English - عربي
  صفحہ اول ويب سائٹ ہم سے رابطہ زائرين کا ريکارڈ
  موجودہ قضيے -: کیا مبلغین اسلام رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں؟۔ - جہاد کا حکم -: جہاد کے ذریعہ حاصل ہونے والے مفادات اور دور کئے جانے والے خطرات کے مابین ربط وتعلق - ملاقاتيں -: طالبان کا وجود کیسے ہوا؟۔کس طرح سے کامیاب ہوئےاور تنظیم القائدہ نے انکو کیسے گنوایا؟۔۔ اسلام غمری کے شہادت کا تیسرا حصّہ - نخلستان اسلام -: جنت میں جدائی نہیں - حادثات -: امریکہ کے ساتھ تعلقات پر مصر کے صدر مرسی کا دانشمندانہ مو¿قف اور ہماری قیادت کی آزمائش جنرل اسمبلی کا اجلاس مسلم ممالک کے کسی مشترکہ مو¿قف پر منتج ہو سکتا ہے؟۔ - موجودہ قضيے -: کیا ہم صحیح طریقے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں؟۔ - حادثات -: میانمار میں روہنگی مسلمانوں کا المیہ (2)۔ - ملاقاتيں -: افغانستان کے ہر شہر میں جماعت اسلامی کےشھید موجود ہیں۔۔ شیخ اسلام غمری کے ساتھ ہمارے انٹرویو کا دوسرا حصّہ - نخلستان اسلام -: صلی اللہ علیہ وسلم محسن انسانیت - حادثات -: شریعت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مغربی منصفین کی نظروں میں - موجودہ قضيے -: مسلمانوں کے نزدیک دشمنوں کی مدد کرنے کا فن - فتوے -: نذر كا روزہ شوال كے چھ روزں پر مقدم ہوگا - مسلم خاندان -: میں مسلمان کیسے ہوئی؟ ایک تھائی خاتون کی قبول اسلام کی کہانی - مسلم خاندان -: کیا عورت سے متعلق اسلام منفی سوچ رکھتا ہے؟(1)۔ - مسلم خاندان -: اسلامی شادی کورس - نخلستان اسلام -: اسلام اور اسلام کے لئے کام کرنے والوں کی خطا کے مابین گڈ مڈ - ملاقاتيں -: افغانی عرب کے تجربے کا مشاہدہ کریں۔۔ شیخ/ اسلام غمری کے ساتھ ہمارے انٹرویوکا پہلا حصّہ - جہاد کا حکم -: سول غیر فوجی طیاروں کی ہائی جیکنگ اور دھماکہ۔۔۔ شرعی جائزہ -  
ووٹ ديں
کیا شام میں مظاہرہ کرنے والی عوام کی فتح ممکن ہے؟
ہاں
نہیں
معلوم نہیں
سابقہ را? عامہ
موجودہ قضيے -

مسلمانوں کے نزدیک دشمنوں کی مدد کرنے کا فن

معـتـزباللہ عبـدالفـتاحبقلم: معـتـزباللہ عبـدالفـتاح۔۔ "حکمت یہ ہے کہ آپ اس چیز کو اختیار کریں جو آپ نہیں جانتے ہیں" یہ ایک ایسی عبارت ہے جو ہم نے سن تـزو (Sun Tzu) کی کتاب "فـن حـرب" میں پڑھی تھی، جو کتاب آج سے تقریبا ڈھائی ہزار سال پہلے لکھی گئی۔

اسی معنی کو شاعر نے کچھـ اپنے انداز میں بیان کیا ہے جس کا مفہوم ہے

اگر ہر بھونکنے والے کتے کو ایک پتھر خاموش کردے تو پھر دوسرے ہی دن سے پتھرسونے کے بھاؤ ہوجائے۔

یہ معنی بھی کچھـ اس سے ملتا جلتا ہے جو اللہ رب العالمین نے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے ارشاد باری تعالی ہے (وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا): (اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے)۔

اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا (وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا): (اور جب کسی چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں)۔

