|
موجودہ دور میں خلافتِ اسلامی کے لئے مناسب ترین شکل یورپین یونین ہے۔ ڈاکٹر حسن الحیوان کے ساتھـ ہمارے انٹرویو کا تیسرا حصہ
انٹرویو اور پیشکش: ڈاکٹر ناجح ابراہیم۔۔ کیا ممکن ہے کہ اسلامی خلافت کا نظام دوبارہ واپس آئے؟۔
اور اگر یہ دوبارہ واپس آئی تو اس کی متوقع شکل کس طرح سے ہوگی؟۔
کیا آج کی موجودہ پیچیدہ ملکی اور بین الاقوامی صورتِ حال کے پیشِ نظر پرانی خلافتِ اسلامیہ کی شکل وصورت کی واپسی واقعی ناممکن ہے؟ کیا خلافتِ اسلامی کا پھر سے واپس آنا بذاتِ خود مقصد ہے یا یہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے زمین پر اللہ کے منہج پر عملدرآمد ہو جائے؟۔
اگر بالفرض خلافتِ اسلامی دوبارہ واپس آئے تو اس کی موجودگی میں مختلف ملکوں کی کیا شکل ہوگی؟ وفاقی (فیڈریشن) شکل ہوگی یا وفاق حلفی (کنفیڈریشن) یا کوئی اور شکل؟ اور کیا اسلامی تحریک والوں کو شریعت کے نفاذ سے پہلے آزادی، انصاف اور مساوات کا مطالبہ کرنا چاہئے؟ اور کیوں؟!۔
مسلم ممالک میں اگر کوئی شخص اسلام سے مرتد ہو جائے تو دنیا میں بھی اس کے لئے کیا کوئی سزا ہے یا نہیں؟۔ اگر ہے تو کیا ہے؟۔ اور اگر دنیا میں اس کے لئے کوئی سزا نہیں تو رسول پاک - صلی اللہ علیہ وسلم - کی اس حدیث کا کیا مفہوم ہوگا جس میں فرمایا گیا کہ (من بدل دینہ فاقتلوہ) (صحيح البخاري:2854): (جس نے اپنا دین تبدیل کیا اُسے قتل کر دو)؟ اگر دنیا میں مرتد کے لئے کوئی سزا نہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورے اور اتفاقِ رائے سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مرتدین کے خلاف کیوں جنگ کی؟۔ کیا آدمی اسلام قبول کرنے میں آزاد ہے؟ مگر جب اس نے قبول کیا تو وہ اسلام چھوڑنے میں آزاد نہیں؟۔
ان سارے پیچیدہ، مشکل اور اُلجھے ہوئے سوالات کے جوابات آپ کو اس گہری فکری انٹرویو میں ملیں گے جو ہم نے مسلم دانشور، مقطم ایسو سی ایشن برائے ثقافت اور مکالمہ، ڈاکٹر حسن الحیوان سے کی ہے۔ آپ کو کبھی کبھی یہ محسوس ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب خاموش بھیڑ میں واحد بات کرنے والا شخص ہیں۔ کیونکہ یہ سارے افکار وخیالات اپنے موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے اسلامی تحریک والوں کے لئے نئے موضوعات ہیں۔ لیکن اگر اسلامی تحریک والے اس پیچیدہ ملکی وبین الاقوامی صورتِ حال میں اسلامی تعلیمات کا نفاذ چاہتے ہیں تو یہ موجودہ صورتِ حال اُنہیں اس قسم کے افکار وخیالات کے گہرائی کے ساتھـ مطالعہ اور ان پر غورکرنے پر مجبور کر ے گی۔
اسلام صرف ایک نظرہی نہیں جسے آپ پڑھ کر پسند کریں، یا اس کے متعلق لیکچرز اور کلاسز اٹینڈ کریں۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو دین ہی کے ذریعہ دنیا کی اصلاح کے لئے آیا ہے اور دنیا کو صحیح راستے پر گامزن کرنے کے لئے آیا ہے۔ اس لئے اسلامی تحریک والوں کو چاہئے کہ وہ ان افکار وخیالات کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں۔ انہیں یہ کہکر پیشگی رد نہ کریں کہ یہ سلفِ صالح کے بڑے فقہاء کی آرا سے متصادم ہیں۔ بغیر عمیق مطالعہ اور سنجیدہ جانچ پڑتال کے کسی خیال کو رد کرنا ایک ایسی ذہنی بیہوشی کے مترادف ہو گا جس کے ہم متحمل نہ ہوں گے۔ اب آئیے ڈاکٹر حسن الحیوان سے لئے گئے انٹرویو کا تیسرا حصہ ملاحظہ فرمائیں۔
