English - عربي
  صفحہ اول ويب سائٹ ہم سے رابطہ زائرين کا ريکارڈ
  حادثات -: ۔(عربی نظام) اور تیونسی منظر سے عبرت ونصیحت - موجودہ قضيے -: تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کو اقتدار سے نکالنا اور حسن بصری کی وصیت - مسلم خاندان -: مسلم فیملی کے باغ میں امن و سلامتی کی گرمی - جہاد کا حکم -: ۔(2-5) عصر حاضر کے نئے مسائل اور جہاد کے احکام - حادثات -: تیونس سیکولرزم اور بربادی کے درمیان - ملاقاتيں -: ڈاکٹر حسن الحیوان سے لئے گئے انٹرویو کا دوسرا حصہ - ملاقاتيں -: میں مرنے سے پہلے اپنے بیٹے محمد کو دیکھنا چاہتی ہوں۔۔ ام خالد اسلامبولی کے ساتھـ ھمارے انٹرویو کا چوتھا اور آخری حصّہ - ہمارے بارے ميں -: ۔(2-4) عقلی اور نقلی دلائل کے ما بین تعلق - جہاد کا حکم -: ۔(2-4) ملّت اسلامیہ پر جہاد کی منسوخی کے دعوے کے خطرات (نقصانات)۔ - موجودہ قضيے -: مسلمان جدید بین الاقوامی نظام کے نقشے میں - حادثات -: قدیسین گرجاگھر کے بم دھماکے اور جماعت اسلامی کا بیان - مسلم خاندان -: ۔(1) ذریت کی اصلاح کے لئے نبوی جھلکیاں - جہاد کا حکم -: ۔(1۔3) راہ خدا میں جہاد اس دین کی اعلی کوہان( یعنی اعلی مقام) ہے - ملاقاتيں -: ام خالد اسلامبولی اپنی زندگی کی سب سے مشکل لمحے کا قصہ بیان کرتی ہیں۔۔ ام خالد کے ساتھـ ہمارے انٹرویو کا دوسرا حصہ - مسلم خاندان -: جب بیوی کے پاس امن و امان کا فقدان ہو - بيانات -: جماعت اسلامی اسکندریہ میں قدیسین چرچ کے باہر دھماکہ کی مذمت کرتی ہے - ہمارے بارے ميں -: ۔(2-12) ہم وطنوں کے ساتھ ربط وتعلق - موجودہ قضيے -: تنظیم القاعدہ کے لوگ کب اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے۔۔۔ کب اپنے افکار و خیالا ت اور حکمت عملی کو تبدیل کریں گے؟۔ - جہاد کا حکم -: ۔(7-4) اندھا دھند دھماکے میزان میں -  
ووٹ ديں
کیا ویب سائٹ آپ کے لئے کوئی نئی چیز پیش کر رہی ہے؟۔
ہاں
نہیں
کبھی کبھی
سابقہ را? عامہ
ملاقاتيں -

سیکولرازم میں کوئی نا قابل تغییر عناصر موجود نہیں۔۔ سیکولر خود اپنے لئے قانون بناتا ہے۔۔ ڈاکٹر حسن الحیوان سے لئے گئے انٹرویو کا دوسرا حصہ

