|
گيارہ ستمبر کا سانحہ۔۔۔ شرعی نظریہ اور عینی مشاہدہ ڈاکٹر/ ناجح ابراھیم کے قلم سے۔۔ روز مرہ کے ان حالات میں گيارہ ستمبر کا سانحہ در حقيقت موجودہ تاريخ ميں ايک فرق کرنے والي علامت بن گيا ہے، جہاں سے ايک نۓ فکر کا آغاز ہوتا ہے۔
چنانچہ اس حادثے سے ايسا محسوس ہو رہا تھا کہ عالمى تجارتى منڈی کے دو ٹاور ہي نہيں بلکہ پورى دنيا ہي دھنس گئي ہو، جس نے پورى دنيا کو ہلا کر رکھـ ديا، اور يہ ايک ايسا حادثہ پيش آيا، جو تاريخ کے وہم وگمان سے بھي باہر تھا، بلکہ يہ تو تاريخ کا ايک انوکھا واقعہ تھا، يہ سانحہ اچانک بڑے برے اسباب کے ساتھـ رو نما ہوا جس نے پورے عالم اسلامى اور عالم عربى کو دشواریوں کا سامنا کرنے کے لیۓ چھوڑ ديا، ايسے کمينے شرير امريکيوں کے سامنے جو اسلحوں سے پورى طرح لیس تھے اور عالم عربى، عالم اسلامى اسی طرح اسلامی تحریکوں کو ايسا محسوس ہو رہا تھا گويا کہ وہ لڑائى کے ميدان ميں ہوں، حالانکہ انہيں اس کا وہم وگمان بھي نہ تھا اور وہ اس کے لئے تیار بھی نہ تھے بلکہ وہ تو اس کو سونچنے سے بھى قاصر تھے۔
چنانچہ اس سانحہ نے صرف امريکیوں کو ہي نہيں برباد کيا بلکہ اس سے زيادہ ہميں برباد کيا ان کے دو ٹاور کے بدلے ہمارے دو (ٹاور) ملک عراق اور افغانستان برباد ہوگۓ۔
اس حادثے کے متعلق ايک مشھور امريکي مؤرخ پول کينڈی کا خیال ہے کہ يہ تو اکيسوي صدى کى پہلى شروعات ہے لہذا ہميں يہيں ٹھہر کر اس پر ايک نظر ڈالنا چاہۓ۔
عام شہريوں کے قتل کا حکم
اسلامي جماعتوں نے چاہا کہ اس بڑے محاذ کے ساتھـ ان کي کوئى شموليت نہ ہو جو فروري 1998ء ميں (الجبہہ العالميہ لقتال الامريكيين والیہود) کے نام سے وجود ميں آئى تھى اپنے اس ايمان کے ساتھـ کہ کسي شخص کو نشانہ بنانا، اور اس کى شہریت کى وجہ سے اسے قتل کرنا خواہ مرد ہو يا عورت شہرى ہو يا فوجي حرام ہے، چنانچہ اسلام عام شہريوں کے قتل کو حرام قرار ديتا ہے، اسی لۓ اسلامى تلوار کے بھی کچھـ حدود و آداب ہيں اور اس کے افواج کا ايک معيار ہے اور اسلامی دستور کے قتال میں کسی طرح کا کوئی ظلم اور طغیانی نہیں ہے۔
پچھم سے پورب تک عظيم فتوحات سے اسلامى تاريخ بھرى ہوئی ہے، ليکن آج تک ہم نے کبھى يہ نہيں سنا کہ (مسلم) فوجیوں نے کسي عام آدمى کو قتل کیا ہو۔ چنانچہ اسلامى افواج نے اپنے صحيح دين کے قوانين کے مطابق کبھى کسى سے جنگ نہيں کيا، سواۓ اس کے کہ کوئى خود ہى جنگ کے لۓ آمادہ ہو جاۓ۔ چنانچہ اسلام تو رحمت والا دين ہے اور جنگ کرنا تواصل ميں ہمارے مذہب ميں شرعا حرام ہے، مگر اس کو ايک بڑی مصلحت کے خاطر جائز قرار ديا جاتا ہے اور وہ دين کی حفاظت اور سرکشی کے جواب ميں انجام پاتا ہے۔ اور جب تک حالات سازگارہوں تلوار کو ميان ميں رکھـ کر حکمت کے ساتھـ اللہ کي طرف دعوت ديتا ہے۔ مگر جنگ کی حالت ميں اسلامی دستور کا سب سے اہم اصول يہ ہے کہ:
