English - عربي
  صفحہ اول ويب سائٹ ہم سے رابطہ زائرين کا ريکارڈ
  فتوے -: روزے دار كا بواسير وغيرہ كے ليے مرہم اور كريم استعمال كرنا - فتوے -: کسی شخص نے فجرکے بعد یہ گمان کرکے کہ ابھی اذان نہیں ہوئی سحری کھا لی اس کا کیا حکم ہے؟۔ - فتوے -: چاند ديكھنے كا حكم - فتوے -: سيكسى سوچ كے نتيجہ ميں منى كا انزال ہونے سے روزہ باطل ہو جائيگا؟۔ - فتوے -: روزے كى حالت ميں ناك كے ليے سپرے استعمال كرنا - نخلستان اسلام -: فصل کاٹنے کا وقت قریب آگیا - نخلستان اسلام -: نجات کی کشتی قریب آگئی -  
ووٹ ديں
مغرب کی اسلام دشمنی کے اسباب میں سے ہے؟
اسلام اور مسلمانوں سے نفرت
صحیح اسلام سے عدم واقفیت
تطبیق اسلام کی صورت میں غیراخلاقی خواہشات پر پابندی
تمام سابقہ اسباب
سابقہ را? عامہ
ملاقاتيں -

اسلام میں عورت کی آزادی اور مرد کی سربراہی، ڈاکٹر حسن الحیوان کے افکار میں ہماری ذہنی سیاحت کا چوتھا حصہ

ڈاکٹر حسن الح?وان & ڈاکٹر ناجح ابراھ?م انٹرویو اور پیشکش: ڈاکٹر ناجح ابراہیم،۔۔ ڈاکٹر حسن الحیوان کے ساتھـ انٹرویو ایک قسم کی دلچسپ فکری، ذہنی، اسلامی اور انتظامی سیاحت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ قدرت حاصل ہے کہ اصل متن کو انسانی عقل کے ساتھـ اس طرح مربوط کردیں کہ دونوں کا توازن بر قرار رہے۔ دین اور دنیا کو اس طرح ایک ساتھـ رکھتے ہیں کہ دین ہی دنیا کی اصلاح کا راز بن جائے۔ اور دنیا ہی اسلام کی تعلیمات پر عمل درآمد کا حقیقی مقام بن جائے، جہاں شرعی احکامات لاگو کئے جا سکیں۔ زمین وآسماں کے درمیان ایسا تعلق پیدا کرتے ہیں کہ آسمانی تعلیمات زمین کے لئے مشعلِ ہدایت بن جائیں۔ اور زمین ہی وہ جگہ بن جائے جہاں شریعتِ خداوندی کا نفاذ کیا جا سکے۔ تا کہ زمین آباد ہو جائے۔ اس کی اصلاح کی جاسکے۔ اور خیر وانصاف سے بھی آراستہ کیا جا سکے۔ روح اور مادہ کو اکٹھا کرتے ہیں کہ ان میں سے کوئی دوسرے پر غالب نہ آ جائے۔

ڈاکٹر صاحب مرد اور عورت کے درمیان انصاف وعدل، اور مرد کی سربراہی کی اہمیت اور مشروعیت کے درمیان ربط پیدا کرتے ہیں۔ وہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے درمیان انصاف کا مطلب برابری نہیں ہے۔ انصاف برابری سے پورے طور پر مختلف ہے۔ انصاف مطلق مساوات میں نہیں، انصاف حیثیتوں میں برابری سے مختلف  ہے۔ مطلق مساوات صرف ان میں ہو سکتی ہے جو کام کے لحاظ سے،جسمانی اور نفسیاتی لحاظ سے بھی ایک جیسے ہوں۔ کیا ہم مرد سے ولادت، رضاعت اور بچوں کی پرورش کا تقاضا کر سکتے ہیں؟۔ اور عورت سے وطن کے عسکری دفاع اور فوج کے ساتھـ با قاعدہ جنگ کرنے کا تقاضا کر سکتے ہیں؟۔

آج کے انٹرویو میں معاشرتی پہلو میں اسلام کی طاقت کے راز کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ معاشرتی پہلو میں اسلام کے اکثر نا قابل تغییر عناصر موجود ہیں۔ اس کے بر عکس سیاسی اور اقتصادی پہلو میں ناقابلِ تغییر عناصر کم ہی ہیں۔ اور قابلِ تغییر عناصر کثرت سے ہیں۔ تا کہ زندگی ہر زمان ومکان کے حالات اور رسم ورواج کے ساتھـ چل سکے۔ اسی طرح مسلم ممالک میں معاشرتی اُصول واحکامات کی تبدیلی پر مغرب کے اصرار اور اس کے پیچھے خفیہ راز پر گفتگو ہوئی ہے۔

ڈاکٹر حسن الحیوان صاحب! سب سے پہلے ہم آپ کو اس انٹرویو کے چوتھے حصے میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ انٹرویو کے پچھلے حصے ہمارے قارئین کو بے حد پسند آئے ہیں۔ بہت لوگوں نے اس سے متاثر ہو کر آپ سے مزید انٹرویو کا مطالبہ کیا ہے۔ اس لئے ہم قارئین کی فرمائش پر یہاں آپ کے انٹرویو کا چوتھا حصہ شائع کرتے ہیں۔

آپ کے ویب سائٹ کے قارئین کا یہ اعتبار میرے لئے عزیز ہے۔ یہ ایسا اعزاز ہے جس پر پورا اُترنے کے لئے بڑی محنت، لگن اور ذمہ دارای سے کام لینا پڑتا ہے۔ تا کہ ان مسائل پر گفتگو کر سکوں جو امتِ مسلمہ اور اس کے درد رکھنے والوں کو در پیش ہیں۔