ڈاکٹر ناجح ابراہ?م & ڈاکٹر حسن الح?وان میزبان: ڈاکٹر ناجح ابراہیم۔۔ ڈاکٹر حسن الحیوان (المقطم ایسو سی ایشن برائے ثقافت ومکالمہ) کے صدر ہیں۔ وہ ہمیشہ سے اپنے حریف سیکولر سوچ کے حامل افراد کے سامنے اسلامی فکر کے شعلہ بردار رہے ہیں، جن کا مقصد اولین مغرب کے طریقہ کار اپنانا ہے۔ چاہے یہ طریقہءکار دین اور روایات۔ رسم ورواج سے متصادم کیوں نہ ہو۔ یہ لوگ مغربی سیکولرزم، اور خاص کر اس کے معاشرتی پہلو کی اندھی تقلید تو کرتے ہیں، مگر مغرب والوں کے اچھے پہلووں کو مکمل طور پر چھوڑ دیتے ہیں، مثلا مغرب والوں کی علمی ترقی، کام اور نظام کی تقدیس واحترام، ان کی امانت داری اور دیانت داری، بہترین انتظامی سسٹم اور ان جیسے پہلووں کو نظر انداز کر لیتے ہیں۔ جو یا تو اسلام کے اصول کے عین مطابق، یا اصلا اسلام کے پیش کردہ اصول ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر حسن الحیوان ایسے لوگوں کی سوچ کی گہرائیوں کے اندر جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ عقل ومنطق اور ان کے اپنے پیش کردہ دلائل کی روشنی میں بحث ومباحثہ کرتے ہیں۔ اور انہیں لا جواب بھی کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ان لوگوں کے علاوہ سب لوگوں کو یہ سمجھاتے رہتے ہیں کہ سیکولرازم ہمارے مسائل کا حل نہیں، مغرب کے ان مسائل کا حل ہو سکتا ہے، جو مغرب کے ہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ صحیح نہیں ہوتا کہ ہم ایسے لوگوں کا تجربہ لے لیں جن کے اپنے خاص حالات اور مسائل ہیں، پھر اپنے ہاں یہ تجربہ ہو بہو نافذ کر دیں۔ جبکہ اس قسم کے حالات اور مسائل ہمارے ہاں موجود نہیں ہیں۔

ڈاکٹر صاحب یہ بھی بتاتے ہیں کہ دین کو دنیا سے الگ کرنا عیسائیت میں شاید مناسب ہو، مگر یہ اسلام میں بالکل نا مناسب ہے۔ ڈاکٹر حسن الحیوان سے انٹرویو کے اس حصے میں گفتگو مندرجہ ذیل امور پر ہوگی:

1۔ اسلام اور سیکولرازم کے درمیاں اصل فرق اور اختلاف۔

2۔ زندگی پر سیکولرازم کے خطرات۔

3۔ مغرب نے سیکولرازم کو کیوں اپنایا۔

4۔ زندگی میں ترقی کرنے کا دار ومدار صرف عقیدت پر نہیں، بلکہ انصاف، مساوات، امانت داری، دیانت داری اور کام میں سنجیدگی پر ہے۔

5۔ اسلام کے تین حصے۔

6۔ اسلام کے ان تین حصوں میں سے مسلمان کیا لے سکتا ہے۔

7۔ اسلام کے ان تین حصوں میں سے غیر مسلم کیا لے سکتا ہے۔

اب آئیے، ڈاکٹر حسن الحیوان سے لئے گئے انٹرویو کا دوسرا حصہ ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ کرے اس سے ہمیں اور سارے مسلمانوں کو نفع ہو۔

کیا آپ قارئین کے لئے اسلام اور سیکولرزم کے درمیاں اصل فرق اور اختلاف واضح کر سکتے ہیں؟۔

سیکولرازم کا مطلب ہے کہ حساب کتاب دنیا تک محدود ہے۔ یعنی اختتامی اور آخری احتساب دنیا ہی میں ہوتا ہے۔ جبکہ اسلام کا مطلب ہے کہ حساب کتاب آخرت میں ہوگا۔ اور یہی ہے فرق اسلامی رجحان رکھنے والوں اور سیکولر تصورات کے حامل لوگوں میں۔

کیا آپ سیکولرازم کا مفہوم سادہ اور آسان الفاظ بیان کریں گے؟۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیکولرازم میں کوئی نا قابلِ تغییر عنصر نہیں ہے۔ سیکولر زندگی کے سارے پہلووں کے لئے طریقہءکار خود وضع کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سیکولرازم کے مطابق مخلوق کی زندگی میں خالق کا قطعی طور پر کوئی عمل دخل نہیں۔ یعنی خلائق کی طرف سے کوئی خاص طریقہ کار نہیں۔ اور یہی اصل المیہ ہے۔

آپ کی نظر میں سیکولرازم سے زندگی کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟۔

سیکولرازم کے ساتھ ہم جنس پرستی، یا انسان کی جانور سے شادی کو قابلِ قبول قرار دے کر اس کا قانوں بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر انسان اپنے لئے ایسا قانون بنائے تو یہ مکروہ فعل گویا جائز اور قانون کے مطابق بن جاتا ہے۔ یہی ہے سیکولرزم کا المیہ کہ انسان غیر مشروط طور پر، اور بغیر کسی قسم کے استثنا کے، خود اپنے لئے طریقہ کار مقرر کرتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مغرب نے سیکولرازم کا نظریہ کیوں اپنایا؟۔

