|
موجودہ صورت حال اور امیدوں کے مابین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع بقلم: سعید الخمیس۔۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع کرنا اس روئے زمین پر ہرمسلمان کے لئے باعث شرف ہے۔۔۔ لیکن آپ کی ذات مبارکہ سے دفاع کس طرح سے کیا جائے؟!! بےشک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع سفارتخانوں پر بمباری کرکے نہیں کی جاتی۔۔۔ نہ ہی ان معصوم سفیروں کو قتل کرکے کیا جاتا جنہوں نے نہ تو کوئی گناہ کیا ہے اور نہ ہی کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس شخص نے کسی آدمی کو امن و امان بخشا اور پھر اسے قتل کردیا تو میں ایسے شخص سے بَری ہوں اگرچہ جس آدمی کو قتل کیا گیا ہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو"۔۔۔!! یہ کیسی عظمت ہے؟۔۔۔ یہ کیسا وقار ہے؟۔۔۔ یہ کون سی ثقافت ہے؟۔۔۔ یہ کون سا دین ہے؟۔۔۔ یہ کیسا اخلاق ہے؟۔۔۔ بےشک یہ نبوت ہی ہے جس کے اخلاق کا معیار اتنا بلند و بالا ہے جو کافر کے ساتھـ بھی خیانت کرنے سے انکار کرتا ہے۔۔۔!! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ سے دفاع گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے سے اول فول بکنے سے یا فضائیات میں ہنگامہ کرنے سے نہیں ہوتا۔۔۔! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات عالیہ سے دفاع یہ صرف کہہ کر اور وقتی طور پر عبارتیں لکھـ کر نہیں کیا جاتا، اللہ رب العالمین نیت کی حقیقت کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع یہ صرف جوش و جذبہ سے، بھرپور نعروں سے، منبروں پر خطبہ دینے سے، آتش باز مظاہروں سے اور احتجاجی دھرنوں سے نہیں کیا جاتا!! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے دفاع اپنے رخساروں پر طمانچہ مار کر، اپنا گریبان پھاڑ کر اور آپسی سرحدوں کو بند کرکے نہیں کیا جاتا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع یہ ایسے ہلاک کرنے والی فائرنگ سے نہیں ہوتا جس کی مدت صلاحیت ختم ہوچکی ہو، اس طرح مذمت کرنے سے بھی کچھـ نہیں ہوتا جس کی کوئی وقعت نہ ہو! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع گھوڑا بیچ کر سونے سے نہیں ہوتا جبکہ دوسری جانب پوری امت کا زخم ناسور بنتا جا رہا ہے!۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع اس کی شریعت پر عمل کرکے کیا جاتا ہے۔۔۔ اس کی رسالت کا احترام کرکے کیا جاتا ہے۔۔۔ اس کی سنت کو نافذ کرکے کیا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع دین اسلام سے بحیثیت شریعت، عقیدہ، دین، ملک، قول و عمل سے حقیقی طور پر دفاع کیا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسل کی ذات سے دفاع ہر اس قسم کے نظریات اور آئیڈیالوجی کی مخالفت کرکے کیا جاتا ہے جو اسلامی اصول و ضوابط کے خلاف ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع اس فاسد مجموعہ کا پردہ فاش کرکے کیا جاتا جس نے ایک اداکارہ کی دفاع میں تو زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے لیکن نبیوں کے سردار(محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دفاع میں ان کی زبانوں پر تالا لگ گیا۔۔۔ بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی سے ان کے دلوں کو کافی اطمینان و سکون پہنچا!! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع باہم اتفاق و اتحاد کرکے اور ان لوگوں کے خلاف صف بستہ ہوکرکے کیا جاتا ہے جو پورے ملک کو سیکولر رنگ میں رنگنے کے لئے، پورے ملک سے اسلام کو نکال کر ظلمت کے تاریک گڑھے میں گرانے کے لئے اور پہلے جیسی جہالت میں ڈھکیلنے کے لئے اپنی جان و مال کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے!! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع بایں طور سے کیا جاتا ہے کہ ہم ان لوگوں کا پردہ فاش کریں جو دشمن اسلام ہیں، اسلام سے نفرت کرتے ہیں، اسلام کی شبیہ مسخ کرتے ہیں، جن کے دلوں میں بغض و عناد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے تاکہ ان کی بھی حقیقت کھل کر سامنے آئے، ان کی نیتوں کا پتہ چلے، اور سارے جہاں کے سامنے ان کا پلان روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع اس طرح سے کیا جائے کہ جو اس طرح کا اول فول لکھنے والے کرائے کے ٹـٹــّـو ہیں، دوسروں کے اشاروں پر چھاپنے والے جو میگزین ہیں اور لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے والی جو فضائیات ہیں ان کی حقیقت آشکارا کی جائے اور سارے لوگوں کو ان کی حقیقت بتلائی جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دفاع اس طرح کیا جائے کہ ہمارا جینا فی سبیل اللہ ہو۔۔۔ کیونکہ اللہ کے راستے میں اپنی جان دینا یہ اللہ کے راستے میں جینے سے کہیں زیادہ سہل اور آسان ہے! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع اس طرح سے کیا جائے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ دین اسلام ایک ایسا شامل دین ہے جو زندگی کے تمام گوشوں کو شامل ہے۔۔۔ کیونکہ وہ دین ہے، ملک ہے، شریعت ہے اور عقیدہ بھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع اس طرح سے کیا جائے ہم جو کھائیں ہم بذات خود اس کی کاشت کریں، جن دواؤں کی ہمیں ضرورت ہے ہم وہ دوائیں خود بنائیں اور اپنے ملک کی حفاظت کرنے کے لئے جس قدر غذاء، علاج اور اسلحہ کی ضرورت ہے ہم خود اس کے مالک ہوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع اس طرح سے کیا جائے کہ ہمارے پاس بھی ایسی فوج ہو جس کی ابتداء ہمارے پاس سے ہو اور انتہاء ان لوگوں کے پاس جا کرکے ہو جو سیدالمرسلین کی شان میں گستاخی کرتے ہیں تاکہ اللہ رب العالمین کا یہ قول ہمارے اوپر صادق آئے۔ ارشاد باری تعالی ہے: (وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ)، (تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی، کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھـ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے دفاع کرنے کا مطلب ہے کہ جس قلم سے لکھتے ہیں، جس کاغذ پر لکھتے ہیں، جس پٹری سے لائن کھینچتے ہیں، جس مصلّی پر نماز پڑھتے ہیں، جس تسبیح کے دانوں سے سبحان اللہ پڑھتے ہیں، جو کپڑا پہنتے ہیں، جس کتاب میں پڑھتے ہیں وغیرہ وغیرہ یہ سب ہم بذات خود تیار کریں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم دوسروں کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں، دوسروں کی محنت و مشقت سے ہم لطف اندوز ہو رہے ہیں۔۔۔ ہماری غیرت کہاں گئی؟!! ہمارا جوش کہاں ہے؟۔۔۔ ہماری شرم و حیاء کہاں ہے؟۔۔۔ ہماری عقل کہاں ہے؟۔۔۔ ہماری سمجھـ بوجھـ کہاں ہے؟۔۔۔ ہماری رگوں میں اسلام کا جذبہ کہاں ہے؟۔۔۔ ہمارے خون میں اسلامی حمیت کہاں ہے؟۔۔۔ ہماری زندگی میں اسلام کی عزت کہاں ہے؟۔۔۔ اسلام ہمیں آواز دے رہا ہے کہ محنت کرو، کوشش کرو، اہل کہف کی طرح نہ ہوجاؤ جنہیں دیکھـ کر یہ گمان ہوتا کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ تو سو رہے ہیں! ہم بہت سوچکے!! سب سے اہم بات یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت و مدد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نعرہ بازی کریں، مختلف قسم کا شعار اپنائیں، امیدیں کریں، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اعلانیہ طور پر اور چپکے چپکے بھی ہمہ وقت اطاعت و فرمانبرداری کریں اور سچے دل سے اخلاص کے ساتھـ عمل پیرا ہوں۔ گستاخی کرنے والوں سے ہم کہتے ہیں: جس کی سرکشی بڑھ گئی اس کی سلطنت بھی ختم ہوجائے گی۔۔۔ تمہارے زوال کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔ تمہاری تباہی وبربادی کے بادل منڈلا رہے ہیں، ارشاد باری تعالی ہے: (وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ)، (اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں)۔ الدفاعُ عن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) بين الأمنيات والواقع UR
موجودہ قضيے -
|