عورتوں، بچوں، بوڑھوں، کسانوں، تاجروں، راہبوں، اندھوں، دائمی مریضوں اور ان کے علاوہ وہ سارے لوگ جنہوں نے مسلمانوں سے قتال نہیں کیا ان تمام لوگوں کے ساتھـ قتال کرنا حرام ہے۔ اور اس سلسلے ميں بہت ساری دليليں احاديث نبويۃ علماء کرام کے اقوال موجود ہيں، حتی کہ امام نووى رح نے علماء کرام کااس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ عورتوں اور بچوں کا قتل کرنا حرام ہے جب تک کہ وہ خود قتال کے لئے تيار نہ ہوجائيں، اور يہ بات بہت معروف ہے کہ تجارتی مرکز کے دونوں ٹاوروں کے ساتھـ ساتھـ اغوا کئے گئے جہازوں میں عورتوں، بچوں، تاجروں، عام شہریوں، بیماروں، اور۔۔۔، اور۔۔۔، بلکہ (ان کے علاوہ) مسلمانوں کي بھی ايک بڑی جماعت شامل تھی۔
مقصد وسيلے کو جائز قرار نہيں ديتا
مسلمانوں کے امریکی سیاست کی نا پسندیدگی کے احساس کی ہم قدر کرتے ہیں جواپنی بیرونی سیاست میں دو پيمانوں سے ہي نہيں بلکہ کئي پيمانوں سے ناپتا ہے خاص طور پر جو مشرق وسطی اور مسئلہ فلسطين سے وابستہ ہوتا ہے۔ لہذا اسی وجہ سے اس حادثہ سے عام لوگوں ہی کو نہيں بلکہ خواص کو بھی بڑی خوشی ہوئی ہوگی، ليکن يہ (خوشی) ان کے دين کی وجہ سے نہيں بلکہ امريکہ اور اس کے دوست اسرائيل کے مکر و فريب کي وجہ سے تھی۔ اور ان سب کے باوجود شرعی احکام ايک الگ چيز ہے اور انسانی جذبات دوسری چيز ہے، چنانچہ مسلمانوں کو ہر وہ چیز جودشمنوں کی طرف سے انہیں خوشی پہونچائے، تو مسلمانوں کا یہ عمل اس چیزکے مشروعیت کی دلیل کبھی نہیں ہو سکتی ہے۔
مگر ہاں اگر شریعت نے کسی چيز کى موافقت کى تو يہ ہمارے لۓ سعادت کي بات ہے۔ ورنہ چاہے حالات جيسے بھی ہوں ہم اسے نہيں سراہتے، چنانچہ يہی ہمارا منہج ہے اور ہم اسی کے پيروکار ہيں، اسی وجہ سے مقصد کا جواز وسيلے کے جواز کو بے نياز نہيں کرسکتا، اسي لۓ جس طرح ہم اللہ رب العالمین کي عبادت وسائل کے ذريعے کرتے ہيں اسي طرح ہم اس کي عبادت مقاصد کے ذريعے بھی کرتے ہيں۔ تو ہم "ميکافيللى" کے متبعين ميں سے نہيں ہيں جن کا ماننا ہے کہ مقصد وسيلے کو جائز قرار ديتا ہے، بلکہ ہم تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پيروکار ہيں جنہوں نے ہمارے لۓ کوئی ايسا مقصد يا عظيم ہدف نہيں بتايا جس ميں يہ شرط نہ رکھی کہ يہ شرعی ہو۔
رہا مسئلہ تاريخ کا تو ہم اسے يونہی کيوں چھوڑ بيٹھيں کہ وہ خود ہی دھراۓ بلکہ ہميں چاہيۓ کہ ہم اپنی لکھی تاريخ کا پھر سے مطالعہ کريں۔ بسا اوقات ہم ميں يہ طاقت نہيں ہوتی کہ ہم کچھـ نيا کريں ليکن ہم اس ناکام تجربوں کي لمبی تاريخ سے فائدہ تو اٹھا سکتے ہيں، جو مختلف اوقات ميں مختلف مقامات پر ہوئيں، مثلا جاپان کے ہی تجربے کو لے ليں جو ہمارے ذہن ميں اس حادثے کے بعد بار بار آتی ہے۔ چنانچہ 7 / دسمبر1941ء کو ساڑھے تين سو جنگي جہازوں نے امريکى بحري بيڑے پر حملہ کرديا جو بحری بيڑا بحر الکاہل سے متصل جزيرہ ھاوای کے ھونولولو شہر ميں بيرل ھاربر نامی بندرگاہ پر واقع تھا۔ اور يہ ايک بہت بڑا خسارہ تھا جس ميں دو ہزار تين سو پينتس (2335) فوجی مارے گئے اور(68) اڑسٹھـ شہری جاں بحق ہوۓ اور امريکی بيڑا بھی غرق آب ہوا۔۔۔ اور اس حادثے کا مزيد نفسياتی اثربھی ہوا، جس کا نتيجہ يہ ہوا کہ ان کي عزت پامال ہوئی اور ان کے دلوں ميں رعب و دبدبہ بڑھ گيا۔ اور امريکی عوام ذلت و رسوائی محسوس کرنے لگی۔