سیکولرازم مغرب کے مسائل کا حل تھا۔ یہ مسائل نہ تو اسلام میں موجود ہیں، اور نہ ہی مسلمانوں کے ہاں موجود ہیں۔ اس کے با وجود ہمیں مغرب کی اندھی تقلید پر اصرار ہے۔

سیکولرازم سے پہلے مغرب میں ایسی جنگیں شروع ہوئیں جو مسلسل دو سو سال تک رہیں۔ ان جنگوں کا اختتام فرانسیسی انقلاب پر منتج ہوا۔ اس کے بعد مغربی دانشورایسے مسائل سے دو چار ہوئے جن کا واحد حل ان کی نظر میں سیکولرازم ہی تھا، یعنی دین کو دنیا سے الگ کرنا۔ یہ حل عیسائیت کے حوالے سے شاید مناسب تھا۔ اس لئے کہ سیکولرازم میں زندگی کے مختلف پہلووں کے لئے کوئی خاص طریقہء کار یا منہج نہیں۔ لیکن یہ معاملہ مسلمانوں کے لئے نا قابلِ قبول ہے۔ کیونکہ اسلام زندگی کے سارے پہلووں کے لئے مکمل شریعت اور پورا منہج لے کر آیا ہے۔

اب اگر ہم دین کو دنیا سے الگ کریں تو پھر اسلام باقی نہیں رہے گا۔ قرآن پاک اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ اسلام کے کچھ احکامات پر عمل کرنا، اور کچھ پر نہ کرنا، قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔

مغرب والوں نے یہ بھی سمجھا کہ دین کو سائنس سے دور رکھنا ضروری ہے۔ یہ اصول ان کے لئے مناسب ہو سکتا ہے۔ کیونکہ چرچ سائنسدانوں کو دباتا، گرفتار کر لیتا، جیل میں قید کر لیتا اور پھانسیاں بھی دیتا تھا۔ یہ چیز اسلام میں نہیں ہے۔ کیونکہ صحیح سائنس اسلام کا ایک حصہ ہے۔ علمی ترقی اسلام کا جزو ہے۔ جبکہ چرچ سائنسی ترقی کے خلاف تھا۔

مغرب کا تیسرا مسئلہ، جس کا سیکولرزم حل تھا وہ پادریوں کا مسندِ اقتدار پر بیٹھنا ہے۔ پادری اس بنیاد پر حکومت کیا کرتے تھے کہ یہ خدائی حکم ہے۔ جبکہ یہ معاملہ نہ تو اسلام میں موجود ہے، اور نہ ہی مسلمانوں کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال ہے۔

یہ تین مسائل مغرب والوں کی ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ جن کی وجہ سے مغرب کے دانشوروں نے ان کا حل سیکولرازم کے نظریے میں ڈھونڈا، جبکہ اسلام میں ان تینوں مسائل کا وجود ہی نہیں۔ چنانچہ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ دوسروں کے تجربے پر عمل کریں، جن کے ایسے خاص حالات ومسائل تھے جو ہمارے پاس نہیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ڈاکٹر پیٹ کے مریض کی دوائی گھٹنے کے مریض کے لئے لکھ کے دے !۔ اور اسے یہ دوائی کھانے پر مجبور بھی کرے!۔

ڈاکٹر صاحب ! سیکولرازم کے بارے میں آپ کا اپنا ایک خاص نقطہءنظر ہے۔ قارئین کو اس کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟۔

جی ہاں ! مغرب کے دانشوروں نے سیکولرازم کا نظریہ اپنے خاص مسئلے کے حل کی خاطر اپنایا۔ ان کے نقطہءنظر کے مطابق اس خاص مسئلے کا واقعی حل ہوا۔ لیکن مسئلے کے حل کے بعد نوعِ آدم اور انسانی معاشروں کی بہتری کے لئے ان کے ہاں کیا اسٹراٹیجک پلاننگ ہے؟!۔