دوسری جگہ کئی آیتوں میں مزید اس معنی کی تاکید فرمائی انہیں آیتوں میں سے یہ آیت کریمہ بھی ہے (وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْو أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالنَا وَلَكُمْ أَعْمَالكُمْ سَلَام عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ): (اور جب بیہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کرلیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے عمل ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، تم پر سلام ہو)۔

مذکورہ تمام باتوں کی یہاں مناسبت کیا ہے؟

مناسبت یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے ہی خلاف دشمنوں کی خدمت کرنے کے لئے تیار بیٹھے رہتے ہیں، اسے سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ ہمارا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی فلم کے خلاف مظاہرہ کرکے مزید اس کی تشہیر کرنا۔

میں سلمان رشدی کے اس لیکچر کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا جو اس نے ایک ملک میں دیا تھا اور میں بھی وہاں موجود تھا۔۔۔ اس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امام خمینی نے جو اس کے قتل کا فتوی صادر کیا اس فتوی سے اس نے کتنا فائدہ اٹھایا بایں طور پر کہ اس کی بیہودہ کتاب "شیطانی آیات" کی کافی تشہیر ہوئی اور بہت کافی تعداد میں وہ کتاب فروخت ہوئی۔

وہ بیہودہ کتاب جس کا برطانیہ کے کسی مکتبہ نے پچاس ہزار نسخہ چھاپہ تھا۔۔۔ سلمان رشدی کی سابقہ تین کتابوں کی خرید و فروخت کے تجربے کی روشنی میں اس کتاب کے اتنے نسخوں کو فروخت کرنے کے لئے چار سال کی مدت درکار تھی تاکہ اتنے نسخوں کو بیچا جا سکے۔

ادھر دوسری جانب امام خمینی نے "اسلام کا دفاع" کرنا چاہا اور انہوں نے اپنا وہ مشہور فتوی صادر کیا جس کے بموجب سلمان رشدی قتل کا مستحق ٹھہرا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ اس کی کتاب عالمی پیمانے پر سب سے زیادہ فروخت ہونے لگی یہاں تک کہ سنـــہ 1990ء میں یعنی کہ امام خمینی کے اس مشہور فتوی صادر کرنے کے ایک ہی سال کے بعد اس کتاب کا چالس لاکھـ نسخہ آٹھـ مختلف زبانوں میں ہاتھوں ہاتھـ فروخت ہوگیا۔۔۔ یعنی کہ اس کے بدلے کہ اس کتاب کا چار سال میں پچاس ہزار نسخہ پڑھا جائے ایک ہی سال کے اندر اس کتاب کا چالس لاکھـ نسخہ پڑھا گیا اور ابھی تک بڑے پیمانے پر اس کتاب کی فروخت جاری ہے۔۔۔ یہ ہے مسلمانوں کے اندر اسلام کی خدمت کرنے کا فن!

شاہکار کردار جو مسلمانوں نے اپنے ہی دین کے خلاف ادا کیا وہ ان سے بعید تر نہیں تھا وہ یہ کہ انہوں نے ڈنمارک کے اس بیہودہ اور گھٹیا مقامی میگزین میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مضحکہ خیز کارٹون شائع کرنے کے بعد اسلام اور مسلمانوں سے متعلق خبروں میں اس کو مزید شہرت دے کرکے اسے بنیادی مصدرمیں تبدیل کرڈالا۔

میں آۓ دن اپنے ایمیل میں بعض ان دوستوں کی جانب سے جن کے اندرمنطقی سوچ و فکر پر دینی جذبات کا غلبہ رہتا ہے تحریف کردہ آیات یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کی شان میں گالیوں پر مبنی ایمیل دیکھتا ہوں اور اس کے ساتھـ ہی یہ تنبیہ بھی دیکھتا ہوں کہ اس جیسے ویب سائٹوں کو نہ کھولوں جس میں اس طرح کے گالی گلوچ ہوتے ہیں اور اس کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی اکثروبیشتر ویب سائٹیں مسلمانوں کے درمیان بہت ہی تیزی کے ساتھـ منتشر ہوجاتی ہیں۔

