|
مبلغین اور سیاستداں۔۔۔ ایک موازنہ بقلم: ڈاکٹر/ناجح ابراہیم۔۔ مبلغین اللہ رب العالمین کی جانب دعوت دینے والے اور الفت و محبت کے قاصد ہوتے ہیں، زندگی کو سنوارنے والے ہوتے ہیں، راہ حق کی رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں اور یہی مبلغین حق کا پیغام مخلوق تک پہنچاتے ہیں۔ رہے سیاستداں تو یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی سیاسی عہدے پر فائز ہوتے ہیں تاکہ عدل وانصاف اور حق کے ساتھ امت کی قیادت کریں اور رعایا کو برابری کا درجہ دیں۔۔۔ مشکل یہ ہے کہ اقتدار کی کرسیوں پر شیطان بھی ہوتا ہے جو ہر اس شخص کے لئے ظاہر ہوتا ہے جو اس اقتدار کی کرسی پر بیٹھتا ہے، کرسی پر بیٹھنے والے کا نظریہ جیسا بھی ہو، تاکہ وہ شیطان اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والے شخص کے اندر موجود اچھائیوں کا صفایا کردے اور جو اس کے اندر منفی پہلو پائے جاتے ہیں انہیں اجاگر کردے۔۔۔ خاص طور پر یہ اسوقت بالکل واضح طور پر عیاں ہوجاتا ہے جب اس اقتدار کی کرسی کو حاصل کرنے کے کئی لوگ کوشش کر رہے ہوں یا کرسی حاصل ہوجانے کے بعد دوسرے لوگ اس سے یہ اقتدار کی کرسی چھیننے کی کوشش کررہے ہوں۔
مبغلین اور سیاستداں دونوں سے بےنیازی نہیں ہوسکتی۔۔۔ لیکن یہاں دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔۔۔ کیونکہ ایک مبلغ عام طور پر اپنے پروردگار کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے اور اللہ رب العالمین ہی کی خواہش کرتا ہے۔۔۔ جبکہ اس کے برخلاف ایک سیاسی آدمی تو اس کی نگاہیں ہمہ وقت اقتدار کی کرسی پر ٹکی ہوئی ہوتی ہیں۔۔۔ ایک مبلغ تمام لوگوں کو اپنے رب کی جانب لےجانا چاہتا ہے جبکہ ایک سیاسی آدمی تمام لوگوں کو اپنے آپ کی طرف یا اپنی پارٹی کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔۔۔ اگر کوئی شخص اس سیاسی کی امداد و تعاون کرنے سے باز رہے یا اس کی پارٹی میں شامل ہونے سے باز رہے تو وہ سیاسی شخص اس سے برہم ہوجاتا ہے۔ حقیقت میں ایک مبلغ رب کائنات کی صفات سے متاثر ہوکر زندگی گزارتا ہے، لہذا وہ داد و دہش کرتا ہے، جو شخص اس سے محبت کرتا ہے اور جو اس سے محبت نہیں کرتا، جو اس کے ساتھ ہے اور جو اس کے ساتھ نہیں ہے، جو اس کے طورطریقے کے مطابق چلتا ہے یا جو اس سے اختلاف رکھتا ہے وہ ہر ایک کو اپنے گلے لگاتا ہے۔۔۔ کیونکہ جو شخص اللہ رب العالمین محبت کرتا ہے اللہ رب العالمین اسے بھی نوازتا ہے اور جو شخص اس سے محبت نہیں بھی کرتا ہے اللہ رب العالمین اسے بھی نوازتا ہے۔۔۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور جو شخص اس پر ایمان نہیں بھی لاتا، بسا اوقات جو شخص کفر کا مرتکب ہوتا ہے ایک ایمان لانے والے شخص سے بھی زیادہ کشادگی کے ساتھ اسے نوازتا ہے۔۔۔ بےشک اللہ رب العالمین کی جانب سے یہ دنیا میں نوازش ہے، لہذا باپ، ماں اور مبلغ سب کے سب رب العلمین کی اسی نوازش کی روشنی میں ہی وہ بھی عمل کرتے ہیں کیونکہ وہ بغیر کسی احسان کے، بغیر کسی تکلیف کے اور بغیر کسی عوض کے دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف آخرت میں جو کچھ عنایت کیا جائے گا تو اللہ رب العالمین صرف اسی کو دے گا جسے وہ چاہے گا، یہ رب کائنات کا عطیہ ہے۔ اس کے برخلاف ایک سیاستداں یا وہ شخص جو کسی پارٹی سے منسلک اور وابستہ ہے تو ایسا شخص صرف اسی کو دیتا ہے جو اس کے ساتھ ہے اور اسی شخص کو قبول کرتا ہے جو اسی کا گن گاتا ہے اور اسی کی تائید کرتا ہے۔۔۔ ایک مبلغ حقیقت میں اسلام کے اردگرد ہی چکر لگاتا ہے، قرآن کریم کے سائے میں ہی رہتا ہے اس سے کبھی روگردانی نہیں کرتا ہے، شریعت اسے جہاں بھی لے جانا چاہے وہ اس کے پیچھے پيچھے چلتا ہے۔ اس کے برخلاف سیاسی آدمی تو وہ اقتدار کی کرسی کے ارد گرد چکر لگاتا ہے اور اسی کرسی کے ساتھ ہی ساتھ گھومتا رہتا ہے۔۔۔ اگر فلاں کے ساتھ ہے تو اس کے پیچھے ہولیتا ہے اور جب اقتدار کی کرسی اس سے ختم ہوکر دوسروں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے تو وہ بھی دوسروں کے ساتھ ہولیتا ہے۔ ایک مبلغ حقیقت میں اپنے پروردگار سے محبت کرتا ہے، اسی سے لو لگاتا ہے اور اسے ہرچیز پر ترجیح دیتا ہے۔۔۔ جبکہ ایک سیاسی آدمی عام طور پر اقتدار کی کرسی سے محبت کرتا ہے اور اسی (کرسی) کو ہر چیز پر فوقیت دیتا ہے۔۔۔ ایک مبلغ اپنے رب کی خاطر اپنی دنیا کو قربان کرتا ہے جبکہ ایک سیاسی آدمی اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کے لئے سب کچھ بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ ایک مبلغ کا ہمہ وقت نعرہ ہوتا ہے "اے میرے پروردگار! اے میرے پروردگار!" اور "میری امت، میری امت"۔۔۔ جبکہ ایک سیاسی عام طور پر یہی کہتا پھرتا ہے "میں ۔۔۔ میں" ۔۔۔ میں دوسروں سے افضل ہوں۔۔۔ میں دوسروں سے زیادہ قوی اور طاقتور ہوں۔۔۔ مجھے ووٹ دو، میرے سوا کسی دوسرے کو ووٹ نہ دو۔۔۔، مبلغ دین کے لئے دوڑتا ہے، سیاسی اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے لئے دوڑتا ہے۔ حق و باطل کے تئیں مبلغ کا قول صرف اور صرف ایک ہی ہوتا ہے اور ہمیشہ اس کے نزدیک (1+1=2) ہی ہوتا ہے۔۔۔ جبکہ ایک سیاسی کے نزدیک سیکڑوں قول اور ہزاروں رائے ہوتی ہے۔۔۔ اور اس کے نزدیک (1+1=100 یا 0) سب صحیح ہوسکتا ہے۔۔۔ اس میں اس کے نزدیک کوئی غلط نہیں ہے۔ مبلغ کا ایک ہی رخ ہوتا ہے، جب وہ وعدہ کرتا ہے تو وہ اسے پورا بھی کرتا ہے، اس کے برخلاف ایک سیاسی آدمی تو وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے، اس کے اندر سیاست کے سارے داؤ پیچ پائے جاتے ہیں، لہذا اس کے وعدے کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی پاس و لحاظ ہوتا ہے کیونکہ اگر اس وعدے کو پورا کرنے میں اسے کوئی نقصان لاحق ہوسکتا ہے یا اسے اقتدار کی کرسی حاصل کرنے میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے یا اسے کرسی حاصل کرنے سے باز رکھ سکتا ہے تو پھر اس نے جو بھی وعدہ کیا ہے اس کا اپنے ہی کئے ہوئے وعدوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔۔۔ نہ ہی اسے وعدہ خلافی کرنے میں کوئی شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اس وعدہ خلافی کو گناہ شمار کرتا ہے۔۔۔ بلکہ اس کے برعکس وہ اس عدہ خلافی کو اپنی ذہانت، دور اندیشی اور سیاست سمجھتا ہے۔ ایک مبلغ وہی باتیں کہتا ہے جس کا وہ اعتقاد رکھتا ہے۔۔۔ ایک سیاسی آدمی وہ باتیں کہتا ہے جو سیاسی طور پر اس کے مفاد میں ہوتی ہے، ایک مبلغ معاشرہ میں موجود ہر درجہ کے لوگوں سے فون پر باتیں کرتا ہے یعنی وہ فقیر، مسکین اور یتیم ہر ایک کی جانب اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے اور ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ یکساں سلوک و برتاؤ کرتا ہے۔۔۔ لیکن ایک سیاسی آدمی ایسا صرف الیکشن کے دنوں میں کرتا ہے اور الیکشن ختم ہونے کے بعد وہ پہلی فرصت میں جلدی سے اپنا فون نمبر تبدیل کرتا ہے کیوکہ اب اسے صرف منصب، جاہ و جلال اور اغنیاء طبقہ سے مطلب ہے۔۔۔ رہے فقراء اور عام رعایا تو اب اسے ان سب کی ضروت نہیں ہے۔ مبلغ اگر ایک بار جھوٹ بولے تو وہ لوگوں کی نگاہوں میں گر جاتا ہے۔۔۔ لیکن ایک سیاسی شخص تو وہ عام طور پر ہمہ وقت بغیر کسی شرم و حیا کے جھوٹ ہی بولتا رہتا ہے۔۔۔ اور عام طور پر جھوٹ بولنے کے لئے پہلے سے ہی اس کے پاس کوئی جواز موجود رہتا ہے۔۔۔ اس میں عجیب و غریب بات یہ ہے کہ اس طرح جھوٹ بولنے کا جواز اس کے ان مؤیدین اور چاہنے والوں میں بھی سرایت کرجاتا ہے جو دوسروں کے حق میں اس کی جھوٹ کو گوارہ بھی کرلیتے ہیں۔ میں آخر میں یہ امید بھی کرتا ہوں کہ داعی و مبلغ حضرات اس پر اترائیں نہیں اور سیاستدانوں سے امید کرتا ہوں کہ وہ لوگ نالاں بھی نہ ہوں۔۔۔ کیونکہ میں ہر ایک کے بارے میں یہ نہیں کہتا لیکن اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہوا کرتی ہے۔
موجودہ قضيے -
|