حالانکہ چاپان اُس وقت امریکہ سے کوئی لمبی جنگ کے موڈ میں نہیں تھا۔ بلکہ اس کا مقصد بحر الکاہل میں امریکی قلعے پر ایک ایسا کاری ضرب پہونچانا مقصود تھا کہ جس کے نتیجہ میں امریکہ مشرقی جنوبی ایشیاء کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائے اور چین کی مدد سے باز آجائے۔
اور جاپان کا یہ خیال تھا کہ امریکہ دو محاذوں پر کبھی نہیں لڑے گا لیکن اس جنگ نے جاپانیوں کی غلطی کو ثابت کر دیا جس وقت امریکہ نے جوابی کاروائی کی اور جاپان کو بڑی بُری طرح پیٹا جو نہایت ہی سخت تھا۔ چنانچہ امریکہ نے ایٹم بم کا استعمال کیا اور ہیروشیما اور ناگاساکی کو تہس نہس کر دیا۔ اور جاپان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، جو بہت مشہور ہے۔ تو کیا جاپانی یلغار نے امریکہ کو اس کی بلندی سے اٹھا کر پستی میں پہونچادیا؟ اور ایک عظیم سلطنت کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ؟۔ تو کیا ہمیں اس سے کچھـ عبرت ملی؟!!
اور اس کے علاوہ دوسرا واقعہ جس کو شیخ اسامہ بن لادن نے اچھی طرح نہیں پڑھا جو تاتار کے ساتھـ خوارزم شاہ کا حشر ہوا۔ یہاں ہم اس واقعے کو طول نہیں دینا چاہتے، تاریخ کی بیشتر کتابوں میں یہ قصہ مذکور ہے لیکن یہاں ہمارا مقصد یہ ہے کہ جس وقت خوارزم شاہ نے ان تاجروں کے قتل کے معاملے میں جو بلاد عربیہ سے آئے تھے توجہ نہیں دیا بلکہ ان پیغامبروں کے قتل کے سلسلے میں بھی جن کو چنگیز خان نے ان تاجروں کے قتل کا بدلہ لینے کے سلسلے میں بھیجا تھا خیال نہیں کیا چنانچہ نتیجہ کیا ہوا؟ تاتاریوں نے اسلامی ممالک پر چڑھائی شروع کر دی، ما وراء النہر سے لے کر مصر و شام کے قریب قریب تک قتل کرتے ہوئے، ظلم ڈھاتے ہوئے، برباد کرتے ہوئے، آگ سے جلاتے اور مارتے ہوئے پہونچے۔ حتی کہ جب ابن کثیررحمہ اللہ نے اس ہولناکی کو بیان کیا تو فرمایا کہ اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ دنیا میں جب سے اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کی ہے اب تک انسانیت کبھی اتنی نہیں آزمائی گئی تو یہ سچ ہوگا، گویا ایسا واقعہ تاریخ میں بھی نہ گزرا ہوا ہوگا۔ اور رہتی دنیا تک شاید پوری انسانیت اس طرح کی مثال کبھی نہ دیکھے یہاں تک کہ دنیا ختم ہو جائے، اور یاجوج ماجوج کے سوا کچھـ نہ بچے۔
گیارہ ستمبر کے حادثے کے سیاسی اور ثقافتی اثرات
عالم اسلام کی سوسائٹی پر گیارہ ستمبر کے حادثے کے تلخ اثرات میں سے وہ جعلی حقیقت بھی ہے جس کو امریکہ نے عالمی برادری پر اس حقیقت کے ساتھـ پیش کیا کہ وہ دہشت گردی کا تعاقب کرے گا، جو فوجی کاروائی ہی تک منحصر نہیں رہا بلکہ اس سے بھی آگے سیاسی اور ثقافتی دخل اندازی تک پہونچ گیا۔۔۔ جس کا مقصد:
