|
کیا ہم صحیح طریقے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں؟۔ بقلم: ڈاکٹر/ ناجح ابراہیم۔۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی فلم کافی حد تک بدتہذیبی، حقارت آمیز، موضوعیت سے ہٹ کر، نقل و بیان کے اصول و ضوابط سے کوسوں دور، صحیح تاریخ کو بالاۓ طاق رکھـ کر، بےادبی اور سخت کلامی کی حدوں سے تجاوز کرکے تیار کیا گیا ہے۔۔۔ اس بات کو سبھی لوگ جانتے ہیں، مصر کے تمام کنیساؤں نے اس فلم سے اپنی برآءت کا اظہار کیا ہے بلکہ اس سے تمام انسانوں نے اگرچہ وہ مسلمان نہ بھی ہوں انہوں نے بھی اس سے برآءت کا اظہار کیا ہے۔۔۔ اگر ان لوگوں نے اس طرح کی فلم بنا کرکے اور اسے رواج دے کرکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا ہے تو پھر ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھـ اچھی طرح سے پیش آئیں اور آپ کی اتباع کریں، آپ کے نقش قدم پر چلیں اور آپ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں۔۔۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قاصدوں کے قتل سے منع فرمایا ہے یعنی سفـراء، کونسل خانہ کے ذمہ داران اور ان کی فیملیوں کو یہاں تک کہ جنگ کی حالت میں بھی انہیں قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔۔۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے بادشاہ یمن کے اس سفیر سے جس نے آپ کی شان میں دریدہ دہنی و گستاخی کی فرمایا: "اگر قاصدوں یعنی سفراء کو قتل نہ کیا جاتا تو میں تم دونوں کو قتل کردیتا" اس عظیم اصول کو جاگزیں کرنے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بذات خود اپنایا، اسلام نے بھی اسی کو سراہا اور نیا عالمی قانون بھی اسی کی تائید کرتا ہے کہ سفراء، کونسل اور سفارتی عملہ کے اعضاء کو قانونی حمایت عطا کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرنا چاہيئے۔
کسی بھی سرزد ہونے والے اندوہناک واقعات کے پس پردہ ہم سفارت خانوں پر ہجوم کرکے شرعی طور پر غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں اور حکمت عملی میں خطروں کا سامنا کرتے ہیں۔۔۔ ہم اس وقت یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہماری شریعت ہمیں کس چیز کا حکم دیتی ہے اور کیا چیز ہمارے ملک کے لئے کارآمد و مفید ہے۔ کیا اہل مراکش ہم لوگوں سے زیادہ مہذب یافتہ ہیں جنہوں نے پرسکون انداز میں امریکی سفارت خانہ کے پاس مظاہرہ کیا اور پھر وہیں ان لوگوں نے نماز کے لئے اقامت کہی اور ایسے مہذب و مثقف انداز میں نماز ادا کی جو شریعت اسلامیہ کے شایان شان بھی ہے اور اس کے ساتھـ ہی ساتھـ ان کے ملکی حکمت عملی کے حق میں بہتر بھی ہے، ان کے حکمراں طبقہ کو سیاسی اسٹراٹیجک پریشانیوں کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔۔۔ اسی طرح سے ایک ہی وطن کے باشندوں میں چاہے وہ پولس ہوں یا مظاہرہ کرنے والی عوام ان میں باہم ٹکراؤ بھی نہیں ہوا۔ بےشک وہ اسلام کی عظمت ہی ہے جس نے بشری قانون سے چودہ صدی پیشتر ہی سزا کے وجود کو تسلیم کیا۔۔۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے (أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى* وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى)، (کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھـ نہ اٹھائے گا، اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)۔ ہمیں چاہيئے کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلھ سلم کی اتباع کریں لیکن اس کے ساتھـ ہی ہم اخلاق اور دیگر تعلیمات کو بالائے طاق نہ رکھیں۔۔۔ کسی پر ظلم نہ کریں۔۔۔ یا ایسے شخص کو اپنا نشانہ نہ بنائیں جس نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔۔۔ اپنے ہی وطن کو اپنے ہاتھوں برباد نہ کریں۔۔۔ پولس والوں کےساتھـ نہ ٹکرائیں۔۔۔ نہ ہی تنظیم القاعدہ کا گیت گائیں اور نہ ان کا جھنڈا بلند کریں۔۔۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تنظیم القاعدہ یا ان کے ان بم بلاسٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے جو عام طور پر شہریوں کو اپنا نشانہ بناتی تھی، دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے علاوہ عام شہریوں میں سے ہزاروں مسلمانوں کو بھی قتل کیا۔۔۔ جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام تر غزاوات میں یہی نعرہ لگایا "کسی بچے کو نہیں قتل کرنا، نہ ہی کسی عورت کو، نہ ہی کسی نوزائدہ بچے کو، نہ ہی کسی بڑے بوڑھے کو اور نہ ہی کسی عبادت خانہ میں کسی عبادت گزار کو قتل کرنا"۔ بلاشبہ ذہنی طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تنظیم القاعدہ کے درمیان باہم ربط پیدا کرنا بذات خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی رحم و کرم پر مبنی رسالت کو نقصان پہنچانا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے (وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ) (اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے)۔۔۔ تمام جہان میں حملہ کرنے والا نہیں۔ حقیقت میں اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم لوگ ڈرامائی اسلحہ کا اسی اسلحہ سے سامنا کریں۔۔۔ اور "رسالت" پر مبنی ایک عظیم فلم بنانے کا تجربہ کریں۔۔۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کا دفاع کرنے کے لئے دسیوں زبانوں میں بہت ہی مؤثر فلم بنانے کے لئے امکانیات پیدا کریں۔۔۔ اور گستاخی پر مبنی فلموں کا سامنا کرنے کے لئے ایک نیا اسلوب اپنائیں، مثال کے طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کا تعارف کرانے کے لئے نیویارک اور ان کے بڑے بڑے شہروں میں کانفرنس کا انعقاد کریں۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کا دفاع کرنے کے لئے یورپی ممالک میں ایسا قوی اور مضبوط قدم اٹھایا جائے جو دعوتی و تربیتی اصلاح کے تمام تر پہلوؤں کو شامل ہو اور اس کے ساتھـ ہی گستاخی کرنے والوں کی قانونی گرفت بھی کی جائے۔ دشمنان دین کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں نئے افکار و خیالات کی بھی ضرورت ہے جو ان پرانے افکار و خیالات سے مختلف ہوں جو صرف مظاہروں، خطبوں اور دروس میں منحصر ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع کرنے کا سب سے اہم اور ضروری عنصر یہ ہے کہ چھوٹے بڑے غرضیکہ ہرہر چیز میں آپ کی اتباع کریں اور دوسروں کے سامنے معتدل انداز میں اسلام کا نمونہ پیش کریں۔۔۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کا یقین کرلیں کہ اللہ رب العالمین اپنے رسول کی ہر حال میں حمایت کرے گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں بھی اور آپ کی وفات کے بعد بھی اور آپ کو اللہ رب العالمین آپ کی زندگی اور آپ کے وفات کے بعد بھی گستاخی کرنے والوں کی گندگی سے پاک و صاف رکھے گا جیسا کہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے (إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ)، (آپ سے جو لوگ مسخراپن کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں)۔ هل نحن ننصر الرسول حقا؟ UR
موجودہ قضيے -
|