سارے مسلم ممالک میں سیکولر تصورات کے حامل افراد ہر وقت مرد اور عورت کے درمیان مساوات والا نام نہاد راگ الاپتے ہیں۔ عام طور پر وہ اسلام کو یہ الزام دیتے ہیں کہ وہ مرد اور عورت کو برابر نہیں سمجھتا۔ اور یہ کہ اسلام اور اسلامی تحریک والے عورت پر بہت ظلم کرتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟۔

سب سے پہلے اس مسئلے کی فکری اور نظریاتی بنیاد کو سمجھنا چاہئے۔ مرد اور عورت کے درمیان مساوات، اور مرد اور عورت کے درمیان انصاف، یہ دونوں الگ الگ معاملے ہیں۔ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ہر چیز میں مطابقت رکھتے ہیں۔ اگر میں نے اپنی بیٹی کے لئے تحفے میں گڑیا خرید کے دی، تو کیا منطق ہے کہ میں اپنے بیٹے کے لئے بھی گڑیا ہی خریدوں؟۔ اور اگر میں نے اپنے بیٹے کو پستول بطور کھلونا خرید کے دیا، تو کیا منطق یہی کہتی ہے کہ بیٹی کے لئے بھی پستول ہی کا کھلونا لا کے دوں؟!۔

مطلق مساوات صرف دو ہو بہو چیزوں کے درمیان ہو سکتی ہے۔ ایسی دو چیزوں کے درمیان ہو سکتی ہے جن کے درمیان ہر پہلو میں مطابقت ہو۔ اسلام ایک عظیم اسٹراٹیجک وژن لے کر آیا ہے۔ اور وہ یہ کہ مرد اور عورت کا دائرہ کار الگ الگ ہے۔ وہ ایک دوسرے کی تکمیل ہیں۔ ہر ایک کی پیدائش کا خاص مقصد ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ تا کہ زندگی کا سفر صحیح، با مقصد اور خوش گزرے۔

کیا آپ اس کی کوئی مثال پیش کر سکتے ہیں؟۔

ایک دفعہ میں ابن خلدون سنٹر گیا تھا۔ یہ ایک معروف ومشہور سیکولر سنٹر ہے۔ اسی موضوع پر لیکچر کے دوران میں نے حاضرین کو کہا: فرض کریں آپ سیکولر ہیں۔ کوٹھی میں رہ رہے ہیں۔ دروازے کی گھنٹی بجی۔ چوکیدار چھٹی پر تھا۔ دروازہ کھولنے کے لئے آپ اپنے بچوں میں سے کس کو کہیں گے؟۔

اُنہوں نے کہا: بیٹے سے کہیں گے۔

میں نے کہا: اور اگر متعدد بار گھنٹی بجے تو آپ دروازہ کھولنے کے لئے اپنے بچوں میں سے کس کو کہیں گے؟۔

اُنہوں نے کہا: بیٹے سے ہی کہیں گے!۔

میں نے کہا: تو پھر مساوات کہاں ہے؟! آپ نے تو بیٹے کو تھکا دیا۔ اور اس طریقے سے آپ خود اس اُصول کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جس کا آپ مطالبہ کر تے ہیں!۔

اُنہوں نے کہا: یہ تو مرد کا کام ہے۔

میں نے کہا: یہی نتیجہ ہے جس تک میں پہنچنا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ کہ مرد عورت سے مختلف ہے۔ مرد کا کام عورت کے کام سے الگ ہے۔ اور یہ اختلاف دونوں کے درمیان برابری، یعنی انصاف میں مخل نہیں ہے۔ کیا مرد کو حمل ہو سکتا ہے! بچہ پیدا کر سکتا ہے!  دودھ پلا سکتا ہے! اولاد کی پرورش کر سکتا ہے! کیا عورت فوج کے ساتھـ با قاعدہ لڑ سکتی ہے! وطن کا عسکری دفاع کر سکتی ہے!۔

مرد اور عورت کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا دنیا اور زندگی کو مستحکم کر تا ہے، یا کمزور کر دیتا ہے؟۔

ایک ہونا صرف اللہ ہی کو زیب دیتا ہے۔ مگر ایک دوسرے سے الگ اور مختلف ہونا (نہ کہ خلاف ہونا) کائنات کی بنیاد ہے۔ تا کہ ہر میدان میں وہ ایک دوسرے کی تکمیل ہوں۔ معاشرتی لحاظ سے عورت اور مرد۔

اسلام کی عظمت دیکھیں۔ اس نے انفرادی اور اجتماعی نقطہ نظر کو بیک وقت اکٹھا کر دیا۔ اقتصادی پہلو کے لحاظ سے ان دونوں میں ایک توازن پیدا کر دیا۔ کائنات میں دن اور رات کو یکجا کر دیا۔ تہذیبی وثقافتی میدان میں، جو اپنے اندر باقی سارے پہلووں کو سمیٹے ہوئے ہیں، مادیت اور روحانیت کو اکٹھا کر دیا۔ موجودہ دور میں بین الاقوامی سطح پر جو ظلم ہو رہا ہے، اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پوری دنیا پر جو تہذیب اس وقت چھائی ہوئی ہے، وہ ایک مادی، سیکولر اور روحانیت سے عاری تہذیب ہے۔ اس کی مثال اس زندگی جیسی ہے جس میں صرف مرد ہے عورت نہیں، یا صرف عورت ہے، مرد نہیں، یا مسلسل رات ہے، دن نہیں، یا مسلسل دن ہے مگر رات کوئی نہیں۔

