English - عربي
  صفحہ اول ويب سائٹ ہم سے رابطہ زائرين کا ريکارڈ
  فتوے -: روزے دار كا بواسير وغيرہ كے ليے مرہم اور كريم استعمال كرنا - فتوے -: کسی شخص نے فجرکے بعد یہ گمان کرکے کہ ابھی اذان نہیں ہوئی سحری کھا لی اس کا کیا حکم ہے؟۔ - فتوے -: چاند ديكھنے كا حكم - فتوے -: سيكسى سوچ كے نتيجہ ميں منى كا انزال ہونے سے روزہ باطل ہو جائيگا؟۔ - فتوے -: روزے كى حالت ميں ناك كے ليے سپرے استعمال كرنا - نخلستان اسلام -: فصل کاٹنے کا وقت قریب آگیا - نخلستان اسلام -: نجات کی کشتی قریب آگئی -  
ووٹ ديں
مغرب کی اسلام دشمنی کے اسباب میں سے ہے؟
اسلام اور مسلمانوں سے نفرت
صحیح اسلام سے عدم واقفیت
تطبیق اسلام کی صورت میں غیراخلاقی خواہشات پر پابندی
تمام سابقہ اسباب
سابقہ را? عامہ
موجودہ قضيے -

اصلاح کی حقیقت امن وسلامتی کے ساتھـ حکومت دوسرے تک منتقل کرنے میں پنہاں ہے

parlamintبقلم: ڈاکٹر/ ناجح ابراہیم۔۔ گزشتہ صدی کے اسّی کی دہائی کے شروع میں وفد پارٹی کے صدر فؤاد سراج الدین نے سابق صدر جمہوریہ حسنی مبارک کے دورحکومت کے ابتداء میں ان سے ملاقات کی اور ان دونوں کے درمیان مختصر باتیں ہوئیں، اس گفتگو میں سراج الدین نے سابق صدر جمہوریہ حسنی مبارک سے یہ کہا: جناب صدرجمہوریہ! ہم آپ سے صرف اور صرف ایک ہی چیز چاہتے ہیں اگر آپ نے وہ کردیا تو مصر کی تاریخ میں کھلے دروازے سے داخل ہو جائیں گے تو صدر جمہوریہ نے ان سے پوچھا وہ کیا چیز ہے؟ تو (سراج الدین نے) عرض کیا: آپ دستور میں تبدیلی لے آئیں تا کہ صدر جمہوریہ کی مدت ریاست دو مرتبہ سے زیادہ نہ ہونے پائے۔ پھر ان کی یہ ملاقات ایسے ہی گزر گئی اور زمانہ بھی ایسے ہی گزرگیا اور کسی طرح کی کوئی تبدیلی سامنے نہیں آئی، اور ویسے ہی صورت حال جاری رہی جیسے کہ پہلے تھی یہاں تک کہ تیس (30) سال مکمل طور پر گزر گئے اس میں یکے بعد دیگرے غلطیاں اور منفی پہلو سامنے آتے رہے یہاں تک کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد تمام جماعتوں کی طرف سے یہ انقلاب برپا ہوگیا اس گفت وشنید کی کہانی برسوں پہلے ہم نے سنا تھا اور اسی دن ہی میں نے یہ جان لیا تھا کہ مصر اور دیگر تمام عربی واسلامی ممالک میں تن تنہا اور بنیادی طور پر اصلاح کا راز یہ صرف اور صرف ایک ہی چیز میں پنہاں ہے اور وہ ہے مدت صدارت کے لئے زیادہ سے زیادہ مدت کی حد کا تعیین کردینا اور امن وسلامتی کے ساتھـ حکومت دوسروں کے حوالے کردینا اس کے بعد دیگر تمام امور کا نمبر آتا ہے، لیکن جب یہی چیز غائب ہو تو پھر کسی بھی چیز میں اصلاح کی امید نہیں کرنی چاہئے۔ فؤاد سراج الدین یہ بہت ہی ماہر سیاستداں تھے انہوں نے حقیقی ڈیموکریسی کا دور دیکھا اس سے پہلے کہ جولائی سنــہ 1952ء کے انقلاب میں اس ڈیموکریسی کا خاتمہ ہوتا اور اس فرد کے حکم کو درست کیا جاتا جس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والا کوئی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے حکم پر کوئی تنقید کرنے والا ہے۔ پرانے سیاستدانوں کی یہ قسم پچھلے صدی کے ستّر اور اسّی کی دہائی ہی میں ختم ہوگئی، اسی وجہ سے انہوں نے اپنے سیاسی چھٹی حس ہی سے یہ جان لیا تھا کہ بنیادی طور پر مصر کی پریشانی یہ حکومت کے دوسروں تک منتقل کرنے کا فقدان ہونے میں پنہاں ہے۔ اسی وجہ سے میں یہ چاہتا ہوں کہ سابق صدرجمہوریہ حسنی مبارک یہ پہلے وہ شخص ہوجائیں جو اس سنت حسنہ کے کرنے والے بن جائیں۔ اور ان کی حوصلہ افزائی اس بات سے بھی ہوئی کہ انہوں نے سابق صدرجمہوریہ حسنی مبارک کے ابتدائی دور ہی میں یہ بات سنی کہ وہ حکمرانی کے اس منصب پر ایک مرتبہ سے زیادہ دن نہیں رکیں گے۔ لیکن سراج الدین کا یہ خواب چکنا چور ہوکر رہ گیا اور ان کے بعد دیگر سیاستدانوں کے بھی خوابوں پر پانی پھر گیا اور ان کے امیدوں کے یہ سپنے ہمارے اسلامی اور عربی ممالک میں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ بلکہ سارے کے سارے لوگوں پر مایوسی کے بادل منڈلانے لگے جب ان لوگوں نے یہ جان لیا کہ حکومت یہ بطور وراثت جمال مبارک کے حق میں سیدھے حقیقی طورپر منتقل ہونے جارہی ہے اور انہوں نے یہ منزل (حکومت بذریعہ وراثت) حاصل کرنے کے لئے ایک کافی لمبا سفر طے کیا ہے، اور اگر قومی انقلاب نہ برپا ہوا ہوتا تو اب تک قطعی طور پر بذریعہ وراثت (حکومت کی منتقلی) پوری طرح سے ہوجاتی، تا کہ مصر جمہوریت سے بدل کر بادشاہت میں تبدیل ہوجائے۔

