|
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ اور دعوتِ اصول بقلم: تراجی جنزوری۔۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: (وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَاماً) (الفرقان:63): (رحمن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھـ چلتے ہیں اور جب بےعلم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے)۔ زندگی پریشانیوں و مشکلات، رنج و غم، فقر وفاقہ، بےروزگاری، جہالت، سنسنی خیز اور مختلف قسم کی تبدیلیوں سے بھرپور ہے۔ اس طرح کی سنسنی خیز معاملات کے درپیش ثبات قدمی کے حوالے سے لوگوں کے درجات بھی مختلف ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جومعمولی سی معمولی بات پر عجلت پسندی کرکے حماقت کی انتہاء کردیتے ہیں، اور بعض لوگ ایسے ہیں جن پر پڑی ہوئی پریشانیاں آئے دن اکساتی ہیں اور وہ انہی المناک صورت حال میں باقی رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھـ ہی ساتھـ ان کا اپنے افکار و خیالات پر کنٹرول رہتا ہے، اچھے اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ لہذا اس قسم کی تبدیلیوں کے تئیں تمام لوگوں کو حدت پسندی، سکون، جلدبازی، انانیت اور صاف گوئی لاحق ہوتی رہتی ہے۔
عظیم شخص وہی ہے جو باکمال و با اخلاق ہو اور اس کے ساتھـ ہی اس کے دل میں دوسروں کے لئے بھی جگہ ہو، اس کے اندر بردباری بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہو، لوگوں کے اندر کسی بھی طرح کی لغزش دیکھنے کے بعد بذات خود اس کے لئے عذر پیش کرتا ہو، ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں کے لئے خود ہی ان کے لئے جواز تلاش کرتا ہو۔۔۔ اتنا سب کچھـ ہونے کے بعد اگر کوئی شخص اس کی مخالفت کرے، اس کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنا چاہے تو اس کا قول و فعل ایسے شخص کے ساتھـ ویسے ہی ہوتا ہے جیسا کہ اللہ رب العالمین نے اس آيت کریمہ میں بیان فرمایا ہے ارشاد باری تعالی ہے (وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَاماً): (رحمن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھـ چلتے ہیں اور جب بےعلم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے)۔ اللہ رب العالمین نے ان کی قدر و منزلت مزید بلند کردی بایں طور کہ ان کی نسبت اپنی طرف کی۔ کتنے عزت و شرف کی بات ہے کہ آپ اللہ کے بندے بنیں۔۔۔ اس عزت و شرف میں مزید چارچاند لگ گیا جب ان بندوں کی نسبت رحمن کی طرف کی گئی جو ان کی حالت و کیفیت کے عین مطابق ہے۔ اللہ رب العالمین کے اس قول (عَلَى الْأَرْضِ) (یعنی زمین پر) اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دنیا ومافیھا سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ لوگ دنیا ومافیھا پر حاوی ہیں اور دنیا کو اپنے پیروں تلے ڈال رکھا ہے۔ یہ آیت کریمہ ان کی وسعت قلبی اور وسعت بردباری کو بیان کررہی ہے۔۔۔ لہذا ان کے اندر کبروغرور اورخودپسندی کا کوئی نام و نشان تک بھی نہیں پایا جاتا۔۔۔ بلکہ ان کے اندر تو تواضع و خاکساری بھری ہوئی ہے۔ یہی معنی و طلب حضرت ہود علیہ السلام کی حالت و کیفیت بھی ہمیں بتلارہی ہے جب انہوں نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور جواب میں ان کی قوم نے کس حد تک جہالت سے کام لیا۔ ارشاد باری تعالی ہے (إِنَّا لَنَرَاكَ فِي سَفَاهَةٍ وَإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِينَ * قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي سَفَاهَةٌ وَلَكِنِّي رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ * أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ): (انہوں نے کہا ہم تم کو کم عقلی میں دیکھتے ہیں۔ اور ہم بے شک تم کو جھوٹے لوگوں میں سمجھتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھـ میں ذرا بھی کم عقلی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں۔ تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا امانتدار خیرخواہ ہوں)۔ لہذا ان جاہلوں کی گالی گلوچ بھی حضرت ہود علیہ السلام کی بردباری میں رکاوٹ نہ بن سکی۔۔۔ کیونکہ ایک ایسا شخص جسے اللہ رب العالمین نے اپنی رسالت کے لئے اختیار کیا ہے تو وہ شخص خیرو بھلائی کے اعلی مقام و مرتبہ پر ہوتا ہے اور دوسرا وہ شخص جس کے جہالت و حماقت کی انتہاء نہیں ہے وہ شب و روز پتھروں کی پوجا پاٹ کرنےمیں لگا رہتا ہے ان دونون میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کی طرف دعوت دینے والوں کے لئے ایک تربیتی درس ہے۔ اس زندگی میں ان عظیم اصلاح پسندوں کا مقصد اور ان کی ساری کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے متبعین کو خیروبھلائی کے راستے پر گامزن کریں۔ ان کا حال یہ ہے کہ جو ان کے حق میں گستاخی کرے وہ اس کے ساتھـ بھلائی سے پیش آتے ہیں۔ ایک آدمی نے احنف بن قیس کو گالی دی: وہ اس آدمی کے ساتھـ ساتھـ راستے میں چل رہے تھے۔۔۔ جب ان کا گھر قریب آگیا تو پھر آپ کا کیا خیال ہے کہ احنف بن قیس نے اس آدمی کے ساتھـ کیا کیا؟ اپنے دل میں ذرا غور کریں۔۔۔ ان کے درمیان اور آج کل جو ہماری حالت ہے کہ ہم معمولی سی معمولی اسباب کی بنیاد پر بھی آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں دونوں میں موازنہ کریں۔ احنف بن قیس اس آدمی سے نصیحت کے انداز میں کہنے لگے: "اگر آپ کچھـ اور بھی کہنا چاہتے ہوں تو یہیں کہہ لیں۔۔۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اس محلہ کے بچے اگر آپ کو کچھـ کہتے ہوئے سن لیں تو آپ کو تکلیف نہ دیں"۔ ایک شخص نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: آپ ہی وہ آدمی ہیں جس کو حضرت معاویہ نے شام سے بھگا دیا تھا۔۔۔؟ اگر آپ کے اندر کچھـ خیروبھلائی ہوتی تو وہ آپ کو نہیں بھگاتے۔ قارئین کرام آپ اس عظیم صحابی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی جگہ میں اپنے آپ کو تصور کریں۔۔۔ اس وقت آپ کی کیا کیفیت ہوگی اور آپ کا جواب کیا ہوگا؟ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے جوابا اس آدمی سے کہا: "میرے پیچھے رکاوٹوں کا انبار ہے۔۔۔ اگر میں اس سے چھٹکارا پا گیا تو پھر جو کچھـ آپ نے کہا ہے اس سے مجھے کوئی تکلیف نہیں لیکن اگر میں اس سے چھٹکارا نہ حاصل کرسکا تو جو کچھـ آپ نے کہا ہے میں اس سے بھی برا ہوں"۔ حضرت ابوذر غفاری کتنے عظیم ہیں۔۔۔ حقیقت میں آپ نے ان لوگوں کے حق میں اس کو "جو آپ کے ساتھـ برائی کرے آپ اس کے ساتھـ بھلائی کریں" اپنا اصول بنالیا جنہوں نے آپ کے حق میں گستاخی کی۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالی عنہ کو بہت ہی بری گالی دی۔۔۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے کہا: "اے مخاطب مجھے گالی دے کر اپنے آپ کو اس طرح نہ ڈباؤ۔۔۔ صلح کرنے کے لئے بھی گنجائش رکھو۔۔۔ کیونکہ جو شخص ہم میں سے نافرمانی کرتا ہے ہم اس کے ساتھـ اللہ رب العالمین کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کے سوا اور کچھـ زیادہ نہیں کرسکتے ہیں۔ ایک شخص نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: میں آپ کو ایسی گالی دوں گا جو آپ کے ساتھـ آپ کے قبر میں بھی جائے گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے بہت ہی عمدہ انداز میں جواب دیا نہ ہی اس جواب میں کوئی قباحت ہے اور نہ ہی کوئی اس میں برائی ہے۔۔۔ حضرت ابوبکر کو یہ زیب بھی نہیں دیتا کہ وہ ایسا کچھـ کہیں۔۔۔ آپ نے اس شخص سے کہا: نہیں بلکہ وہ تو آپ کے ساتھـ قبر میں داخل ہوگا۔ ایک شخص نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: خدا کی قسم میں ہاتھـ دھو کر آپ کے پیچھے پڑوں گا۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے جوابا عرض کیا: یعنی یہاں سے آپ کوئی کام کرنا شروع کردوگے۔ اس شخص نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے پھر کہا کہ آپ مجھے دھمکی دے رہے ہو۔۔۔ خدا کی قسم اگر آپ میرے بارے میں ایک بات بھی کہو گے تو میں آپ کے خلاف دس باتوں کہوں گا۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم اگر تم نے میرے خلاف سو(100) بات بھی کہہ دی تب بھی میں تمہارے خلاف کچھـ نہ کہوں گا۔ ایک شخص نے امام شعبی رحمہ کو گالی دی، امام شعبی نے اس شخص سے جوابا کہا: اگر آپ سچ کہہ رہے ہیں تو اللہ میری مغفرت کرے۔۔۔ اور اگر آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں تو پھر اللہ آپ کی مغفرت کرے۔ آخرت میں ایسے لوگوں کو بلند درجات عطا کیا جائے گا۔۔۔ ارشاد باری تعالی ہے (أُوْلَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَاماً.. خَالِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرّاً وَمُقَاماً): (یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند و بالاخانے دیئے جائیں گے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا۔ اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے)۔ میں اپنی بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلھ وسلم کی اس حدیث سے ختم کرتا ہوں جس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلھ وسلم نے مخلوق کی قسمیں اور فضیلت کے اعتبار سے ان کی منزلیں بیان فرمائی ہیں، اب مؤمن کو چاہیئے کہ وہ دیکھے کہ وہ اپنے آپ کو کس منزل پر پاتا ہے۔ "بلاشبہ بنوآدم پیدائشی طور پر مختلف طبقات کے ہیں: ان میں سے کچھـ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دیر سے غصہ ہوتے ہیں اور جلد ہی ان کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔۔۔ کچھـ ایسے ہوتے ہیں جنہیں جلدی غصہ آتا ہے اور جلدی ٹھنڈا بھی ہو جاتا ہے۔۔۔ کچھـ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں دیر سے غصہ آتا ہے اور ٹھنڈا بھی دیر سے ہوتا ہے۔۔۔ یہ تو برابر ہیں۔۔۔ اور ان میں کچھـ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا غصہ بہت جلدی ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور جلدی غصہ آتا ہے۔۔۔۔ ان میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جس کو دیر سے غصہ آتا ہے اور بہت ہی جلد اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔۔۔ اور ان میں سب سے برا شخص وہ ہے جو بہت جلدی غصہ ہوتا ہے اور بہت دیر سے اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔۔۔ ان میں سے کچھـ لوگ ایسے بھی ہیں جو بہت ہی بہتر طریقہ سے قرض کی ادائیگی کرتے ہیں اور تقاضا بھی حسن و خوبی کے ساتھـ کرتے ہیں۔۔۔ ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہت برے ہوتے ہیں اور تقاضا کرنے میں حسن و خوبی کے ساتھـ کام لیتے ہیں۔۔۔ ان میں سے کچھـ لوگ ایسے بھی ہیں جو مانگنے میں برے ہوتے ہیں اور ادائیگی حسن و خوبی کے ساتھـ کرتے ہیں۔۔۔ یہ تو برابر ہیں۔۔۔ ان میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ادائیگی میں اور تقاضا کرنے میں دونوں میں برے ہوتے ہیں۔۔۔ ان میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی کرنے میں اور تقاضا کرنے میں دونوں میں بہت اچھا ہے۔۔۔ اور ان میں سے سب سے برا شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی اور تقاضا کرنے میں دونوں میں بہت برا ہے"۔ لہذا اپنے آپ کو اسی منزل کے لائق سمجھو جو آپ کے حال کے مناسب ہے چاہے آپ داعی ہوں۔۔۔ کسی کے والد ہوں۔۔۔ کسی کے شوہرہوں۔۔۔ کسی کے بھائی ہوں۔۔۔ استاذ ہوں۔۔۔ یا ڈاکٹر ہوں غرضیکہ آپ کچھـ بھی ہوں۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتلاؤں جس سے اللہ رب العالمین بنیاد کو عزت بخشتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے؟۔۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: ہاں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلھ وسلم)۔۔۔ آپ نے فرمایا: جو آپ کے ساتھـ جاہلوں جیسا برتاؤ کرے آپ اس کے ساتھـ بردباری سے پیش آئیں، جس شخص نے آپ پر ظلم کیا آپ اس سے درگزر کریں، جس شخص نے آپ کو محروم رکھا ہے آپ اسے نوازیں، جس شخص نے آپ سے قطع تعلق کیا ہے آپ اس سے رابطہ رکھیں"۔ ایسا کرنے کے بعد آپ وہ مقام و مرتبہ حاصل کرلیں گے "جو ان کے حق میں گستاخی کرے وہ اس کے ساتھـ بھلائی سے پیش آتے ہیں"۔ أبو ذر والقاعدة الدعوية UR
نخلستان اسلام -
|