کیا آپ قارئین کے لئے مزید وضاحت کی خاطر مثال دے سکتے ہیں؟۔

جی ہاں! مثال کے طور پر اگر بزنس ایڈمنسٹریشن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کوئی بھی کمپنی جب گاڑی بنائے گی تو اس کے لئے مارکیٹنگ کرے گی۔ لیکن گاڑی بنائے بغیر اس کی مارکیٹنگ کیسے ہوگی؟۔ یا پھر اگر کمپنی گاڑیاں بناتی چلی جائے اور مارکیٹنگ نہ کرائے تو پیسے کہاں سے آئیں گے کہ ایک طرف گاڑی بنانے والوں کو تنخواہ دی جا سکے، اور دوسری طرف کمپنی کو بہتر بنایا جا سکے؟!۔

مینیو فیکچرنگ (Manufacturing ) مارکیٹنگ سے اگرچہ مکمل طور پر مختلف ہے۔ لیکن پھر بھی دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ کیا ہم مینو فکچرنگ اور مارکیٹنگ کے درمیان اس اختلاف کو برابری اور انصاف کی خلاف ورزی شمار کر سکتے ہیں؟! بالکل نہیں! دونوں کے درمیان ہر لحاظ سے انصاف ہے، اگرچہ دونوں ہر لحاظ سے مختلف بھی ہیں۔

سیکولر سوچ کے حامل افراد اکثر یہ بات دہراتے رہتے ہیں کہ اسلام نے فیملی کے اندر سربراہی کا حق مرد کو دے کر عورت پر ظلم کیا۔ اور مغرب والے سربراہی کا یہ حق مرد سے مکمل طور پر چھین لیتے ہیں؟۔

ہمیں اس معاملے پر بزنس ایڈمنسٹریشن کے نقطہ نظر کے مطابق غور کرنا چاہئے۔ تب کہیں جا کر ہم حق تک پہنچ سکیں گے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اسلام نے ہی بزنس ایڈمنسٹریشن کے میدان میں وہ تصور پیش کیا جس کو اسٹراٹیجک تصور کہہ سکتے ہیں۔ گھر کی تنظیم کے حوالے سے صرف تین طریقے ہیں، چوتھا کوئی نہیں:

۱۔ گھر مرد کی نگرانی میں ہو۔

۲۔ گھر عورت کی نگرانی میں ہو۔

۳۔ گھر کسی کی بھی نگرانی میں نہ ہو۔

آئیے ان تینوں مفروضات کا تجزیہ کریں:

۱۔ وہ مفروضہ کہ کسی کی نگرانی نہ ہو، ہر سوچ اور ہر تصور میں نا قابلِ قبول ہے۔

۲۔ تو پھر مرد یا عورت، دونوں میں سے ایک کو نگرانی کرنی ہی پڑے گی۔

اسلام نے مرد کو اس ذمہ داری کے لئے چنا۔ ساتھـ ہی گھرانے کی نگرانی اور قیادت کے لئے پورا لائحہ عمل بھی پیش کیا۔ مغرب اور سیکولرز نے عورت اور مرد میں سے کسی کو نہیں چنا۔ چنانچہ وہ کسی بھی لائحہ عمل سے مکمل طور پر محروم رہے۔ وہ صرف اسلام کے عطا کردہ فارمولے پر تنقید کرتے رہے۔ مگر اس کا متبادل پیش نہ کر سکے!  اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ متبادل پیش کئے بغیر تنقید کرنا گویا کہ نا معقولیت اور ظلم کے عروج کے مترادف ہے۔

اسلام نے مرد کی قیادت اور اس کی گھر کی نگرانی کے لئے ایک ہمہ گیر لائحہ عمل پیش کیا۔ اس لائحہ عمل کا ایک اقتصادی پہلو ہے، یعنی گھرانے پر خرچ کرنا، جو کہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ بعض علمائے سلف کی نظر میں اس سربراہی  کے مقابلے میں مرد کو عورت کی طرف سے صرف مباشرت کا حق حاصل ہے، نہ کہ گھر کے کام کاج اور اولاد کی پرورش وغیرہ، جیسا کہ بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں۔

فیملی پر خرچ کرنا مرد کی ایک شرعی ذمہ داری ہے۔ مگر گھر کے کام کاج اور شوہر اور اولاد کی خدمت عورت کے  شرعی فرائضِ میں شامل نہیں ہے۔ بعض فقہاء کے نزیک یہ اس کی ذمہ داری ہی نہیں۔ اس کے بر عکس اگر وہ یہ سب کرتی ہے تو اس کا اجر اور ثواب ملنا چاہئے۔ شرعی طور پر اس کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ نوکرانی رکھنے کا مطالبہ کرے۔ چاہے وہ خود یہ سارے کام کر سکتی ہے یا نہیں۔ اور مرد کا فرض ہے کہ ان کاموں کے لئے وہ عورت کا یہ مطالبہ پورا کرے، اگر وہ مالی لحاظ سے قدرت رکھتا ہو۔ یا پھر دونوں میاں بیوی آپس میں جس طرح ہو سکے یہ مسئلہ طے کریں۔ اور بیوی کو آخرت میں اجر ملے گا ہی۔

میں تو فقیہ نہیں ہوں۔ میں یہاں صرف فکری حوالے سے اپنی طرف سے کوشش کر رہا ہوں کہ ہم اسلام کے مطابق اور اسلام کے لئے ہی زندگی بسر کریں۔ لیکن جب کسی موضوع پر گفتگو کرتا ہوں تو سب سے پہلے اس موضوع کی فقہی بنیاد کا گہرا مطالعہ کرتا ہوں۔