ہم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بعض دوستوں کو بتلایا کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ آپ قرآن کریم کا کوئی تحریف شدہ نسخہ دیکھیں اور پھر آپ اس کا دسیوں نسخہ کاپی کرکے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کریں تاکہ آپ اس سے مسلمانوں کو متنبہ کریں۔۔۔ اگرچہ آپ اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ نے ایسا کرکے اسلام کو مزید نقصان پہنچایا۔۔۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس دین کے پیروکار دانشمند بھی ہوتے۔

مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ موقف بھی یاد آرہا ہے جس وقت آپ نے یہ چاہا کہ دین کی عزت اور اس کی سچائی برقرار رہے یہ سوچ کر آپ نے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا جس میں انہوں نے عبداللہ بن ابی بن سلول کو قتل کرنے کی بات اس وقت کی تھی جب وہ غزوہ بنو مصطلق کے بعد مسلمانوں کے درمیان باہم فتنہ برپا کرنے والا تھا یہ کہتے ہوئے: "اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا (اس سے وہ انصار کو مراد لے رہا تھا) وہاں سے ذلت والے کو (اس سے وہ مہاجرین کو مراد لے رہا تھا) نکال دے گا"۔

لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے قتل کرنے کو ٹھکرادیا یہ کہتے ہوئے کہ: "تاکہ لوگوں کے درمیان یہ بات نہ مشہور ہوجائے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہی لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔۔۔ (اور اس کا نتیجہ یہ ہو کہ) عرب کے لوگ اسلام کو اس کے متبعین کو چھوڑ کرکے اس کے دشمنوں سے جانیں"۔

یہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جانب کو ترجیح دی کہ وہ منافق کی طرف سے ایذا رسانی کو برداشت کرلیں تاکہ دین کی سچائی نہ ضائع ہونے پائے۔

معروف و مشہور ادیب عباس العقاد اس واقعہ پر تعلیق لگاتے ہوئے رقمطراز ہیں: کیا یہاں ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس موقف سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس باطل کو قبول کر رہے ہیں جس کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ماننے سے انکار کررہے ہیں؟

اس کا جواب یقینی طور پر منفی میں ہے۔

دراصل بات یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر جنگ کرنے والے ایک فوجی کی روح غالب ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگوں پر بھی وہی روح غالب رہتی ہے جو ہر چیز پر قدغن لگانے کے لئے ہمہ وقت پیش پیش رہتے ہیں۔۔۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک رسول کی حیثیت سے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ میں ایک خلیفہ کی حیثیت سے بہت فرق ہے جیسا کہ اس جانب عباس العقاد نے اشارہ کیا ہے وہ فرق ایسے ہی ہے جیسے کسی عظیم انسان اور ایک عظیم آدمی میں ہوتا ہے۔

رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انسان کی حیثیت سے باطل کی بہت ساری قسموں سے واقف ہیں اور اسی طرح سے انکار کرنے کے بھی مختلف قسموں سے واقف ہیں۔۔۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انسانی نفسیات میں کیسا کیسا البیلاپن اور ٹیڑھا پن پایا جاتا ہے اور اس کا علاج متعدد طریقہ سے طاقت و قوت اور کمزوری، خیر و شر، صحت و تندرستی اور بیماری سے بھی ہوجاتی ہے۔۔۔ تلوار بھی منع کرنے والے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے وہ تنہا ہی واحد ذریعہ نہیں ہے۔

تو کیا ہم جس شخص سے نفرت کرتے ہیں اس کی جانب سے کچھـ اذیت کو برداشت کرسکتے ہیں تاکہ ان کے "زہرآلود افکار" کو پھیلانے میں ہم ان کے برابر کے شریک نہ ہوجائیں۔

فن مساعدة الأعداء عند المسلمين UR



موجودہ قضيے -

  • اخبار
  • ہمارے بارے ميں
  • نخلستان اسلام
  • بيانات
  • مسلم خاندان
  • موجودہ قضيے
  • کتابيں
  • حادثات
  • جہاد کا حکم
  • ملاقاتيں
  • ويب سائٹ کي خدمات
  • اپني مشکلات بتائيں
  • فتوے
  • ارئين کي شرکت