ڈاکٹر ناجح ابراھ?م و ڈاکٹر حسن الح?وانسیکولرزم کے نظریے میں بنی نوعِ انسان اور انسانی معاشروں کی فلاح وبہبود کے لئے نہ تو کوئی منصوبہ ہے، نہ ہی کوئی سکیم۔ جس کی وجہ سے مغرب کے بعض معاشروں میں خود کشی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ سویڈن کی مثال لے لیں، جہاں معاشرہ زبردست تضاد کا شکار ہے۔ ایک طرف افراد کی آمدنی [G.D.P) کی سطح بہت اُونچی ہے، یعنی دنیوی خوشحالی۔ اور دوسری طرف خود کشیاں بہت زیادہ ہیں، یعنی روحانی سقم۔

اس کے بر عکس صومالیہ جیسے ملک کو لے لیں، جو دنیا کے سب سے زیادہ غریب ملکوں میں سے ایک ہے۔ لیکن وہاں خود کشیاں ہوتی ہی نہیں۔

سیکولرازم نے لوگوں کو عیاش زندگی کے عروج تک پہنچا تو دیا، مگر بے معنیٰ، بے خوشی اور بے وقعت زندگی۔ جبکہ اسلام کسی مسئلے کا محض تصور یا حل نہیں۔ اسلام زندگی کا دستور العمل ہے۔ اس دستور کے مطابق ہر مسلمان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق چلے گا۔ پھر حساب کتاب آخرت میں ہوگا۔

فکری ونظریاتی تصور کے حوالے سے زندگی کے دو الگ الگ محرکات ہیں۔ ایک یہ کہ چونکہ حساب دنیا میں ہی ہوتا ہے، لہذا زندگی کے دنیوی مسائل ومشکلات کا حل کیا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ دنیوی مسائل ومشکلات کے حل سمیت آخرت میں فلاح پانے کے لئے دستور العمل اپنایا جائے۔

سیکولرازم فلسفہءزندگی اور اس کے انجام کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ لہذا اگر زندگی کے مسائل حل کئے جائیں تو آگے کیا ہوگا؟!۔ یہاں سے سائنس کی ترقی اور مال ودولت کی بہتات کے با وجود خود کشیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔

مغرب کے دانشوروں نے اب دین اور دنیا میں ربط تلاش کرنا شروع کیا۔ یہی وہ بات ہے جس کا عیسائیت میں فقدان تھا۔ اس سلسلے میں اُنہیں صرف اسلام نظر آئے گا۔ اُنہوں نے عملا آخری عالمی مالی بحران کے بعد اسلامی اقتصاد کے بارے میں غور کرنا شروع کیا۔ مگر رکاوٹ ہم مسلمانوں کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ہم اسلام کی وہ تہذیبی مثال نہیں بن سکے جس کی صرف مغرب کو نہیں، بلکہ پوری دنیا کو بھی ضرورت ہے۔

سیکولرازم میں مسائل کا حل ہی زندگی کا محرک ہے۔ جبکہ اسلام میں منہج پر عمل کرنا ہی بنیادی تصور ہے۔

کیا دنیوی ترقی اور عقیدت کے درمیاں کوئی تعلق ہے؟!۔

نہیں ! دنیاوی ترقی اور عقیدت کے درمیاں کوئی تعلق نہیں ہے۔ تحریک اسلامی والوں، بلکہ سب مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ دنیاوی ترقی کا دار ومدار، آزادی، انصاف، مساوات کی فراہمی سمیت ترقی کے اسباب، عمل میں سنجیدگی، ایمانداری اور دیانت داری پر ہے۔

اس کی کیا دلیل ہے؟۔

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے (مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاء لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلاهَا مَذْمُوماً مَّدْحُوراً * وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُوراً * كُلاًّ نُّمِدُّ هَـؤُلاء وَهَـؤُلاء مِنْ عَطَاء رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاء رَبِّكَ مَحْظُوراً * انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلاً) (الاسراء:18-21): (من کان یرید العاجلة عجلنا لہ فیھا ما نشاءلمن نرید ثم جعلنا لہ جھنم یصلاھا مذموما مدحورا، ومن اراد الآخرة وسعیٰ لھا سعیھا وھو مومن فاولئک کان سعیھم مشکورا، کلا نمد ھولاء وھولاءمن عطاءربک وما کان عطاءربک محظورا، انظر کیف فضلنا بعضھم علیٰ بعض وللآخرة اکبر درجة واکبر تفضیلا: جو کوئی ( اس دنیا میں ) جلدی حاصل ہونے والے فائدوں کا خواہشمند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دنیا چائیں، پھر اس کے مقسوم میں جہنم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہو کر۔ اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لئے سعی کرے جیسی کہ اس کے لئے سعی کرنی چاہئے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔ اِن کو بھی اور اُن کو بھی، دونوں فریقین کو ہم ( دنیا میں ) سامانِ زیست دئے جا رہے ہیں، یہ تیرے رب کا عطیہ ے، اور تیرے رب کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ مگر دیکھ لو، دنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دوسرے پر کیسی فضیلت دے رکھی ہے، اور آخرت میں اس کے درجے اور بھی زیادہ ہوں گے، اور اس کی فضیلت اور بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوگی)۔