شروع میں جب مجھے مذکورہ بالا معاملے کا پتہ چلا تو مجھے بہت صدمہ ہوا۔ مگر حقیقت میں یہ اسلام کی بڑائی ہے۔ اور ہم ہی جاننے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ اور اکثر اپنی بیویوں پر ظلم کر جاتے ہیں۔ جبکہ سربراہی کی ذمہ داری مرد کے سپرد اس لئے کی گئی تا کہ وہ فیملی کے امور بہتر طور پر چلائے۔

سربراہی کا معاشرتی وسماجی پہلو بھی ہے۔ کیونکہ سربراہی ایک وسیلہ ہے، مقصد نہیں۔ اس کی کچھـ شرائط ہیں جو مرد میں ہونی چاہئیں۔ مثلا حکمت، سمجھداری، عقلمندی، شریعت کی پا بندی اور شخصیت کی مضبوطی وغیرہ۔ اگر مرد میں یہ تمام صفات موجود نہیں تو ایسی حالت میں قیادت کسی اور کے سپرد ہونی چاہئے۔ یا پھر عورت کے سپرد۔ اگر مرد فاسق یا عیاش ہو۔ فیملی کو فسق وفجور کے راستے پر چلانا چاہتا ہو، یا وہ پاگل یا نا دان ہو۔ اور فیملی پر خرچ نہ کرتا ہو وغیرہ وغیرہ۔ تو وہ اس ذمہ داری کا اہل نہیں ہوگا۔ شوہر میں مردانگی کی تمام صفات ہونی چاہئیں۔ قرآن تاکید کرتا ہے کہ مرد ہی عورتوں پر سربراہ ہوتے ہیں، نہ کہ مطلق مذکر عورتوں پر۔

سربراہی کا ایک انتظامی پہلو بھی ہے۔ یہ - جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں- ایک انتظامی اعزاز ہے، تا کہ فیملی کے نگراں کا تعین کیا جا سکے۔

ہم مغرب اور سیکولر افراد کو کہتے ہیں کہ اسلام نے اس معاملے میں ایسا لائحہ عمل پیش کیا جس کے انتظامی، اقتصادی، معاشرتی اور شرعی پہلو ہیں۔ اگرچہ آپ اس کے قائل نہیں ہیں۔ حالانکہ اس میں وہ ساری تفصیلات ہیں جن کی اس لئے فیملی کو ضرورت ہے کہ فیملی اس کے ذریعے زندگی کے صحیح راستے پر گامزن ہو سکے۔ تو پھر تم لوگوں کا لائحہ عمل کہاں ہے؟!۔ حقیقت میں یہ لوگ اس سلسلے میں کوئی خاص تصور نہیں رکھتے۔

کیا سربراہی مرد کے لئے اعزاز سے زیادہ ذمہ داری نہیں؟۔

جی ہاں! اس لئے مرد اپنی بیوی اور اولاد کی غلطیوں کا ذمہ دار ہے۔ جبکہ بیوی اپنے میاں کی غلطیوں کی ذمہ دار نہیں ہے۔ فرض کریں کہ کوئی عورت سڑک پر عریاں لباس میں نکلے۔ تو اس کی ذمہ داری دنیا اور آخرت میں اس کے شوہر پر ہے۔ جبکہ اگر مرد یہی کرے تو اس کی ذمہ داری اس کی بیوی پر نہیں ہوگی۔ بلکہ خود مرد کے اپنے اُوپر ہے۔

کیا یہ معقول بات ہے کہ مرد کو اختیار دئیے بنا یہ ذمہ داری سونپی جائے؟!۔ ذمہ داریاں ہمیشہ اختیارات کے عوض ہوتی ہیں۔ یہ اسلام، مغرب، سیکولرزم اور عقلِ کامل کے مطابق ایک انتظامی اُصول ہے۔ اسی طرح اختیارات کے مقابلے میں ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ کسی شخص کو کسی گودام کا ذمہ دار بنایا جائے، اور گودام کی چابی اس کے حوالے نہ کی جائے! کیا یہ ممکن ہے کہ کسی شخص کو گودام کی چابی دی جائے۔ اختیارات بھی دی جائیں۔ اور جب خدا نہ خواستہ گودام کی چوری ہو جائے تو اس کی ذمہ داری اس پر نہ ہو۔ اس کا کوئی حساب کتاب نہ ہو۔ یہ تو نا معقول بات ہے۔

سربراہی بذاتِ خود مقصد نہیں، بلکہ یہ ایک ذریعہ ہے فیملی کو سنبھالنے اور چلانے کا۔ فرض کریں کہ آپ کا ایک سٹور ہے جس میں پانچ چھـ لوگ کام کر رہے ہیں۔ اب جب کبھی آپ کسی چیز کے بارے میں پتہ کرنا چاہتے ہیں، تو ہر بار ان پانچ چھـ لوگوں کو بلا کر پوچھیں گے، یا ان میں سے جو اُن کا بڑا ہو، اسی سے پوچھیں گے؟۔ کیونکہ یہی ان لوگوں کا ذمہ دار ہے۔ اور وہی سٹور کو اچھے طریقے سے چلاتا ہے۔ فیملی سٹور سے بہت زیادہ اہم اور خطرناک بھی ہے۔ فیملی کے خراب ہونے کا مطلب پورے معاشرے کا خراب ہونا ہے۔

