|
روزے کی پکار۔۔ داعیوں کے لئے پیغام بقلم/ تراجی جنزوری۔۔ بےشک قرآن کریم کی آیتوں کا مطالعہ کرنے والا، اس میں غوروفکر کرنے والا اس کے عمدہ اسلوب کا احساس کرے گا ، ایسا اسلوب جو ہر قسم کے تکلیفی حکم میں عمدگی کے اعلی درجے کو پہنچا ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے )يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ( (البقرۃ:183): (اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ، تاکہ تم تقوی اختیار کرو)۔ بندے کو اس کی سب سے پسندیدہ اور عمدہ صفت "اے ایمان والو" کے ذریعہ رب کائنات کی جانب سے آواز دی جارہی ہے۔۔۔ ایسا ہرتکلیفی حکم کے ساتھـ ہے۔ اس میں عمل کرنے کی طرف اقدام بھی ہے اور اس حکم پر ابھارنے کا سبب بھی پایا جارہا ہے اور ساتھـ ہی ساتھـ ہرقبیح فعل سے گریز کرنے کا بھی سبب پایا جارہا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: جب تم لوگ "اے ایمان والو" کی ندا سنو تو اس کو فورا بجالاؤ۔۔۔ کیونکہ یا تو تم کسی بھلے کا حکم دیئے جاؤ گے یا کسی برے چیز سے منع کئے جاؤ گے۔ "یا" کے ذریعہ مخاطب کیا گیا۔ "ایھا" کے ذریعہ متنبہ کیا گیا۔ "الذین آمنوا" کے ذریعہ خاص کیا گیا اور امت محمدیہ کی تعیین کی گئی کیونکہ اس صفت کے ذریعہ کسی دوسری قوم کو متصف نہیں کیا گیا، گزشتہ امتوں کو "یا اھل الکتاب" ، "یا بنی اسرائیل" اور "یا ایھا الناس" کے ذریعہ مخاطب کیا جاتا تھا، لیکن جب امت محمدیہ کو مخاطب کیا گیا تو اللہ رب العالمین نے انہیں سب سے زیادہ پسندیدہ نام اور سب سے زیادہ عمدہ صفات کے ساتھـ ان کو متصف کیا۔ اس اسلوب کے اندر وہ صفت پائی جارہی ہے جو حکم کو جلد از جلد بجا لانے کو واجب کرتی ہے۔ اے مبلغین: حق کڑوا لگتا ہے لہذا اس کو اپنے اسلوب سے مزید کڑوا نہ کرو۔ اے مبلغین: حق بہت بھاری ہے لہذا اس کو پہاڑ پر چڑھانے کی کوشش نہ کرو۔ اے مبلغین: حق بہت مشکل ہے لہذا اس پر بحث نہ کرو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: "اللہ رحم کرے اس شخص پر جو ہم کو ہماری خطائیں عنایت کرے"۔۔۔ لفظ "عنایت کرے" اس کے نیچے سیکڑوں لکیر کھینچیں کیونکہ ضروری ہے کہ ہر قسم کی رہنمائی یہ خوش اسلوبی کے لبادہ میں ہو۔ بہت افسوس کی بات ہے: جو لوگ بھی میڈیا میں یہ کردار ادا کررہے ہیں وہ اس قسم کی رہنمائی سے کوسوں دور ہیں۔ یہ خوش اسلوبی۔۔۔ آپ ملاحظہ کریں گے کہ یونیورسٹی پیمانے کے پروفیسر لوگ بھی لوگوں کے سامنے ٹیلیویژن پر اس کو کند ذہنی یا بیوقوفی سے گردانتے ہیں اور اس کے ساتھـ ہی ساتھـ یہ امید کرتے ہیں کہ حق ان کے پہلو ہی میں رہے یا لوگ اس کی رائے سے مقتنع ہوجائیں۔ میں ایسے شخص سے کہتا ہوں: تم دور ہی رہو تم دور ہی رہو۔ یہ صرف اس وجہ سے کیونکہ یہ اسلوب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور طریقہ سے کوسوں دور ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس اسلوب میں غور کیجئے جب آپ نے خالد بن ولید کی طرف کچھـ لوگوں کو بھیجا اور ان دنوں خالد بن ولید اپنی قوم ہی کے دین پر تھے۔۔۔ آپ نے فرمایا: "میرا خیال ہے کہ خالد بن ولید کی سمجھـ بوجھـ انہیں خیرکا راستہ دکھلائے گی" خالد بن ولید جیسے آدمی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اسلام سے نابلد رہیں، جیسے ہی یہ پیغام خالد بن ولید تک پہنچا وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں دوڑے دوڑے حاضر ہوئے اور اپنے اسلام کا اعلان کردیا۔ ایک دوسرا واقعہ یوں پیش آیا کہ ایک دن عتبہ بن ربیعہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام کے بارے میں اوٹ پٹانگ دلیلوں کے سہارے بحث کرنے لگا۔۔۔ آپ کا جواب اس کے لئے کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: "اے ابوالولید! کیا تم نے اپنی بات ختم کرلی: پھر آپ نے اس کے سامنے سورہ "فصلت" کی چند آیت کریمہ تلاوت کیں۔۔۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس واپس لوٹ کرگیا اس حال میں کہ اس کا چہرے پر نرمی کے آثار نظر آرہے تھے۔ اسی طرح سے جب آپ نے یہ چاہا کہ عبداللہ بن عمر قیام اللیل کی پابندی کریں تو آپ نے فرمایا: "عبداللہ کتنے ہی اچھے آدمی ہیں اگر وہ قیام اللیل کی پابندی کریں" اس کے بعد سے عبداللہ بن عمر قیام اللیل کی پابندی کرتے رہے یہاں تک کہ اس دارفانی سے رحلت فرماگئے۔ موسی علیہ السلام کی طرف دیکھیں جب انہوں نے اپنی قوم سے یہ چاہا کہ وہ جہاد کریں اور مقدس سرزمین میں داخل ہوجائیں تو کتنے ہی اچھے اور خوش اسلوبی کے ساتھـ اپنی قوم کو مخاطب ہوتے ہوئے گویا ہوئے: ارشاد باری تعالی ہے (وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاء وَجَعَلَكُم مُّلُوكاً وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِينَ) (المائدہ:20): (اور یاد کرو موسی (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم کے لوگو! اللہ تعالی کے اس احسان کا ذکر کرو کہ اس نے تم میں پیغمبر بنائے اور تمہیں بادشاہ بنادیا اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا)۔ سورہ مائدہ کی آخری آیتوں تک یہی اسلوب پائیں گے۔ اے وہ لوگو جنہوں نے لوگوں کی رشد وہدایت کا ارادہ کیا۔۔۔ لوگوں سے اچھی باتیں کہو۔ سارے لوگوں کے لئے چاہے وہ مؤمن ہوں یا کافر ہوں ، اطاعت و فرمانبردار ہوں یا نافرمان قسم کے لوگ ہوں، لوگوں کے رشد وہدایت کے راستے میں رکاوٹ نہ بنو۔ نداء الصيام.. رسالة للدعاة UR
نخلستان اسلام -
|