(1) ایسے حامی سیاسی نظام کو قائم کرنا جس کے ذریعے تمام اہداف پورے ہوں اور مصلحتوں کی حمایت ہو جیسا کہ عراق اور افغانستان میں ہوا۔
(2) دوسرا جو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے وہ ثقافتی اور تعلیمی معاملے میں دخل اندازی ہے، جس کا مقصد آنے والی پوری اسلامی اور عربی نسل کو بدل دینا ہے، جس کی واضح مثال پاکستان میں جو ہوا وہ دیکھـ لیں امریکہ نے پاکستان سے چند مطالبات کئے جن میں مثال کے طور پر:
1 - مختلف مراحل میں طلباء کے نصاب میں دین اسلام کے منہج میں تبدیلی کی جائے اور چند خاص بنیادی چیزوں پر زور دیا جائے اور خصوصا جہاد کے موضوعات کو مہمل قرار دیا جائے۔
2 - سیاسی اورعام انسانی چھاپ والے دوسرے نواحی سے چشم پوشی کرتے ہوئے عبادتوں کی جانب دھیان دیا جائے۔
3 – دینی مقررات کی تعلیم میں گھنٹوں کی تعداد 2٪ فیصد کم کیا جائے۔
4 – کشمیر کے مسئلے کو تاریخ کے نصاب سے نکال دیا جائے۔
یہ وہ چند مثالیں ہیں جو ظاہر تھیں، اور جو پوشیدہ رہ گئیں ہیں وہ اور بھی زیادہ سنگین ہیں۔
چنانچہ یہ ساری سیاستیں اور سارے مقاصد گیارہ ستمبر کے سانحہ سے پہلے بھی موجود تھیں، لیکن یہ اس کے بعد میں اور بھی زیادہ صراحت کے ساتھـ کھل کرسامنے آگئیں۔
اسلام اور مسلمانوں کی مصلحتوں اور ایجابی پہلؤں کے لئے اس سانحہ نے کون سا بڑا کارنامہ انجام دیدیا ؟!! کیا ہم اس سانحہ کی وجہ سے مرتب ہونے والے تلخ تجربے کو سمجھنے کی طاقت رکھتے ہیں؟! جبکہ ہم ابھی تک اس کی وجہ سے افغانستان اور عراق پر (امریکی) قبضہ کے بعد بھی اس سے پریشان ہیں!!۔
اس حادثے کے تلخ اسباق میں سے ایک سبق افغانستان اور طالبان کا بھی ہے۔۔۔ پوری طرح اسلام کی تطبیق کرنے کے باوجود بھی طالبان کیوں شکست کھاگئے؟! اور طالبان نے تنظیم القاعدہ کو اپنی زمین میں اس طرح کی کاروائی کرنے کے لئے اس کے انجام کی پرواہ کئے بنا آنے کی اجازت کیوں دی؟ اور ملاّ عمر- حفظہ اللہ - نے افغانستان میں طالبان کی طرح کیوں قیادت کی؟ اور ملکوں کی قیادت یا اور جماعتوں کی قیادت میں فرق کیوں نہیں کیا؟!! اور شیخ اسامہ بن لادن نے افغانستان میں ملاّ عمر سے اس عہد کو خود ہی کیوں توڑ دیا کہ وہ سرزمین افغانستان میں یا اس کے آس پاس میں کوئی کاروائی نہیں کریں گے یہاں تک کہ آخری نتیجہ یہ ہوا کہ ان کوایک صدر سے بدل کر اس لائق بنادیا کہ وہ پہاڑوں میں ایک بھگیڑو (آدمی) کی طرح زندگی گزاریں؟!!
کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ عالم اسلام کا ایک ایسے ٹکراؤ سے بچاؤکرتے جس میں لڑائی کرنے کی بالکل سکت ہی نہ تھی اور ایک ابھرنے والے اسلامی ملک کو تباہ و برباد کرنے کے بجائے اس کی حفاظت کرتے؟!!۔
أحداث الحادي عشر من سبتمبر..نظرة شرعية.. ورؤية واقعية UR
موجودہ قضيے -
|