اسلامی تحریک والوں کی اکثریت کا مطالبہ ہے کہ خلافتِ اسلامی کے نظام کا پھر سے نفاذ ہونا چاہئے۔ جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ محض نظریاتی بات ہے۔ اور خلافت کا نظام دوبارہ نافذ نہیں ہو سکتا۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟۔
خلافتِ اسلامی کا نظام پھر سے نافذ ہو سکتا ہے۔ مگر پرانی شکل کے روپ میں نہیں۔ کیونکہ موجودہ ملکی وبین الاقوامی صورت حال کے پیشِ نظر اس پر عمل در آمد نہیں ہو سکے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک دوسری شکل میں دوبارہ آ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں میرا ایک واضح تصور ہے جو موجودہ صورتِ حال کے ہوتے ہوئے بھی اُمید کا دامن ہاتھـ سے چھٹنے نہیں دیتا۔
آپ کا یہ تصور کیا ہے؟۔
میرا تصور ایک بنیادی اُصول پر مبنی ہے۔ اور وہ یہ کہ نظامِ خلافت بذاتِ خود منزل نہیں۔ بلکہ یہ ایک ذریعہ ہے امتِ مسلمہ کے تشخص اور اتحاد کو بر قرار رکھنے، اس کی قوت کی حفاظت کرنے اور تہذیبی وثقافتی عمل میں اپنا حصہ ڈالنے کا۔ خلافت کی کوئی خاص شکل یا خاص فارمولا نہیں ہے۔ اس کی شکل، منہج اور لائحہ عمل مختلف زمانوں اور علاقوں کے مطابق الگ الگ ہوتا ہے۔
یہ کس طرح ہوتا ہے۔ وضاحت کے لئے کچھـ مثالیں دے سکتے ہیں؟۔
جی ہاں! یورپی یونین موجودہ صورت اور تنظیم کے اعتبار سے اتحاد (یعنی خلافت) کی ایک سادہ شکل ہے۔ موجودہ دور کے تناظر میں یہ امر کافی مشکل لگتا ہے کہ عرب اور مسلم دنیا ایک ہی ریاست میں متحد ہو جائیں۔ مگر ساری مسلم سول حکومتیں، جو اسلامی تشخص کی پا بند ہیں، آپس میں یورپی یونین کے طرز پر ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد ہو سکتے ہیں۔ اس قسم کا اتحاد ان شاءاللہ یورپی یونین کی بہ نسبت بہت زیادہ گہرا اور مضبوط ہوگا۔ کیونکہ مغربی ممالک کی بہ نسبت مسلمانوں کے باہمی روابط بہت گہرے اور مضبوط ہیں۔ مسلمانوں کی عقیدت وشریعت (یعنی مذہب)، اور زبان بھی مشترک ہیں۔ جبکہ یہ سب کچھـ یورپی ممالک کے یہاں مفقود ہے۔
اس سے بڑھ کر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس قسم کا اتحاد قریب ہوتا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں صرف تین دہائیاں درکار ہیں۔ یہاں اس کی تفصیل کا مقام نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ سارے مسلم ممالک مختلف میادینِ زندگی میں آپس میں تعاون کریں گے۔ سیاسی ہوں یا اقتصادی، اسٹراٹیجک ہوں یا ملٹری۔
آپ کے اس مجوزہ اتحاد میں اسٹیٹ کی شکل اور نوعیت کیا ہوگی؟۔
ہر ملک اسلامی تشخص کا پا بند ہوگا۔ یہ تشخص ملکی انتخابات میں جیتنے کے نتیجے میں نہیں، بلکہ معاشرے کے دانشوروں کے رجحانات کے نتیجے میں اُبھرے گا۔ کیونکہ بالفرض اگر انتخابات میں ایسا شخص جیت گیا جو مسلمان نہیں۔ یا ایسی پارٹی جیت گئی جو اسلامی رجحانات نہ رکھتی ہو۔ تو بھی وہ معاشرے کے اسلامی تشخص کو تحفظ دینے کی پا بند ہو گی۔ مگر انتخابات شفاف اور دھاندلی سے پاک ہونے چاہئیں۔ اور اس کے نتائج جو بھی ہوں، ان کا احترام کیا جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو دوسرے سارے فکری رجحانات یقینا ہمارا ساتھـ دیں گے۔ اس سے اسلام کے ساتھـ وابستگی اور مضبوط ہو گی۔ اور اس کے نتیجے میں اسلام کے سایے میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ایک ایسے صحتمندانہ ما حول میں رہیں گے۔ جہاں کوئی انارکی نہیں ہوگی۔ کسی کو اپنی عقیدت یا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا ئے گا۔ کیونکہ مذہب اور عبادت کی آزادی سب کو برابر میسر ہوگی۔ اور دنیا میں آگے بڑھنے کا معیار اہلیت اور ایمانداری پر مبنی ہوگا۔ عقیدت اور عبادت کی بناء پر حساب و کتاب آخرت میں ہی ہو گا۔
اس بات کی کیا دلیل ہے؟۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ومَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ) (المومنون:117): جو شخص اللہ کے ساتھـ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے)۔ میں نے زبان ولغت کے ماہرین سے لفظ (فانما) کے بارے میں دریافت کیا تو اُنہوں نے یہ کہا کہ یہ معنیٰ ومفہوم کے لحاظ سے تحدید وتعین کا زبردست ترین لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اس کا حساب دنیا اور آخرت میں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے حساب کو صرف آخرت تک محدود کر دیا۔ یعنی نا ممکن ہے، اور جائز بھی نہیں کہ بشر میں سے کسی کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اس کا حساب لے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ پر موقوف ہے۔
آپ کا خیال ہے کہ اسلامی تحریک والوں کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے آزادی کا مطالبہ کریں۔ تو کیسا ہوگا؟۔
جی! ہونا یہی چاہئے کہ آپ کا اولین مقصد آزادی ہو۔ یہ تب ہوگا جب ہم دعوت الی اللہ کے سلسلے میں فطانت اور پیشہ وری سے کام لیں۔ اگر ہم واقعی اسلام کو پھیلانا چاہتے ہیں تو ہمیں تحریکِ اسلامی والوں کو اور دوسروں کو بھی آزادی دینا ہوگی۔ یقین کریں اس وقت اسلام پوری دنیا پر چھا جائے گا۔ کیونکہ یہ اللہ کا سچا دین ہے۔ یہی فطرت ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا۔ جب بھی دعوتِ اسلامی کو آزادی میسر ہوئی، اس نے دوسری تحریکوں پر معمولی سے معمولی اسباب ووسائل سے سبقت حاصل کی۔
اب جبکہ آپ نے آزادی کی بات چھیڑی ہے۔ تو آپ کی اپنی ایک رائے کے بارے میں پوچھنا چاہیں گے۔ جس میں آپ کہتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان اسلام سے مرتد ہو جائے تو اس پر حدود لاگو نہیں ہوں گے۔ اور آپ کی یہ رائے بھی ہے کہ ایسے آدمی کو دنیا میں سزا نہیں ہونی چاہئے۔ آپ کی یہ رائے قدیم اور معاصر فقہاء کی رائے سے متصادم ہے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر سلیم العوا اور ان جیسے معاصر فقہاء یہ سمجھتے ہیں کہ مرتد کے لئے اگرچہ کوئی مقررہ حدود نہیں۔ مگر اس کی سزا تعزیر کی شکل میں ہو سکتی ہے جو زمان ومکان کے اختلاف سے مختلف ہو گی۔ آپ کیا کہتے ہیں؟۔
اسلام ایک عقیدہ ہے، عبادت بھی اور شریعت بھی، یعنی ایک منہج اور طریقہ کار۔ معاشرے کے افراد، مسلمان اور غیر مسلمان، دونوں اس آخری حصے، یعنی منہج اور طریقہ کار کے پا بند ہوں گے۔ کیونکہ یہی طریقہ کار ہے جو زندگی کو صحیح طور پر چلا سکتا ہے۔