اسی طرح سربراہی کے میدان بھی بہت اہم ہیں۔ اور ان کے بارے میں جاننا چاہئے۔ سربراہی ہر چیز میں نہیں ہوتی۔ مثلا آج کیا کھانا کھائیں گے۔ یا بچوں کے کونسے کپڑے خریدیں گے۔ یا اس جیسے معاملاتِ زندگی جو نہ ہی سربراہی میں شمار کئے جاتے ہیں، اور نہ ہی ان کا سربراہی سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ کیونکہ کھانے پینے اور اس جیسے معاملات زندگی کے عام شرعی اُصول کے تابع ہوتے ہیں۔ ان معاملات کا اختیار جائز کے دائرے میں رہ کر میاں بیوی کے درمیان طے ہوتے ہیں۔ ان میں سربراہی کی بنا پر شوہر کی رائے پر عمل کرنے کی بات نہیں ہے۔ آج کل جس چیز کو ہم میل کلچر(Male Culture ) کہتے ہیں، اسلام کا اپنا کوئی ایسا کلچر نہیں۔ یہ کلچر ایسے رسم ورواج سے پیدا ہوتا ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور ملٹری کے میدانوں میں ترقی یافتہ ہونے کے با وجود مغرب معاشرتی میدان میں نا کام ہے؟۔

جی ہاں! مغرب میں معاشرتی پہلو سب سے زیادہ نا کام پہلو ہے۔ مغرب اس نا کامی کا صراحت کے ساتھـ اعتراف بھی کرتا ہے۔ اس کے با وجود وہ اس بات پر مُصر ہے کہ ہمیں معاشرتی پہلو ہی میں اس کی پیروی کرنی چاہئے۔ اور وہ اس سلسلے میں بہت کوشش کرتا رہتا ہے۔

اگر اسلام نے سربراہی مرد کے سپرد کر دی تو سیکولر ذہن والوں اور مغرب والوں نے اس سلسلے میں کچھـ نہیں کیا۔ نہ ہی انہوں نے کوئی لائحہ عمل پیش کیا جس سے فیملی کو چلایا جا سکے۔ انہوں نے اس معاملے کو ایسے ہی چھوڑا ہے۔ ہر کوئی جو کچھـ کرنا چاہتا ہے کرے، اور جو کچھـ ہوگا دیکھا جائے گا!۔

مغرب فیملی سنبھالنے اور چلانے میں سو فیصد نا کام رہا۔ وہاں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے۔ معاشرے کی اکثریت اس بد بختی کا شکار ہے۔ جبکہ اسلام نے حقوق وفرائض اور ذمہ داریوں اور اختیارات کے درمیان توازن پیدا کر دیا۔ اور اس سلسلے میں بڑا کامیاب رہا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ عرب اور مسلم معاشرے مغرب کی پیروی صرف اور صرف معاشرتی پہلو ہی میں کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں خود مغرب والے اس میں نا کام رہے۔ لیکن سائنس، ٹیکنالوجی، عسکری اور سیاسی پہلو میں اس کی پیروی نہیں کرتے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟۔

یہ ایسا معاملہ ہے جو دل کو شدید غم اور تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ مضبوط پہلو وہی معاشرتی پہلو ہے۔ اور اگر ہم مغرب والوں سے کچھـ لینا چاہیں گے تو ان کی اچھی چیزیں لیں۔ مثلا سائنس، ٹیکنالوجی، ایڈمنسٹریشن، مینجمنٹ، مارکیٹنگ، اور بالعموم علمی اور عسکری میدان میں ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں ہم ان سے صرف طریقہ کار لے سکتے ہیں، اغراض ومقاصد نہیں۔ کیونکہ اغراض ومقاصد اسلامی ثقافت اور تہذیب کے مطابق ہونا چاہئے، وعلیٰ ہذا القیاس۔

مغرب اس بات پر کیوں مُصِر ہے کہ ہم معاشرتی پہلو ہی میں اس کی پیروی کریں۔ اس مقصد کے لئے کروڑوں ڈالر مختص کر دیتا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے ہمارے ممالک میں بہت سارے این جی اوز کام کر رہے ہیں۔ مغرب والوں کے اس عجیب اصرار کے پیچھے کیا راز ہو سکتا ہے؟۔

اسلام میں ناقابلِ تغییر عناصر کی اکثریت معاشرتی پہلو ہی میں ہوتے ہیں۔ جبکہ سیاسی، اقتصادی اور عسکری پہلووں میں اکثر عناصر قابلِ تغییر ہی ہوتے ہیں۔ ان میں نا قابلِ تغییر عناصر کم ہی ہوتے ہیں۔ لہذا مغرب ان نا قابلِ تغییر عناصر کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس وقت یہی مسلمانوں کی طاقت کا واحد سرچشمہ ہے۔ اس طاقت کی بنیاد فیملی ہے۔ مغرب یہ چاہتا ہے کہ باپ اپنی اولاد کو کوئی سزاPunish) ) نہ دے۔ اور اگر دے بھی تو اولاد ہی اس کے خلاف تھانے میں رپورٹ درج کرے۔ اور اس کو جیل بھی ہو جائے۔

مغرب یہ چاہتا ہے کہ طلاق نہ ہو، اور تعدد ازواج کی جگہ داشتائیں (بے نکاحی عورتیں) لے لیں۔ مغرب یہ چاہتا ہے کہ باپ کو اختیارات اور ذمہ داریوں سے محروم کر دیا جائے۔ مغرب ہی میں باپ، یعنی فیملی پالنے والے کے حقوق اور اختیارات ختم ہو رہے ہیں۔ اس لئے اس کی ذمہ داریاں اور فرائض بھی اس حساب سے ختم ہوں گے۔ اور نتیجة خاندان کا پورا سسٹم بھی ختم ہو جائے گا۔

