|
دعوت وتبلیغ کا فقہ۔۔۔ شرعی اصول اور بشری تجربات کے درمیان بقلم: شیخ/ عبد الآخر حماد۔۔ مخلوق کو اللہ رب العالمین کی طرف دعوت دینا یہ تمام عبادتوں میں سب سے بہتر عبادت ہے، اور اس مشن سے منسلک حضرات یہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھی بات کہنے والے ہیں جب یہ لوگ نیک عمل کریں اور مسلمان میں سے ہوں جیسا کہ قرآن کریم نے اس کو بیان کیا ہے (وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ) (فصلت:33)۔ (اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقینا مسلمانوں میں سے ہوں)۔
جب دعوت وتبلیغ کرنے والوں کے ذہن میں دعوت الی اللہ کی اس تعبدی پہلو کی دوری اچھی طرح جاگزیں ہوگئی تو وہ سمجھـ لیں گے کہ اسلامی دعوت وتبلیغ کے میدان میں شروعات نہیں کی جاسکتی ہے مگر اس چیز سے جو کتاب اللہ اور سنت رسول - صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - کے مطابق ہے۔ ضروری ہے کہ دعوت الی اللہ کے لئے مسلمانوں کا طریقہ یہ حکمت والا ہو، جو شخص اس میں شک کرے اس کی کوئی وقعت نہیں ہے جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے (ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ) (النحل:125)۔ (اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصحیت کے ساتھـ بلائیے)۔ حکمت کا سب سے زیادہ مناسب طریقہ کار یہ حالات کے موافق اسلوب اختیار کرنے میں ہے، کیونکہ حکیم وہی ہے جو کسی چیز کو اس کی مناسب جگہ میں رکھے، اسی وجہ سے علامہ ابن قیم۔ رحمہ اللہ۔ حکمت کی تعریف میں کہتے ہیں "مناسب کام کو مناسب طریقے سے مناسب وقت میں کرنا" یہی حکمت ہے۔ (مدارج السالکین:2/479)۔ جیسا کہ دعوت وتبلیغ کرنے والوں کے لئے یہ کوئي حرج کی بات نہیں ہے کہ وہ جن لوگوں کو دعوت دے رہا ہے اس کے لئے مناسب اسلوب کا انتخاب کرے، اور نئے ٹیکنالوجی علوم نے معاشرتی وسماجی اور اداری وغیرہ علوم وفنون نے جو ترقی کی ہے اس کی مدد سے جن لوگوں کو دعوت دی جا رہی ہے ان کے دل و دماغ تک پہنچنے کے لئے بھی ان چیزوں میں سے بہتر سے بہتر ذائع کو اپنائے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چیزیں بھی اس کو حکمت کے ساتھـ دعوت دینے میں ممد ومعاون ہوں گی جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ حکمت کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی مناسب جگہ میں رکھنا۔ ضروری ہے کہ یہ تمام باتیں ہر مسئلہ میں شرعی نصوص کے دائرے میں ہوں، تا کہ یہ نوبت نہ آئے کہ دعوت وتبلیغ کرنے والا ان مسائل سے دوچار نہ ہو جس کے بارے میں وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ سراسر حکمت پر مبنی ہیں حالانکہ در اصل معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ابھی کچھـ دنوں پہلے میں نے ایک کتاب پڑھی تھی جو مغربی ممالک میں کسی اسلامی کمیٹی نے شائع کی تھی یہ کتاب اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ دعوت وتبلیغ کرنے والے نظم ونسق اور اداری مسائل وغیرہ کے لئے نئے اسلوبوں سے استفادہ کریں جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود میری نظر اس کتاب میں ایک واقعہ پر پڑی جس کو کاتب (مؤلف) نے "الدعوۃ بین النظریۃ والتطبیق" کے تحت ذکر کیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس میں بہت سارے تازہ نمونے ایسے ہیں جو اس اہمیت کو بیان کرتے ہیں جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ شرعی اصولوں کو ان چیزوں پر مقدم کرنا ضروری ہے جس کو بسا اوقات آدمی اپنے نظریہ کے حساب سے یہ گمان کرتا ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کی طرف دعوت وتبلیغ کرنے کے لئے حکمت والے اسلوبوں میں سے ہیں۔ اس کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شیخ صاحب اپنے طلبہ کو اللہ رب العالمین کی طرف دعوت وتبلیغ کرنے کے لئے مشق کرا رہے تھے تو وہ ان سب کو چھـ (6) مہینہ تک نظری طور پر پڑھاتے تھے پھر دعوت وتبلیغ کے میدان میں نکلنے سے پہلے ان کو تین (3) مہینہ تک عملی طور پر مشق کراتے تھے۔ ان میں سے ایک طالب علم نے جلد بازی سے کام لیا اور اس نے یہ گمان کیا کہ اس کے لئے نظری طور پر پڑھنا ہی کافی ہے اسے عملی طور پر مشق کرنے کی حاجت نہیں ہے، لہذا وہ اللہ رب العالمین کے راستے میں دعوت وتبلیغ کرنے کے لئے استاذ کے تنبیہ کرنے کے باوجود بھی نکل گیا، اور ایک بہت ہی دور گاؤں میں گیا تو وہاں ایک خطیب کو دیکھا کہ وہ جمعہ کا خطبہ دے رہا ہے، لیکن اس نے اپنا خطبہ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹی باتوں سے بھر رکھا ہے، تو اس طالب علم سے رہا نہیں گیا اور نماز کے بعد کھڑا ہو کر چیخنے لگا کہ یہ امام جھوٹا ہے، تو امام نے جوابا یہ کہا کہ یہ ( نوجوان) لڑکا کافر ہے اور سزا کا مستحق ہے، تو سارے کے سارے نمازی اس لڑکے پر پل پڑے اور جم کر اس کی پٹائی کردی، لہذا وہ (طالب علم) اپنے استاذ کے پاس لوٹا اس کے اوپر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں، تو اس کے شیخ (استاذ) نے اس سے کہا، ہمیں موقع دو ہم تمہیں عملی طور پر اللہ رب العالمین کی طرف دعوت وتبلیغ کی ایک مثال دکھاتے ہیں۔ دوسرے جمعہ کو استاذ اپنے اسی طالب علم کو لیکر اسی مسجد میں گیا اور وہاں اسی خطیب نے پھر اللہ اور اس کے رسول۔ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ پر جھوٹی جھوٹی باتیں گـڑھیں، تو استاذ سے رہا نہیں گیا وہ نماز کے بعد کھڑے ہوئے اور لوگوں سے مخاطب ہو کرکہنے لگے: آپ لوگوں کا یہ خطیب بے شک جنّتی ہے، اور آپ لوگوں میں سے جو شخص بھی اس کی داڑھی میں سے ایک بال (بطور تبرّک) لے گا وہ شخص بھی جنت میں جائے گا۔ پھر کیا تھا! سارے لوگ امام پر پل پڑے اور اس کی داڑھی کے بال کو طاقت کے زور پر کھینچنے لگے یہاں تک کہ اس کا چہرہ خونریز کر ڈالا اور داڑھی کے سارے بال بھی اکھاڑ لئے، پھر اس موڑ پر پہنچ کر شیخ صاحب نے امام کے کان میں دھیرے سے کہا: کیا اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ گڑھنے سے باز آؤ گے؟ یا ابھی اور سزا چاہئیے؟۔ یہاں پہنچ کر امام نے اپنی غلط کرتوتوں کا اعتراف کر لیا اور جو کچھـ کیا تھا اس پر بھی شرمندگی کا اظہار کیا، اور طالب علم نے بھی اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور شیخ صاحب سے یہ گزارش کیا کہ عملی طور پر مشق کرنے کے لئے تین (3) مہینہ جو خاص ہے اس میں اس کو بھی موقع دیں۔ یہ واقعہ بالکل اسی طرح سے ہے جس طرح سے مذکورہ کتاب میں بیان کیا گیا ہے، مؤلف نے اس واقعہ پران الفاظ میں تبصرہ کیا ہے: "نظری اور عملی تطبیق کے درمیان بہت ہی وسیع خلا ہے"۔ شاید اس واقعہ پرایک سرسری نظر ڈالنا قارئین کرام کو اسی چیز کی دعوت دیتا ہے جو اس کا بیان کرنے والا چاہتا ہے کہ طالب علم کی غلطی بھی ثابت ہو جائے جس نے یہ گمان کر لیا تھا کہ صرف نظری طور پر پڑھنا ہی اس کے لئے کافی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اہل مسجد سے پٹائی کی صورت میں انتہائی عبرت آمیز سبق سیکھا، اور اپنے استاذ محترم سے۔ عملی طور پر۔ سیکھنے سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ استاذ کی حکمت نوجوانوں کی جلد بازی سے کتنی مضبوط اور قوی ہوتی ہے، تاہم میرا خیال ہے کہ شرعی میزان کی روشنی میں منصفانہ نظر شیخ اور طالب علم دونوں پرمذکورہ حکم کے سوا کوئی دوسرا حکم لگائے گی بایں طور پر کہ طالب علم کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی تصرفات میں بہت جلد بازی سے کام لیا اور کلام میں سخت اسلوب کا سہارا لیا۔ صحیح اور درست یہ تھا کہ بات کرنے میں نرمی، بردباری اور بہتر اسلوب کے ساتھـ کام لیتا جیسا کہ اس کے لئے یہ بھی مناسب تھا کہ اہل مسجد میں سے بعض ان لوگوں کو جن سے اچھے سمجھـ بوجھـ کی توقع ہوتی ان کو اپنی طرف مائل کرتا۔ ساتھـ ہی ساتھـ ہم شیخ صاحب کے اسلوب میں کچھـ شرعی خلاف ورزیوں کو بھی شمار کر سکتے ہیں جس کے سامنے۔ بلکہ ان غلطیوں میں سے کسی ایک کے سامنے بھی۔ اس طالب علم کی وہ غلطی بھی ہیچ ہو کر رہ جاتی ہے جس کا اس نے ارتکاب کیا۔ استاذ کی غلطیوں کو مختصر طور پر ہم چند نکات میں بیان کر سکتے ہیں: · استاذ نے اس آدمی کو اسکی داڑھی اکھڑوا کرکے اس کو سزا دی اور یہ شرعی طور پر جائز نہیں ہے اگرچہ یہ چیز بطور سزا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ یہ ایسی سزا ہے جو شارع (اللہ اور اس کے رسول) کے حکم کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔ امام ماوردی (رحمہ اللہ) تعزیر(سزا) اور اس کے احکام کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں "ان کے بالوں کو کاٹنا جائز ہے، اور ان کے داڑھی کو مونڈنا جائز نہیں ہے"۔ (الاحکام السلطانیۃ:390)۔ کتاب الدلیل اور اس کی شرح منار السبیل کے باب التعزیر میں ہے " اس کی داڑھی مونڈنا، اس کا مال لینا اور اس کے اطراف (جسم کے کسی حصہ) کا کاٹنا حرام ہے؛ کیونکہ شریعت نے ان میں سے کسی چیز کا حکم نہیں دیا" (منار السبیل:2/383)۔ · اس استاذ نے اس امام کے ساتھـ وعظ ونصیحت سے کام نہیں لیا، اور علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نرمی اور بردباری کے ساتھـ کام لینا چاہئے شدت اور سختی کا سہارا اس وقت لیا جائے گا جب زبانی پند ونصیحت کام نہ آئے۔ · اس استاذ نے لوگوں کو گمراہ کیا اور ان کو جھٹلایا وہ اس طور پر کہ ان کو یہ وہم دلایا کہ ان کا شیخ (امام) بہت نیک اور صالح آدمی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایسا آدمی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹی باتیں گڑھتا ہے۔ · اس استاذ نے لوگوں کے ذہن میں غلط مفہوم ڈال دیا یا ان کے عقلوں میں جاگزیں کردیا اگر اس طرح کی کوئی بات ان کے ذہن میں پہلے سے موجود تھی، اس سے میرا مقصد ہے اس امام کے داڑھی کے بال سے تبرّک حاصل کرنے کا مسئلہ، کیونکہ ایسا عمل جائز نہیں ہے۔ · استاذ نے اس خطیب کے بارے میں کہا کہ وہ جنّتی ہے، اور اہل سنۃ (کتاب و سنت پر عمل کرنے والوں) کے عقیدے میں یہ جائز نہیں ہے کہ کسی متعین آدمی کے بارے میں یہ گواہی دی جائے کہ وہ جنّتی ہے یا جہنّمی ہے، صرف اس آدمی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے جن کے بارے میں شرعی نص وارد ہے۔ پھر یہ قول اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جھوٹا ہے اور یہ استاذ پہلا شخص ہے جو یہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے، اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے اس خطیب کو ایک جھوٹا شخص دیکھـ رہا ہے جو اللہ اور اس کے رسول۔ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔ پر جھوٹی باتیں گڑھتا ہے۔ · اس استاذ نے نمازیوں کو پورے یقین کے ساتھـ یہ کہا کہ جو شخص اس آدمی کے داڑھی کا ایک بال بھی لے گا وہ جنّت میں داخل ہوگا، اور یہ اللہ اور اس کے رسول - صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم - پر جھوٹ باندھنا ہے جس کا یہ استاذ خود شکار ہو گیا، حالانکہ وہ (استاذ) خود اس آدمی پر ا نکار کرنا چاہتا تھا جو اس میں پہلے سے مبتلا تھا۔ اس کے بعد: شاید کہ اس مختصر بیان کے بعد ہم اس استاذ کی غلطیوں کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ: اگر نظری اور عملی تطبیق کے درمیان بہت ہی وسیع خلا ہے تو اس سے بھی زیادہ وسیع اور کشادہ خلا یہ شرعی اصولوں اور اللہ رب العالمین کی طرف دعوت دینے میں بشری تجربات پر اعتماد کرنے کے درمیان ہے۔ فقه الدعوة.. بين الأصول الشرعية والتجارب البشرية AR
موجودہ قضيے -
|