جہاں تک عقیدہ اور عبادت کا تعلق ہے تو ہر شخص اس سلسلے میں آزاد ہے۔ اور اس کا حساب صرف آخرت میں ہوگا۔ مسلمان بھی اگر اسلام پر قائم نہ رہے، اور اسلام سے خارج ہو جائے تو اس کا حساب بھی آخرت میں ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ جو کچھـ کہا جائے گا وہ زبردستی کے زمرے میں آئے گا۔ ایسا کرنے کا مطلب ہے کہ ہم کسی کو ایسا عقیدہ اپنانے پر مجبور کر رہے ہیں جس کا وہ قائل ہی نہیں۔ تو کیا آپ چاہیں گے کہ کوئی زبردستی مسلمان ہو جائے؟! اس کے با وجود یہ سب کچھـ ہو سکتا بشرطیکہ معاشرے پر اس کا منفی اثر نہ ہو۔ اسلام کسی بھی فرد کے مسلم ہونے یا نہ ہونے سے بے نیاز ہے۔ مگر اسلام یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی بھی معاشرے کو خراب کرنے کی کوشش کرے۔ ہر کوئی اپنی ذات اور عقیدے میں آزاد ہے۔ مگر جس منہج پر معاشرہ چل رہا ہے اس کا اس منہج پر چلنا لازمی اور حتمی ہے۔ اسلام سے مرتد فرد کے لئے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کافی ہے (وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُوْلَـئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ) (البقرة:217): (اور تم سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیوی اور اخروی سب غارت ہو جائیں گے۔ یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے)۔
تو پھر رسول پاک - صلی اللہ علیہ وسلم - کی اس حدیث مبارک کو کیا کہیں گے (من بدل دینہ فاقتلوہ) (صحيح البخاري:3017): (جس نے اپنا دین تبدیل کردیا اُسے قتل کردو)۔ کیا اس حدیث میں قرآن پاک کے عام حکم کی تخصیص نہیں ہے؟ کیا اس میں دین سے پھرنے کی حد پر دلیل نہیں؟۔
اس سلسلے میں ایک اور مفصل حدیث موجود ہے جس سے صحیح معنوں میں تخصیص ہو جاتی ہے۔ اس حدیث میں رسول پاک - صلی اللہ علیہ وسلم - نے انہی مسلمانوں کے بارے میں فرمایا جنہیں قتل کرنا جائز ہے : (والتارك لدينه المفارق للجماعة) (صحيح مسلم:3175): (اپنے دین سے پھرنے والا اور جماعت سے الگ ہونے والا)۔ یہاں مرتد کو قتل کرنے کے لئے ایک اہم شرط رکھی گئی۔ اور وہ ہے جماعت سے الگ ہونا۔ یعنی مسلم معاشرے اور اس کے تشخص سے بغاوت کرنا۔ عقیدہ کی آزادی اور لوگوں میں خراب عقیدہ پھیلانے میں فرق ہے۔ اسلام معاشرے کے ہر فرد کے ذاتی عقیدے کو تحفظ دینے آیا ہے۔ کسی فرد کو کسی بھی ایسی عقیدہ پر ایمان لانے پر مجبور کرنے کی اجازت نہیں دیتا جس کا وہ قائل نہیں ہے۔
آپ یقینا یہ جانتے ہوں گے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مرتدین سے جنگ کی۔ ان کو دین سے پھرنے (ردت) سے روکنے کے لئے گیارہ فوجیں تیار کر کے روانہ کیں؟۔
جی ہاں! ایک دفعہ لیکچر کے دوران جامعۃ الازہر کے ایک شیخ نے میری کسی بات پر اعتراض کرتے ہوئے یہی کچھـ کہا جو آپ نے ابھی کہا ہے۔ میں نے اُن کو کہا : آپ کی باتیں درست ہیں۔ لیکن حضرت ابو بکر نے ان لوگوں کے خلاف اس لئے جنگ نہیں کی کہ وہ مرتد ہو گئے۔ ان لوگوں نے ایک ایسی مسلح جماعت بنائی تھی جس کے افراد دار الخلافت سے دور دراز علاقوں میں اکٹھے ہو گئے۔ ریاست کے قانون اور انتظامیہ کی مخالفت کی۔ اور مسلح بغاوت کا اعلان کیا۔ ریاست کے جغرافیائی حدود سے باہر نکلے، خلافت کے ملازمین کو قتل کیا۔ ان لوگوں کا عقیدہ اور تشخص ریاست کے عقیدہ اور تشخص سے مختلف ہو گیا تھا۔ تو کیا ایسے حالات میں یہ کہا جائے گا کہ یہ عقیدہ کی آزادی ہے۔ نہیں، یہ سیاسی، انتظامی، فوجی اور ثقافتی وتہذیبی معنوں میں معاشرے اور ریاست کے مالی نظام سے بغاوت تھی۔