اسلام میں باپ اپنے بیٹے کی اس وقت سے ذمہ داری اُٹھاتا ہے جبکہ وہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ وہی اس کا نام رکھتا ہے۔ اور جس طرح اس نے بچے کی ماں کو اچھے طریقے سے منتخب کر کے بیوی بنایا، اسی طرح اس کو چاہئے کہ اپنے بیٹے کے لئے اچھا نام منتخب کرے۔ اولاد ہی باپ کے نام کو زندہ رکھتی ہے۔ باپ کی وفات کے بعد اولاد ہی اس کا پیغام آگے پہنچاتی ہے۔ قرآن نے اس حقیقت کی اس آیت میں تاکید کی: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً) (التحريم:6): (اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ)۔

کیا آج کل مغرب اس لئے اسلام پر حملہ کرتا ہے کہ اسلام کے علاوہ اس کو کوئی اور دشمن دکھائی نہیں دیتا، خاص کر جب کمیونزم ختم ہو گیا، اور سوویت یونین بھی ختم ہو گیا؟۔

کائنات کی آفرینش کے بارے میں مغرب کا تصور یک طرفہ ہے۔ اس نے اپنے تہذیبی وثقافتی تصور کی بنیاد اس اُصول پر رکھی کہ آخرت کوئی وجود نہیں رکھتی۔ یہ ایک محض مادی تصور ہے۔ مگروہ اس یک طرفہ تصور کو زندگی کی ہر چیز پر لاگو کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو اس تصور میں اس کی مخافت کرے گا وہ اس کا دشمن ہوگا۔ مغرب کا اصل دشمن اس کا نظریاتی اور تہذیبی وثقافتی مخالف ہے۔ حالانکہ مغرب والے ہمیں کچھـ اور بتاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنے سے تہذیبی وثقافتی لحاظ سے مختلف لوگوں کو قبول کرتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔

اسلام کا معاملہ اس سے پورے طور پر مختلف ہے۔ اسلام شیطان کو انسان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً) (فاطر:6): (یاد رکھو! شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن جانو)۔

اسلام اپنے سے تہذیبی وثقافتی لحاظ سے مختلف شخص کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا۔ جب تک کہ اس نے جارحیت کا ارتکاب نہ کیا ہو۔ یا ہمارا کوئی حق سلب نہ کیا ہو۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد مغرب نے اکثر اسلام ہی کو اپنا اسٹراٹیجک دشمن قرار دیا۔ اور اب وہ اسلام ہی کو سزا دینے میں مصروف ہے۔ اس کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ حالانکہ ہر فکری ونظریاتی رجحان میں کسی نہ کسی سطح پر دہشت گرد ہوتے ہیں۔ ہر ملک اور ہر تہذیب میں دہشت گرد گزرے ہیں۔ اس کے با وجود مغرب والوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ رومن ریاست، یا یونانی ریاست دہشت گرد تھی۔ یا تاتاری تہذیب میں دہشت گردی تھی۔ یہ کبھی نہیں کہا کہ یہودی دہشت گرد ہیں۔ یا سرمایہ داری اور اشتراکیت میں دہشت گردی ہے۔

مغرب ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے پورے طور پر غلام ہو جائیں۔ اس نے ہم پر عسکری، سیاسی اور اقتصادی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کے با وجود اس کا مقصد پورا نہیں ہو رہا ہے اس لئے وہ بھی بس نہیں کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم ذہنی، ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے اس کے غلام بنیں۔ اس کے رسم ورواج اور معاشرتی اقدار کو اپنائیں۔ طلاق اور تعدد ازواج کو حرام قرار دینے سے لے کر ہم جنس پرستی، بد کاری اور شراب کو حلال قرار دینے تک۔ ہاٹ ڈاگ کے سینڈوچ اور کوکاکولا سے لے کر اس معاملے تک کہ باپ اپنی اس بیٹی کو بھی منع نہ کرے جو اپنے بوائے فرینڈ کو لے کر باپ کے گھر ہی کے ایک کمرے میں ساتھـ رہے ۔ میں نے یونیسکو کے کئی چارٹر پڑھے۔ بعض دفعوں میں یہ کہا گیا کہ بیٹی اپنی ماں کی مدد بغیر معاوضہ لئے نہ کرے۔ کیونکہ یہ لڑکی کے خلاف ایک قسم کی نا جائز تفریق ہے۔ دیکھا! یہ لوگ کہاں تک پہنچے؟۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم وہی ہو بہو کریں جو وہ خود کرتے ہیں۔

میں دیکھتا ہوں کہ آپ اپنی گفتگو کے دوران آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ سے کم سے کم دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ اور اکثر عقلی اور انتظامی رجحان سے کام لیتے ہیں۔ وہ کیوں؟!۔