اس کے علاوہ امام ابن تیمیہ اور امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ: اللہ انصاف پسند ریاست کی مدد کرتا ہے، چاہے یہ ریاست کافر کیوں نہ ہو۔ اور ظالم ریاست کی مدد نہیں کرتا، چاہے یہ مسلم ریاست کیوں نہ ہو۔

اسلامی تحریک والوں کو اُوپر دی گئی عبارت کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے۔ صرف اسلامی عقیدت دنیا میں ترقی اور جیت کے لئے کافی نہیں ہے۔ یہ ترقی آپ کو اس وقت ملے گی جب آپ انصاف، آزادی، مساوات، سنجیدگی اور دیانت داری سے اسلام کے منہج پر چلیں۔

مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی اصول اور منہج کی بنا پر آپ کو کامیابی مل سکتی ہے۔ مگر یہ صرف دنیا میں ہی ہوگا۔ آخرت میں آپ کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اور بغیر اصول اور کلی اسلامی منہج کے صرف عقیدت کی بنا پر آپ کو دنیا میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ دنیا میں ترقی اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے آپ کو چاہئے کہ اسلام کو درج بالا اصولوں سمیت مکمل ہمہ گیر عقیدت، عبادت اور شریعت سمجھ کر اس پر عمل کریں۔

لیکن اگر آپ صرف عقیدت اور عبادت کے پا بند رہیں، تو پھر آپ اللہ کے انسانی تخلیق کے بنیادی مقصد کو پورا نہیں کر سکیں گے۔ یعنی کہ زمین پر اللہ کا نائب بننا، زمین کو آباد کرنا اور دنیا کے سامنے ایک تہذیبی مثال پیش کرنا، اور اسلام کو دلیلوں سے پھیلانا جیسا کہ ماضی میں مسلسل نو صدیوں سے زیادہ عرصے تک ہوتا رہا۔

مگر مسلمان کے لئے عقیدت بہت اہمیت رکھتی ہے نا؟!۔

یہ اسلامی منہج پر عمل کرنے کا نقطہءآغاز ہے۔ اگر آپ صرف عقیدت پر اکتفا کریں۔ اور منہج پر عمل نہ کریں۔ تو گویا آپ حقیقت میں اسلامی عقیدت کو صحیح طرح نہیں سمجھ رہے۔ اسلام کے دستور العمل میں سب سے زیادہ اہمیت انصاف، آزادی، مساوات اور زندگی کے مختلف میدانوں میں علمی ترقی کے اسباب پر عمل کرنے کو حاصل ہے۔

ڈاکٹر صاحب ! آپ کہتے ہیں کہ اسلام کے تین حصے ہیں۔ کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے؟۔

جی ہاں ! اسلام تین برابر حصوں پر مشتمل ہے:

۱۔ عقیدت۔

۲۔ عبادت۔

۳۔ منہج۔

اسلامی معاشرے میں مسلمان ان تینوں حصوں کا پا بند ہے۔ اور ان پر عمل کرنا لازمی ہے۔ جبکہ غیر مسلم عقیدت والے حصے کا پابند نہیں۔ وہ اپنی ہی عقیدت کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔ عبادت والے حصے کا بھی پا بند نہیں۔ وہ وہی عبادت کرے گا جسے وہ صحیح سمجھے گا۔ چاہے ہماری نظر میں اس کی یہ عقیدت اور عبادت باطل کیوں نہ ہو۔ مگر وہ ان دونوں حصوں سے آزاد ہوگا۔ لیکن منہج والے حصے کا وہ اسی طرح پا بند ہوگا جس طرح مسلمان پا بند ہیں۔ کیونکہ منہج ہی اس زندگی کو چلا سکتا ہے۔ جس میں مسلم اور غیر مسلم، دونوں حقوق وفرائض میں برابری کی بنیاد پر مشترک ہیں۔