کیا آپ جدید ریاست کے تناظر میں ان باتوں کی وضاحت مثالوں سے کر سکتے ہیں؟۔
جی ہاں! اگر مصر میں چند لوگوں نے اکٹھے ہو کر ایک جماعت بنائی۔ اپنے لئے قیادت بھی الگ بنائی۔ اور یہ کہا کہ ہم ریاست کو ٹیکس نہیں دیں گے۔ عدالتوں کے فیصلوں پر عمل نہیں کریں گے۔ صوبوں کے حکام کو نکال کر اپنی طرف سے اور حکام بٹھائے۔ اپنے موقف پر مصر رہے۔ اور حکومت کے رٹ کو چیلنج کیا۔ کیا ہم اس سب کو آزادی اعتقاد کا نام دیں گے۔ یا اسے معاشرے کے نظام اور اداروں سے بغاوت کہیں گے۔
مگر وہ شخص جو اپنا ذاتی عقیدہ تبدیل کرنا چاہتا ہے وہ اس میں آزاد ہے۔ بشرطیکہ جو بھی عقیدہ وہ اپنائے گا اس کی تبلیغ نہ کرے۔ تا کہ معاشرے کو خراب نہ کرے۔ اور معاشرے کے تشخص کو نہ بگاڑے۔
اسلام کی طاقت اور فعالیت اس بات میں نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے کہ وہ معاشرے کے مختلف طبقوں میں زندگی کے مختلف حوالوں سے افہام وتفہیم کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔ بشرطیکہ دوسری فکری تحریکوں کی طرح اس کی دعوت کو پوری آزادی دی جائے۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مفہوم ہے (وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ) (النحل:125): (ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیئے)۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے اسلام نے ہر شخص کو سوچنے کی پوری آزادی دی۔ مگر جس وقت وہ شخص اپنی مرضی سے اسلام قبول کرے گا اسلام سے مرتد، اور دوبارہ کفر کی طرف واپسی ہونے سے روک دیا جائے گا۔ تا کہ ایسے معاملات میں انتشار پیدا نہ ہو۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟۔
اس بات کی کیا دلیل ہے کہ آدمی کو آزادی حاصل ہے کہ وہ اسلام قبول کرے۔ لیکن اسلام چھوڑنے کی اسے آزادی حاصل نہیں ہے۔ یہ ان مولویوں کی بات ہے جو پیچیدہ مسائل کو سمجھنے، اور ان کا صحیح تجزیہ کرنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر عقیدہ سے وابستگی الگ چیز ہے۔ جبکہ تہذیبی معاشرے سے وابستگی دوسری چیز ہے۔ اس قبیل کے اور بہت مسائل ہیں جنہیں زندگی کے مختلف میادین میں ترقیوں اور تبدیلیوں کے تناظر میں سمجھنے اور تصور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سب پر قرآن وسنت، یا عقل ومنطق کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے۔ قرآن اس بات کی تاکید نہ صرف اس عام اُصول کے ذریعے سے کرتاہے، یعنی (من بدل دینہ فاقتلوہ) (صحيح البخاري:3017): (جس نے اپنا تبدیل کیا اُسے قتل کردو)۔ بلکہ اس کی تفصیل بھی اس آیت میں بتائی : (فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ) (الكهف:29): (اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے)۔ یعنی ہر انسان کو اسلام قبول کرتے وقت اور اسلام چھوڑتے وقت بھی آزادی اعتقاد حاصل ہے۔
