔ معاشرتی پہلو (میدان(۔ 4۔ ثقافتی پہلو (میدان(۔ 5۔ عسکری پہلو (میدان(۔ 6۔ فنی پہلو (میدان(۔ 7۔ سپورٹس کا پہلو (میدان(۔ اسلام نے اپنے اندر زندگی کے ان سارے پہلوو ں کے قابل تغییر اور نا قابلِ تغییر معاملات کو سمیٹ لیا تا کہ مسلمان نا قابلِ تغییر امور کی حفاظت کریں جو عام طور پر بہت کم ہوتے ہیں۔ اور زمان ومکان کی مناسبت سے قابلِ تغییر معاملات کے میدان میں ترقی کریں، تخلیق کریں، اور آگے بڑھیں۔ تو پھر سیاسی پہلو کے بارے میں کچھ بتائیں؟۔ سیاسی پہلو میں نا قابلِ تغییر عناصر کم ہیں۔ جبکہ قابلِ تغییر عناصر بہت زیادہ ہیں۔تا کہ ہر زمان ومکان، ہر قسم کے عوام اور رسم ورواج کے لئے مناسب رہیں۔ مثال کے طور پر اسلام یہ نہیں کہتا کہ خلافتِ اسلامی کی پرانی شکل ہی ہمیشہ کے لئے چلتی رہنا چاہئے۔ وہ یورپین یونین کی طرح اتحاد کی شکل میں کیوں نہ ہو؟ جس میں شامل یوروپین یونین اہم بنیادی اُصولوں پر متفق ہوتے ہیں۔ عالمی امور میں ایک ہی موقف لیتے ہیں۔ اس کے باوجود ہر ایک ملک کی اپنی الگ خصوصیت اور قومی تشکیل ہے۔ یوروپین یونین در حقیقت ایک اسٹراٹیجک وژن سے عبارت ہے۔ اور اسلام ہی نے سب سے پہلے اس طرح کا ویژن پیش کیا تھا۔ اسلام نے حاکم کی تقرری کا کوئی خاص طریقہ پیش نہیں کیا۔ خلافت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تقرری کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تقرری کے طریقے مختلف تھا۔ چنانچہ منتخب نمائندے ہی اتفاقِ رائے سے سوچتے اور تخلیق کرتے ہیں، بشرطیکہ عوام بھی ان کی حمایت کریں۔ سیاسی پہلو میں نا قابلِ تغییر عناصر کے بارے میں کچھـ بتائیں۔ سیاسی پہلو میں سب سے اہم نا قابلِ تغییر (عنصر) نظامِ شوریٰ (شورائیت) اور گڈ گورننس (منصفانہ اور شفاف حکومتی نظام) ہیں۔ اس کے با وجود نا قابلِ تغییر عنصر (شورائیت) کے اندر قابلِ تغییر عنصر (شورائیت کا طریقہءتعمیل) بھی موجود ہے۔ وہ کیسے؟۔ مثال کے طور پر اسلام نے شورائیت کے لئے کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کیا۔ کیا یہ پارلےمنٹ کی شکل میں ہو یا سینیٹ کی شکل میں! کیا انتخابات سیاسی پارٹیوں کے نظام پر منعقد کئے جائیں یا آزادانہ نظام پر؟!۔ یہ سب کچھ ماہرین ومجتہدین پر زمان ومکان اور رسم ورواج کے پیشِ نظر چھوڑا گیا ہے۔ اقتصادی پہلو کے بارے میں کچھـ بتائیں۔ اسلام نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں سرمایہ دارانہ یا نجکارانہ یا اشتراکی نظام کے مطابق چلنا ہے۔ اس کے با وجود نا قابلِ تغییر عناصر کی حفاظت کرنی چاہئے۔ اور قابلِ تغییر عناصر کو تبدیل کرنے کا اختیار ہے۔ تا کہ اقتصادی مفادات پورے ہو جائیں۔ اسلام نے اس قسم کے اقتصادی تطبیقات میں قطعی طور پر مداخلت نہیں کی۔ اقتصاد کے نا قابل تغییر عناصر کی چند مثالیں دے سکتے ہیں؟۔ ان عناصر میں سب سے اہم یہ ہے کہ اقتصادی معاملات اور سرمایے بذاتِ خود وسیلہ کی حیثیت رکھتے ہوں۔ غرض وغایت کی نہیں۔ تا کہ ایسے ترقیاتی کام ہو سکیں جن کا مثبت طور پر فرد اور مسلم وغیر مسلم معاشرے پر اثر ہو۔ اور ہمہ گیر اسلامی منہج کا بہترین تہذیبی فارمولا اور طریقہ سامنے آ جائے۔ اس طرح کا عمل پرانے زمانے میں بھی ہوا۔ اور اس کے نتیجے میں اکثر علاقے اسلام میں بغیر کسی جنگ کے داخل ہوئے۔ اسی طرح سود کو حرام اور خرید وفروخت کو حلال قرار دینے (وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا) (البقرة:275): (اور حلال کيا اللہ نے تجارت کو اور حرام کيا سود کو)، دھوکہ اور فریب دینے اور حقوقِ ملکیت کو تحفظ دینے کا معاملہ۔ آپ کی معلومات کے لئے اسلام کے اندر سرمایہ داری کی ساری خوبیاں ہیں۔ مگر سرمایہ داری کی ساری خامیوں سے پاک ہے۔ اسی طرح اشتراکیت کی ساری خوبیاں اسلام کے اندر موجود ہیں، خامیاں نہیں۔ معاشرتی پہلو کے بارے میں کچھ بتائیں۔ میرے خیال میں وہ مکمل طور پر سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں سے مختلف ہوگا۔ جی ہاں۔ وہ واقعی سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں سے پورے طور پر مختلف ہے۔ معاشرتی پہلو میں بنیادی حیثیت نا قابلِ تغییر عناصر کو حاصل ہے۔ اور یہ عناصر زیادہ بھی ہیں۔ جبکہ قابلِ تغییر عناصر بہت کم ہیں۔ کیونکہ معاشرتی معاملات بنیادی طور پر انسان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور انسان ہی براہِ راست ان کا موضوع ہے۔انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے کسی بھی زمان ومکان میں نا قابلِ تغییر ہے۔ اسلام نے معاشرتی پہلو کی ساری جزئیات مقرر کیں۔ فیملی، حقوق، والدین کی فرماں برداری، رضاعت، طلاق، وراثت وغیرہ۔ سیاسی اور اقتصادی پہلو اس کے بر عکس ہیں۔ ان میں اسلام صرف کلیات وضع کرتا ہے۔ تفصیلات انسانی اجتہاد پر چھوڑتا ہے۔ کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں کی بہ نسبت معاشرتی پہلو زیادہ اہمیت اور فوقیت رکھتا ہے؟!۔ جی۔ معاشرتی پہلو ہی سب سے اہم ہے۔ وہ اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں میں اس وقت تک کوئی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک معاشرتی پہلو صحیح اور مضبوط نہ ہو۔ معاشرتی پہلو کی بنیاد پر ہی باقی سارے پہلو استوار ہوتے ہیں۔ کیونکہ معاشرتی پہلو کے اکثر عناصر کسی زمانے میں بھی نا قابل تغییر ہوتے ہیں۔ اسلامی تحریک سے تعلق رکھنے والوں اور مسلم مبلغین کے اکثر افراد یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی پہلو ہی زیادہ اہمیت اور توجہ کا حقدار ہے۔ اور اسی سے ہی اصلاح کا آغاز کیا جانا چاہئے۔ نہیں، معاشرتی پہلو ہی سب سے اہم ہے۔ اور اسی لئے مغرب ہمیں معاشرتی طور پر فتح کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہا ہے۔ سیاسی پہلو کے معاملات کے بارے میں آپ مغرب سے بھی لے بھی سکتے ہیں اور چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ اسی طرح اقتصادی میدان کے معاملات بھی۔ مگر معاشرتی پہلو کے سلسلے میں مغرب سے کچھ بھی نہ لیں۔ نہ خیال اور آئیڈیا لیں، اور نہ ہی اُصول، بنیادیں، جزئیات وتطبیقات۔ کیونکہ اسلام میں معاشرتی پہلوکے کلیات پورے ہیں۔ اس کی جزئیات اور تفصیلات بھی واضح اور خاص ہیں۔ ایک اہم سوال کے جواب میں کچھ لوگ اور خاص طور پر اسلامی تحریک سے تعلق رکھنے والے تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خاص کر سیاسی پہلو کے سلسلے میں مغرب سے کیا لیا جا سکتا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا لیا جا سکتا ہے اور کیا چھوڑا جا سکتا ہے؟۔ سیاسی پہلو کی دو قسمیں ہیں: 1۔ بنیادیں، قدریں، اُصول اور اغراض ومقاصد صرف اسلام سے لئے جاتے ہیں۔ نہ مشرق سے اور نہ ہی مغرب سے۔ 2۔ جہاں تک تعمیل کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں آپ مغرب سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ خاص کر اگر آپ اس میدان میں پیچھے ہیں۔ ایسی صورت میں آپ پر یہ استفادہ شرعا لازم ٹھہرتا ہے۔ مثال سے اس کی وضاحت کیجئے۔ مثال کے طور پر جمہوریت پر عملدر آمد کرنا، علاقائی تقسیم، انتخابات کی انتظامی کار روائیاں، اور شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقد کرنا، آپ یہ سارے معاملات مغرب سے لے سکتے ہیں۔ کیونکہ اس میدان میں مغرب ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ مگر جمہوریت پر عملدر آمد کرنے کا مقصد اسلام اور صرف اسلام سے ہی لیا جاتا ہے۔ ایک اور مثال دیجئے کہ مغرب سے اورکیا لیا جا سکتا ہے۔ کیا چھوڑا جا سکتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ انٹرنٹ، اس کا استعمال، اور اس پر سیرچ کرنے کا طریقہ، یہ سب مغرب سے لیا جا سکتا ہے۔ مگر ہم یہ کیو ں لیں! تو یہ اصول ومقاصد صرف اسلام سے ہی لئے جاتے ہیں۔ اسلام میں تعلیم بذاتِ خود ایک ذریعہ ہے، مقصد وغایت نہیں۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہئے کہ ہم تعلیم کیوں حاصل کرتے ہیں؟!۔ اس سوال کا جواب ہر معاملے کی بنیاد ہے۔ آپ نے اسلام کے مطالعے کے سلسلے میں یہ انتظامی طریقہءکار کیوں اختیار کیا؟۔ اسلام آپ کے سامنے بنیادی اُصول پیش کرتا ہے تا کہ آپ گمراہی یا تذبذب کا شکار نہ ہو۔اغراض ومقاصد الگ ہوتے ہیں۔ اور ان اغراض ومقاصد تک پہنچنے کے لئے طریقہءکار الگ ہوتے ہیں۔ ہم بالعموم یہ چاہتے ہیں کہ قدریں اور اغراض ومقاصد ہماری اسلامی ثقافت کے مطابق رہیں۔ وسائل اور طریقہءکار کو ترقی یافتہ ممالک کے تجربے کی روشنی میں بہتر بنائیں۔ ڈاکٹر حسن الحیوان کے انٹرویو کی پہلی قسط کے اختتام پر ہم ڈاکٹر صاحب کے بہت شکر گزار ہیں۔ اُمید ہے کہ عزیز قارئین انٹرویو کا دوسرا حصہ قریبا ان شاءاللہ ملاحظہ کریں گے۔ آپ سب کے لئے ہماری طرف سے نیک تمنائیں اور دعائیں۔ اللہ حافظ۔۔ دراستي للإدارة في أمريكا أفهمتني عظمة الإسلام ج1 من حوارنا مع د. حسن الحيوان UR
ملاقاتيں -
|