مسلم معاشرے میں غیر مسلم کو عقیدت اور عبادت کی آزادی حاصل ہے۔ اُسے اللہ تعالیٰ کے قول (لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ) کے مطابق اسلام قبول کرنے اور اپنی عقیدت تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔

مسلم ریاست میں اسلام نے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو تحفظ دیا۔ حکمرانوں کو بالکل مساجد کی طرح ان عبادت گاہوں کو بھی تحفظ دینے کا پا بند کردیا۔ ذرا اس آیت میں موجود اس خوبصورت نکتے کو دیکھیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَمَسَاجِدُ) (الحج:40): (ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع وبیع ومساجد: اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں)۔ اس آیت میں مساجد اور دوسری عبادت گاہوں کے دفاع کرنے کے سلسلے میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا ذکر مساجد سے پہلے آیا ہے۔ اس میں مسلمان حاکم ومحکوم دونوں کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ اسلام غیر مسلموں کی آزادیءعبادت اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

منہج کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ کیا اسلام مسلم معاشرے میں مسلم اور غیر مسلم کو برابر سمجھتا ہے؟!۔

اسلامی منہج کے اہم بنیادی اصول انصاف، برابری اور آزادی ہیں۔ عہدوں پر فائز کرنا صرف اہلیت اور دیانت داری کی بنا پر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ) (القصص:26): (ان خیر من استاجرت القوی الامین)۔ ان شرائط کے پوری ہونے پر کسی بھی عہدے پر کسی غیر مسلم کو فائز کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ وہ یہ شرائط پوری کرتا ہو۔ اور معاشرہ اسلام کے نا قابلِ تغییر عناصر کا پا بند ہو۔ تا کہ غیر مسلم اپنے عہدے کا اپنے مذہب یا عقیدت کی تبلیغ کے لئے نا جائز استعمال نہ کرے۔

اگر کوئی غیر مسلم اقلیت اسلام کے معاشرتی منہج کو یہ کہتے ہوئے رد کرے کہ ہم پر اپنا طریقہ کار مسلط نہ کریں۔ ایسی حالت میں کیا کرنا چاہئے؟!۔

معاشرہ ہی مسلم اور غیر مسلم، سب پر زندگی کا اسلامی منہج لاگو کرے گا۔ کیونکہ زندگی منہج سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ منہج زندگی چلانے کا ایک طریقہ ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شریک ہوتے ہیں۔

مگر عقیدت اور عبادت کے حوالے سے غیر مسلم آزاد ہے۔ اس سلسلے میں اُسے کسی چیز پر مجبور نہیں کیا جا سکے گا۔ اور اگر صحیح اسلامی منہج پر عمل کیا جائے جو مسلم اور غیر مسلم کے درمیاں صرف اہلیت، کام اور دیانت داری کی بنا پر فرق کرتا ہے، تو اس وقت یہ مسلم اور غیر مسلم سب کے لئے قابلِ قبول ہوگا۔

معزز قارئین ! ڈاکٹر حسن الحیوان سے لئے گئے انٹرویو کا دوسرا حصہ ختم ہوا۔ اس مفید گفتگو کے لئے ہم ڈاکٹر صاحب کے بہت شکر گزار ہیں۔ اسلام کے نا قابلِ تغییر عناصر اور تصورات کے دفاع میں ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔ اور اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ اُنہیں صحت اور خوشی عطا فرمائیں۔ آپ معزز قارئین کے لئے بھی ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں۔

العلمانية بلا ثوابت.. والإنسان يشرع لنفسه بالكامل ج2 من حوار د. حسن الحيوان UR



ملاقاتيں -

  • اخبار
  • ہمارے بارے ميں
  • نخلستان اسلام
  • بيانات
  • مسلم خاندان
  • موجودہ قضيے
  • کتابيں
  • حادثات
  • جہاد کا حکم
  • ملاقاتيں
  • ويب سائٹ کي خدمات
  • اپني مشکلات بتائيں
  • فتوے
  • ارئين کي شرکت