اسلام اس وقت تک عظیم اور مضبوط نہیں ہوگا جب تک کہ آپ انسان کو یہ آزادی نہیں دیں گے کہ وہ اپنی مرضی سے اسی طرح اسلام سے خارج ہو جائے جس طرح وہ اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہوا تھا۔ ورنہ یہ اسلام کی کمزوری سمجھی جائے گی۔ اور اس کا تصور ایسا ہوگا کہ وہ ایسا دین ہے جو لوگوں کا محتاج ہے۔ اور لوگوں کا سہارا لے کر چلتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ اسلام کسی کا محتاج نہیں۔ سب اسلام کے محتاج ہیں۔ جو اسلام سے خارج ہونا چاہتا ہے اُسے خارج ہونے دو۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اُسے ہماری ضرورت ہے۔ اور جس انسان کے دل میں عقیدہ کے حوالے سے شک یا نفاق ہو، اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہتر ہے کہ وہ اسلام سے خارج ہو جائے۔ اس کے اس حالت میں مسلمان رہنے سے زیادہ مسلمان نہ رہنے میں بہتری ہے۔ معاشرے کے لئے اصل کافر یا مرتد سے زیادہ عقیدہ کا منافق خطر ناک ہے۔ کیونکہ غیر مسلمان یا مرتد کا معاملہ بالکل واضح ہوتا ہے۔ ہاں ہمیں ایسے آدمی سے گفت وشنید کرنا چاہئے جو اسلام سے خارج ہونا چاہتا ہے۔ اس کو اسلام پر قائم رہنے کا قائل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ قائل نہ ہوا تو اس پر دباو نہیں ڈالنا چاہئے۔ اس کو اسلام میں واپس آنے کے لئے مجبور نہ کریں۔ کیونکہ زبردستی کمزوری کا نشان ہے۔ طاقت اور تمکنت کا نہیں۔ دباو سے سوچ نہیں بدلتی۔ اس کے بر عکس دباو انسان کے ظاہر کو مسلمان تو بنا سکتا ہے مگر اس کے باطن کو کافر اور لا دین بنا دے گا۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ جس آدمی نے عقیدہ اسلام کو چھوڑا اُس کو چاہئے کہ وہ معاشرے اور اس کے تشخص کو منظم کرنے والے قواعد وضوابط کی پا بندی کرے۔ ان سے بغاوت نہ کرے۔ ورنہ وہ سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ اس معاملے میں اسلام کا تہذیبی منہج ایک نظامِ زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمان اور غیر مسلمان، سب کو اس کی پا بندی کرنی ہو گی۔ اور اس کے قواعد وضوابط پر عمل کرنا ہوگا۔
مگر وہ معاصر فقہاء اور علمائے دین جو مسلم معاشرے میں مرتد پر حد قائم کرنے کے قائل ہیں، ان کی اکثریت ایک عقلی اورحقیقی دلیل پیش کرتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سیکولر اسلامی معاشرے میں ریاست یا حاکم سے بغاوت کرنے والے کو سزا ملے، اور اللہ سے بغاوت کرنے والے کو کوئی سزا نہ ہو!۔ کیا اللہ سے بغاوت کرنے والا سزا کا زیادہ مستحق نہیں ہوتا؟!۔
ان سب علماء اور رفقائے کار کا احترام اپنی جگہ۔ مگر اس قیاس کی کم از کم میری رائے میں کوئی فقہی یا فکری دلیل نہیں۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا محتاج نہیں۔ بندے ہی اللہ کے محتاج ہیں۔ مذکورہ بالا آیت کی طرف رجوع کریں (ومَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ) (المومنون:117)۔ یہ صرف واضح ہی نہیں، بلکہ فیصلہ کن بھی ہے کہ حساب صرف اور صرف اللہ پر موقوف ہے۔ اور وہ بھی آخرت میں۔ تو اس کے خلاف یہ کیسے کوئی دعویٰ کر سکتا ہے؟۔ یہی پہلی اور بنیادی وجہ ہے کہ اسلام پر پوری دنیا نے تنقید کی۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر مکمل اور ہمہ گیر آزادی اعتقاد نہ ہوا تو اسلام اندر سے کھوکھلا ہو جائے گا۔ کیونکہ اس طرح اسلام مسلم اور غیر مسلم پر حکمرانی کے ایک ہمہ گیر تہذیبی وثقافتی منہج کی بنیاد نہیں بن سکے گا۔ اور چونکہ غیر مسلم لوگ بھی موجود ہیں، تو اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ اسلام اس میدان سے مکمل طور پر ہٹے گا۔ اور سب کے لئے منہج اور شریعت کے بغیر الگ ایک عقیدہ اور رہبانیت تک محدود رہے گا۔