جی ہاں! یہ بہت اہم سوال ہے۔ کیونکہ ایک یہ کہ قرآن کے اندر ہر زمان ومکان میں زندگی کے ہر میدان کے لئے بنیادی اصول اور ضوابط ہیں۔ لہذا یہ اُصول اور ضوابط اپنے اندر بہت زیادہ گہرے معانی ومفاہیم سمیٹے ہوئے ہیں۔ ہم ان اصول و ضوابط کو اپنے زمانے اور اپنی زندگی پر لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے جو بھی آیت قانون سازی سے متعلق ہوتی ہے، اس کی تعمیل کے بارے میں گفتگو کرنے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ چنانچہ میں نہیں چاہتا کہ خواہ مخواہ بہت زیادہ آیات واحادیث کا ذکر کروں، اور ان مولویوں کی طرح کروں جو عام طور پر موجودہ صورتِ حال کا صحیح ادراک نہیں کر سکتے، یعنی ان آیات واحادیث کے اور موجودہ ملکی اور بین الاقوامی صورتِ حال کے ساتھـ ربط پیدا نہ کروں۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم تہذیبی لحاظ سے مختلف تو کیا، اپنے ہی پڑھے لکھے ہم وطنوں کو بھی قائل کرنے میں نا کام ہو جاتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ اگرچہ میں کتاب اللہ اور سنتِ رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - کی تعظیم کرتا ہوں۔ ان کے احکامات کا پورے طور پر پا بند ہوں۔ مگر میری اکثر گفتگو اور بحث ومباحثہ سیکولر ذہن والوں اور مغرب زدہ لوگوں کے ساتھـ ہوتی ہے۔ اس قسم کے لوگوں کے سامنے قرآن وسنت کی دلیلیں پیش کرنا نا مناسب سمجھتا ہوں۔ کیونکہ ان لوگوں میں کچھـ ایسے ہیں جو قرآن وسنت کے قائل ہی نہیں۔ اور کچھـ ایسے ہیں جو قرآن وسنت کو فیصلہ کن دلیل نہیں مانتے۔ اور کچھـ ایسے ہیں جو قرآن وسنت کو صرف انسان اور اس کے پروردگار کے درمیان عبادت کے تعلق کو منظم کرنے سے زیادہ کچھـ نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی چلانے اور اُسے منظم کرنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

اس لئے سیکولر ذہن رکھنے والوں کے الزامات کو رد کرنے، یا اسلام کے پیغام کی وضاحت کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی دلیلوں کے مطابق بات کی جائے۔ تا کہ ان کو پتہ چلے کہ باقی مذاہب کی بہ نسبت اسلام ہی دنیا کی تعمیر و اصلاح اور اُسے چلانے کے لئے بہترین ہے۔

مغرب والے اور سیکولرز اس بات پر مصر ہیں کہ ہم ان ہی کے معاشرتی طریقہ کار کو اپنائیں، اور اسلام کے معاشرتی منہج کو چھوڑیں۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟۔

یہ اس لئے ہے کہ معاشرتی پہلو سیاسی، اقتصادی، اور عسکری پہلووں سے بھی زیادہ اہم ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ تاتاریوں نے مسلمانوں کو عسکری طور پر شکست دے کر ان کے علاقوں پر قبضہ کیا۔ مگر تہذیبی وثقافتی طور پر تاتاری مسلمانوں سے شکست کھا گئے۔ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہو گئے۔ حالانکہ وہی اس وقت غالب تھے۔ یہ ایسا معجزہ ہے جس کی مثال بالکل نہیں ملتی، یعنی کہ فاتح قوم مفتوح قوم کے دین ومذہب اور تہذیب وثقافت کو قبول کرے۔ مسلمانوں کے ساتھـ رہ رہ کر تاتاریوں کے مزاج اور خصلتیں تبدیل ہو گئیں۔

مغرب والے یہ جانتے ہیں کہ اسلام کا معاشرتی منہج ہی مسلم خاندان کو زوال سے بچاتا ہے۔ اس کی بدولت معاشرہ محفوظ ہوتا ہے، اور دوباہ سیاسی، اقتصادی اور عسکری طور پر مضبوط ہو سکتا ہے۔ مغرب والے یہ چاہتے ہیں کہ ہم اسی طرح کھائیں جس طرح وہ کھاتے ہیں۔ اسی طرح شادی کریں جس طرح وہ شادی کرتے ہیں۔ اسی طرح عیاشی کریں جس طرح وہ عیاشی کرتے ہیں۔ اُنہی کی طرح ہم یہ سمجھیں کہ صرف دنیا ہی وجود رکھتی ہے، اور آخرت کوئی نہیں۔ پھر اخیر میں ہم اتنے بد بخت ہو جائیں کہ سویڈن والوں کی طرح خود کشی بھی کریں۔

آپ سب سے زیادہ غریب مسلم ملک کو لے لیں۔ اس کے لوگوں کی آمدنی سب سے کم ہوگی۔ مگر ان میں خود کشی کا وجود ہی نہیں۔ جبکہ سویڈن میں سب سے زیادہ آمدنی اور سب سے زیادہ خود کشیاں ہوتی ہیں۔

مغرب والے ہمارے ممالک کی ہر چیز پر عالمگیریت کے اصول لاگو کرنا چاہتے ہیں؟۔

بالکل وہ یہی کرتے ہیں، اور غیر مہذب اور چڑانے والے طریقے سے کرتے ہیں۔امریکی کانگریس مزید مسلم ممالک پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر شام (سوریا) کا محاسبہ کرنے کے لئے قانون سازی کر رہا ہے۔ پوری دنیا میں کون یہ کہہ سکتا ہے کہ کسی ملک کے پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی اور ملک کا محاسبہ کرے۔ اور اس کو سزا بھی دے۔ یہ سیاسی عالمگیریت کی ایک بھیانک شکل ہے۔

جہاں تک عسکری عالمگیریت کا تعلق ہے تو یہ کسی بھی وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔ اس کی سب سے چھوٹی مثال یہ ہے کہ عسکری اڈے ہر ملک میں قائم کئے جارہے ہیں تا کہ اُسے کچھـ معاملات میں دباو ڈال کر مجبور کیا جا سکے۔ اور اگر یہ نہ مانے تو اس پر قبضہ کرنا، یا اندرونی انتشار پیدا کرنا، اور اقلیتوں کو فساد انگیزی و عداوت پر اُکسانا اس کا آسان حل ہے۔

