|
تحریکی خطاب میں سنن کونیہ کو نظرانداز کرنا بقلم: ڈاکٹر/ عثمان عبدالرحیم۔۔ دعوت سے منسلک بعض خطاب میں سنن کونیہ سے غفلت برتنے، اسے نظر انداز کرنے، اس سے تجاوز کرنے، گزشتہ امتوں کی سیرتوں میں عبرت ونصیحت کے لئے غور وفکر نہ کرنے اور مستقبل کی طرف جھانکنے کی بات نوٹ کی گئی ہے۔
بے شک جماعت اسلامی کے بعض خطاب میں سنن کونیہ سے متعلق گفتگو کا اس شکل میں نہ پایا جانا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ربانی قوانین کی اہمیت اور دقت کو یہ ابھی نہیں سمجھـ سکی ہے، جس کی سائنسی قوانین اور ریاضیاتی مساوات کی دقت کا یہ عالم ہے کہ وہ کشتیوں کو سمندروں میں چلنے اور فیکٹریوں میں مشینوں کے گردش کرنے کو بھی اجازت دیتی ہیں۔ اس عجیب وغریب فرق میں سے اس لاپرواہی کا وجود (بھی) ہے، جب کہ اللہ رب العالمین نے زمین میں سیاحت (سیر وتفریح) کرنےکو، گزشتہ امتوں کے حالات میں غور وفکرکرنےکو، ان سنن وقوانین کا ادراک کرنے کو- جس نے تاریخ کو ہلا کر رکھـدیا- مسلمانوں کے لئے اس طرح مطلوبہ واجبات میں سے بنا دیا ہے جیسا کہ شرعی طور پر کسی چیز کا مکلف بنایا جاتا ہے اور اس کی اپنی عظمت وبزرگی اور اہمیت ہوتی ہے اورساتھـ ہی ساتھـ اجر وثواب بھی ملتا ہے۔ حقیقت میں زمین میں سیاحت (سیر وتفریح) کرنے کا حکم دیا گیا ہے، قرآن کریم نے مشرکین کی جانب سے اس معرفت سے غفلت برتنے کو اور اس کا ادراک نہ کرنے کو ان کے ضلالت وگمراہی کے اسباب میں سے شمار کیا ہے۔ لہذا ان پر انکار کرتے ہوئے اللہ رب العالمین یہ ارشاد فرماتا ہے: (أَوَ لَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا) (الروم:9)۔ (کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے) اور بہت ساری جگہوں پر یہ بات کہی گئی ہے۔ جب قرآن کریم نے ہی اس قاعدہ کو ثابت کرنےکا اتنا اہتمام کیا اور بہت ساری آیتوں میں اس کا حکم دیا تو پھر یہ ضروری ہے کہ دعوت وتبلیغ کرنے والے اور مفکرین حضرات اس چیز کا اہتمام کریں جس کا قرآن کریم نے اہتمام کیا ہے؛ لیکن یہ اہتمام ہے کہاں؟، کہاں ہے اس میں غور وفکر؟، اور ان سنن وقواعد کو دریافت کرنے کے لئے کہاں ہے وہ تاریخ کا گہرائی کے ساتھـ مطالعہ تا کہ ان کی روشنی میں ہدایت ملے اور جو کچھـ گزر چکا ہے اس سے عبرت ونصیحت حاصل ہو، یا صرف یہاں تک کہ ہم اپنی ہاتھوں کو ان مخفی جگہوں پر رکھـ سکیں امت جس کا شکارہے؟۔ شیخ محمد رشید رضا کہتے ہیں: "بے شک اللہ رب العالمین کا ہمیں یہ بتلانا کہ اس کی (کائنات کی) پیدائش میں سنتیں ہیں جو ہم پر یہ واجب کرتی ہیں کہ ہم ان سنتوں کو علوم وفنون میں سے ایک فن سمجھیں تا کہ اس کے اندر جو ہدایتیں اور نصیحتیں پوشیدہ ہیں ان سے مکمل طور پر ہمیشہ فائدہ اٹھائیں"۔ لہذا امت پر اجمالی طور پر یہ واجب ہے کہ اس کے پاس ایک ایسی قوم ہو جو اس کو پیدائش سے متعلق اللہ رب العالمین کی سنتوں کو بیان کرتی رہے جیسا کہ اس کے علاوہ دوسرے علوم وفنون میں یہ چیز موجود ہے، اور اللہ رب العالمین کی سنتوں کا جاننا یہ تمام علوم وفنون میں سب سے زیادہ نفع بخش ہے۔ اور دوسری جگہ لکھتے ہیں: "متقدمین اور متاخرین میں سے قلمکاروں نے کتاب وسنت کے علوم و فنون میں سے کسی فن میں بھی کوتاہی سے کام نہیں لیا، جس طرح سے انہوں نے اس میں کوتاہی کی ہے اللہ رب العالمین کی جن سنتوں کی طرف قرآن وحدیث نے ہدایت کی ہے"۔ بیدار نوجوانوں کے دلوں میں اس علم کا بیج بونا یہ انہیں آفاقی کشادگی فراہم کرتی ہے، اس طرح کی کوشش اور پابندی کرنے کے لئے انتہائی درجہ کی طاقت و قوت فراہم کرتی ہے، وہ اس کی روشنی میں عمل کرتے ہیں کہ ان کے اور ان کے دشمنوں کے درمیان کشمکش ایک ثابت شدہ قواعد اور سیدھے راستے پر رہ کر چلتی ہے، جو اس پر چلا وہ کامیاب وفتحیاب ہو گیا اگر چہ وہ زندیق یا بت پرست ہی کیوں نہ ہو، اور جس نے اس سے غفلت برتی منہ موڑا وہ ناکام و نامراد ہو گیا اگرچہ وہ سچّائی والے پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں۔ لہذا اس سنت کی فطرت میں سے یہ ہے کہ وہ کسی کی طرفداری نہیں کرتا کیونکہ اس کا قیام ہی عدل کی بنیاد پر ہے، اور وہ ان اسباب و ذرائع کے ساتھـ ساتھـ مکمل طور پر متفق ہیں جن اسباب وذرائع کے ذریعہ ہم لوگ اللہ رب العالمین کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ بات ثابت ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کی عبادت وسائل وذرائع کے ذریعہ کرتے ہیں جس طرح کہ ہم اس کو اپنا مقصد بنا کر عبادت کرتے ہیں، اور اس پر اس بھی زیادہ کوئی اور واضح اور کھلی دلیل نہیں ہو سکتی ہے جو "احد" اور اسی طرح سے "حنین" کے دن پیش آیا۔ اسی سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے آج کل جو کچھـ مسلمانوں پرمصیبتیں اور دشواریاں پیش آرہی ہیں، جب کہ ان کے دشمنوں میں سے کفار ومشرکین ترقی پر ترقی کئے جا رہے ہیں۔ دعوت وتبلیغ کرنے والوں میں سے کسی شخص نے ایک دن عجیب وغریب سوال کیا، لیکن وہ ایک ایسا سوال ہے جسکی بہت اہمیت ہے اور اس کا جواب بھی بہت ہی معنی خیز ہے۔ سوال یہ ہے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد اقصی کو کیوں نہیں فتح کیا؟۔ کیا انہیں اللہ رب العالمین کی تائید حاصل نہیں ہے؟۔ یا کیا مسجد اقصی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں فتح کرنا اور اس وقت اسے رومیوں سے آزاد کرنا یہ اللہ کے رسول کے حق میں پہلے سے موجود اعزاز میں مزید اضافہ نہیں ہے؟۔ اس سوال کا جواب یہ واضح دلیل ہے: کہ مسجد اقصی کی فتح یہ نظام کائنات کے قانون کے مطابق ہے جو اس عمل کے پورا ہونے کے لئے پورا پورا موقع فراہم کرتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد اقصی کی آزادی کے لئے دعوت کے ابتدائی دنوں سے ہی کوشش کی، جب آپ نے ایک ایسے نسل کی تربیت کی جس کے ہاتھوں آنے والے دنوں میں یہ چیز پوری ہونی تھی، آپ نے دو معرکہ کارزار مؤتہ اور تبوک کی بذات خود قیادت کی، پھر اس سے پہلے کی اللہ رب العالمین یہ کام پورا کرتا آپ - صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - اس دار فانی سے رحلت فرما گئے؛ کیونکہ نظام کائنات کے اسباب جو رومان کو شکست پہہنچا کرفیصلہ کرنے والے تھے وہ پورے طور پر ابھی تک رونما نہیں ہوئے تھے۔ جب نظام کائنات کے اسباب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہنچ سے باہر تھے اور آپ کا ان میں کوئی دخل بھی نہیں تھا، تو آپ پھر آپ اس دارفانی سے کوچ کرگئے اور مسجد اقصی رومیوں کے ہاتھوں ہی میں قیدی بن کر رہ گئی، پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور معاملہ ویسا ہی رہا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے مسجد اقصی کو فتح کرلیا اور اس کو رومیوں کے چنگل سے آزاد کردیا نظام کائنات کی سنتوں کے مطابق جس کے قانون نے یہ فیصلہ کردیا تھا کہ مسجد اقصی کی آزادی یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور خود ان کے ہاتھوں ہو۔ ان سنتوں اور قوانین کو اچھی طرح سے جاگزیں کرنا بے شک یہ اس علم وفن کو بہت ہی اچھی طرح سے پڑھکرکے اور شریعت کے مقاصد پر مکمل طور پر عبور حاصل کرکے ہی ایسا کیا جا سکتا ہے، رہے ایمان وعقیدے کے تقاضے تو نوجوانوں کے دلوں میں اس کی بیج بچپن ہی سے بوئی جاتی ہے، جہاں انہیں قرآن کریم حفظ کرایا جاتا ہے، فقہ وتجوید، قرآن کریم کے معانی، اس کے قصّوں اور احداث میں غور وفکر کرایا جاتا ہے، کسی بھی تاریخی واقعہ کو ذکر کرکے اس کے فوائد اور عبرتوں پر نظر ڈالے بغیر صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ تا کہ یہ سنتیں ان کے دل ودماغ میں زندہ باقی رہیں، ان کے خواب و خیال میں ہمہ وقت حاضر رہیں، اسی کی روشنی میں اپنی زندگی ڈھالیں، اسی کی بنیاد پر اپنی ترجیحات کو منظّم کریں اور اسی کو مدّ نظر رکھکر اپنی کامیابی وکامرانی کی منزل کو دیکھیں کہ وہ کس قدر اس سے قریب ہیں۔ تجاهل السنن الكونية في الخطاب الحركي AR
موجودہ قضيے -
|