بہر حال وہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام سے خارج ہونے کی آزادی نہیں وہ گویا کہ اپنے آپ کے ساتھـ بات کر رہے ہیں۔ اور اُنہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کی تعمیل کیسے ہوگی۔
یہاں ایک بار پھر ہم کہتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ دباو عقیدہ کے خلاف ہوگا، یعنی سوچ کے خلاف، جبکہ اسلام ایک فکری وژن سی عبارت ہے۔ ایک ایسا عقیدہ، شریعت اور منہج ہے جس کے سایے میں مختلف عقائد ومذاہب کے ماننے والے، اور مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
اس کے با وجود کس نے کہا کہ جو اللہ سے بغاوت کرتا ہے اس کو سزا نہیں ہوتی۔ اس کو سزا ہوتی ہے۔ اس کو سخت عذاب دیا جاتا ہے۔ اور جہنم ہمیشہ کے لئے اس کا ٹھکانا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھـ آخرت میں ہوتا ہے۔ مگر دنیا میں ہم سب زمین پر رہتے ہیں۔ جہاں ایک منہج، ایک نظام اور ایک شریعت ہوتی ہے۔ جو مسلم اور غیر مسلم دونوں کی زندگی کو منظم کرتی ہے۔ ورنہ ایک افرا تفری کا عالم ہوگا۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں معاشرے کو منظم کرنے والی شریعت کا قائل نہیں ہوں۔ یا یہ کہ میں زکاۃ دینے کا قائل نہیں ہوں جو ریاست اکٹھا کرتی ہے۔ یا یہ کہ میں ٹریفک کے قوانین اور کنسٹرکشن کے قواعد وضوابط کا قائل نہیں ہوں۔ کیونکہ ان سارے معاملات میں آپ کی ذاتی پسند ونا پسند کار فرما نہیں ہوتی۔ مسلم معاشرے کے سارے افراد، مسلمان اور غیر مسلمان، اسلامی شریعت، تشخص اور منہج کے پا بند ہیں جس کی منظوری خود معاشرے نے عام آزادی کی میکانزم اور قواعد وضوابط کے مطابق دی ہے۔ باقی سب اپنی عقیدت اور عبادت میں آزاد ہیں۔ اور اس کا حساب کتاب آخرت میں ہی ہوگا۔
اس کا مطلب ہے کہ اللہ سے بغاوت اور ریاست یا حاکم سے بغاوت کے درمیاں کوئی تعلق نہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح اسلام نے بڑے اچھے طریقے سے زندگی کو چلایا۔ یعنی کہ اس نے عقیدہ وعبادت اور منہج کے درمیاں فرق رکھا۔ جس سے اسلام سب مذاہب اور نسلوں کے لئے ایک ثقافت اور ایک تہذیب بنا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دین سے پھرنے (ردت) کے معاملے میں آپ کی رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی سزا صرف آخرت میں ہوتی ہے۔ اس کے لئے مسلم ریاست میں کوئی خاص حد یا تعزیر نہیں ہے؟۔
جی ہاں! اس کی سزا آخرت کا موضوع ہے۔ اور جو کچھـ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اس کے لئے دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔
معزز قارئین! ڈاکٹر حسن الحیوان سے لئے گئے اس اہم انٹرویو کے تیسرے حصے کے اخیر میں ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اور اُمید کرتے ہیں کہ چوتھے حصے میں ہماری آپ سے ملاقات ہوگی۔
الاتحاد الأوروبي هو الشكل المناسب الآن للخلافة ج3 من حوارنا مع د.حسن الحيوان UR
ملاقاتيں -
|