اقتصادی عالمگیریت آپ کو اکثر عرب اور مسلم ممالک میں نجکاری کی پالیسی، اقتصادی دباو اور اقتصادی غلامی کی صورت میں دکھائی دے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہم کوئی زبردست چیز نہیں بنا سکتے۔ اور اگر صنعت کے میدان میں کوئی سنجیدہ کوشش کسی مسلم ملک سے ہو جائے تو وہ اس کوشش کو برباد کر دیتے ہیں۔

مغرب والے یہ چاہتے ہیں کہ ہم گاڑی کا انجن، یا ہوائی جہاز کبھی بھی نہ بنائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایٹمی علوم، یا ایٹمی صنعت کے قریب نہ جائیں چہ جائیکہ بنا کر استعمال کریں۔

معاشرتی عالمگیریت کے حوالے سے مغرب والے یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا فیملی سسٹم ختم ہو جائے۔ ان کو پتہ ہے کہ یہی اب تک ہمارے معاشروں میں واحد مضبوط سسٹم ہے۔ وہ تعلیم، فیملی، اولاد، شادی اور طلاق کے معاملات میں دخل اندازی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ان سارے معاملات سے کیا لینا دینا ہے۔ عجیب بات ہے نا۔

تعلیمی عالمگیریت کی واضح مثال آپ کو تعلیمی نصابات میں دخل اندازی کی شکل میں ملے گی۔ مغرب والے ہر میدان اور ہر معاملے میں اسلامی تہذیبی وثقافتی تشخص کو مٹانا چاہتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تعلیم کے مختلف مراحل میں دینی نصاب کمزور سے کمزور تر ہو جائے۔ اور نرسری سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے مرحلے تک انگریزی پڑھانے پر زور ہو اور بس۔ یہ عربی زبان کے لئے بہت خطر ناک معاملہ ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے مغرب کا کوئی ملک اس قسم کی پالیسی پر عمل در آمد نہیں کر رہا۔ مثال کے طور پر اگرچہ انگریزی زبان ہی اب عالمی زبان بن چکی ہے، مگر فرانس، جرمنی، اٹلی، اسپین اور یونان وغیرہ میں مقامی اور قومی زبان کو پہلی اہمیت حاصل ہے۔

کئی مغربی ممالک، مثلا ڈنمارک اور ناروے وغیرہ میں رسول پاک - صلی اللہ علیہ وسلم - کی شان میں بہت گستاخیاں کی گئیں۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟۔

ہمیں رد عمل کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے۔ مجھے یہ صحیح نہیں لگتا کہ ہمارے نوجواں جلوس نکال کر کسی ملک کا جھنڈا جلائیں، یا کسی سفارت خانے یا کسی غیر ملکی ادارے پر پتھراو کریں۔ یہ بالکل غیر مہذب رویہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ بے فائدہ بھی ہے، اور قانون کی خلاف ورزی بھی۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ حکومت، جس کے ملک میں رسول پاک - صلی اللہ علیہ وسلم - کی شان میں گستاخیاں ہوئیں، آپ کے موقف کے ساتھـ اتفاق کرتے ہوئے بھی آپ خلاف ہو جائے۔ اور ظاہر ہے آپ بھی اس کے خلاف ہو جائیں گے۔ اور اگر آپ ایسے رویے پر مصر رہیں تو پوری دنیا آپ کو مضبوط نہیں، کمزور سمجھے گی۔

تو پھر مسلمان کیا کریں؟!۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ ڈنمارک کی ہر بنائی ہوئی چیز کا بائیکاٹ کریں۔ ایسا کرنے سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ معاشرہ واقعی زندہ اور سمجھدار معاشرہ ہے۔ اسلام ہمیں یہ سکھانے آیا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر صحیح طریقے سے زندگی کیسے چلائی جاتی ہے، اور زمین کو آباد کیسے کیا جاتا ہے۔ اگر ہمارے معاشرے متحرک ہوتے تو میکڈونلڈز ریسٹورنٹ ہمارے يہاں جگہ جگہ نہ ہوتے۔ اور ان کے کھانے اتنے مقبول نہ ہوتے۔ جبکہ امریکہ نے کئی مسلم ممالک پر عسکری قبضہ کر رکھا ہے۔

ہمارے يہاں ایسی ایسو سی ایشنز ہونی چاہئیں جو مسلمانوں میں جدید اور مہذب طریقے سے دوسروں کا سامنا کرنے سے روشناس کرائیں۔ ایسے حقیقت پسند مبلغین ہونے چاہئیں جو نوجوانوں کو بتائیں کہ بائیکاٹ کرو، توڑ پھوڑ نہ کرو، جلاو گھیراو نہ کرو، تا کہ اپنے بر حق کیسز کو نہ ہار بیٹھو۔

معزز قارئین! معروف دانشور اور منتظم ڈاکٹر حسن الحیوان سے لئے گئے انٹرویو کا چوتھا حصہ ختم ہوا ہے۔ اس میں مسلمانوں اور ان کے جواں دینی مبلغین کے لئے بہت اہم مسائل پر گفتگو ہوئی ہے۔ ہم ڈاکٹر صاحب کے شکر گذار ہیں۔ اور اگلی ملاقات کی توقع رکھتے ہیں۔ آپ کا بھی بہت بہت شکریہ۔

الإسلام بين حرية المرأة وقوامة الرجل ج4 من سياحتنا الفكرية في عقل د. حسن الحيوان UR



ملاقاتيں -

  • اخبار
  • ہمارے بارے ميں
  • نخلستان اسلام
  • بيانات
  • مسلم خاندان
  • موجودہ قضيے
  • کتابيں
  • حادثات
  • جہاد کا حکم
  • ملاقاتيں
  • ويب سائٹ کي خدمات
  • اپني مشکلات بتائيں
  • فتوے
  • ارئين کي شرکت