جس وقت صدر انور سادات نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھـ میں لی وہ اصلاح کے بہت ہی زیادہ خواہاں تھے اور ہر طرح کے اس منفی پہلو کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے تھے جو ان سے پہلے کے صدر جمال عبد الناصر کے عہدحکومت میں پیدا ہوئیں تھی، اور عملی طور پر مصری دستور میں ردوبدل کیا بھی تا کہ مدت رئاست یہ "دو مرتبہ کی مدت سے زیادہ نہ ہو"، لیکن انہوں نے خود ہی اپنے دور حکومت کے آخری عرصہ میں دستور کا یہ بند دوبارہ تبدیل کردیا اور انہوں نے خود اپنے ہی ہاتھوں اتنے اچھے اصلاح کا گلا گھونٹ دیا جو انہوں نے خود ہی شروع کیا تھا، انہوں نے دوبارہ اس بند کی عبارت کچھـ اس طرح سے تبدیل کی " غیر متعینہ مدت تک کے لئے" اور ایسا دیگر طاقت وقوت والوں کے چڑھانے میں آکرکے کیا کیونکہ کسی منصب کی کرسی پر جب کوئی بیٹھتا ہے تو یہ اس کے لئے بہت ہی فتنہ گر ثابت ہوتی ہے تو پھر اس وقت کا عالم کیا ہوگا جب یہ منصب ملک کا سب سے بڑا منصب ہو اور وہ کرسی تمام کرسیوں پر بھاری اور ان سب کے لئے تاج کی حیثیت رکھتی ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ ہی فرمایا جب آپ نے اس سلسلے میں اپنی حدیث پاک میں فصیح و بلییغ انداز میں ارشاد فرمایا (دودھ پلانے والی کتنی اچھی ہے اور دودھ چھڑانے والی کتنی بری ہے)، (مسند احمد بن حنبل: 10162)۔

درحقیقت مصر اور عرب ممالک کی ساری پریشانی یہ ساری کی ساری صرف اور صرف ایک ہی چیز کے اردگرد منڈلارہی ہے اور وہ ہے حکومت امن وسلامتی کے ساتھـ دوسروں کے حوالے نہ کرنا اور مدت رئاست کی تعیین کا ناپید ہونا، اور اگر یہاں ان ممالک میں حکومت (بآسانی) دوسروں کے حوالے کیا جاتا تو ان کے حالات بھی بہتر سے بہتر ہوجاتے۔ لہذا ہم اپنے ممالک میں ایک صدر کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں پاتے ہیں کیونکہ دوسرے لوگ یا تو اس دارفانی سے کوچ کرچکے ہوتے ہیں یا تو پھر جلاوطن ہوکر اچھی طرح سے عیش کی زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے برخلاف ریاستہائے امریکہ میں تو وہاں پر تقریبا چھـ (6) سابق صدرجمہوریہ بقید حیات ہیں، اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے بعد والے کو حکومت بالکل امن وسلامتی، مکمل احترام، بھرپورتعاون اور جان ودل سے موافق ہوکر سپرد کیا اس کے خلاف اپنے دل میں کسی بھی طرح کا مسوس یا کڑھـ تک محسوس نہیں کیا یا اس کا بھی کوئی خوف نہیں کہ وہ سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیئے جائیں گے، یا حکومت سے دستبردار ہونے کے بعد ان کی فیملی کے ساتھـ کوئی ظلم کیا جائے گا یا انہیں گالی گلوچ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے ممالک بہت ہی شدت کے ساتھـ اس کے خواہاں ہیں کہ کسی دن ان کے درمیان بھی کوئی سابق صدرجمہوریہ موجودہ صدرجمہوریہ کے عہدحکومت میں سربلند کرکے مکمل طور پر بالکل امن وامان کےساتھـ زندگی گزارے اور اپنے گزشتہ کارگزاری کی بنیاد پر عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے اور بل کلنٹن کی طرح ہرجگہ خیر و بھلائی کا منبع بن کر اپنی سلطنت کا سفیر بن جائے یا سونے کے کنگن کی طرح ہوجائے جو مختلف اسلامی کمیٹیوں کی سربراہی کرے اور دعوت الی اللہ نیز اسلامی فکر کو لے کو ہر جگہ کانفرنسوں میں شرکت کرے اور ہر جگہ سے اکرام کا مستحق قرار پائے۔ یا نیلسن منڈیلا کی طرح ہو اور ہر جگہ جہاں وہ جائے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے، اور اردگرد سارے ممالک کی پریشانیوں کو حل کرے، اور مختلف ممالک کے درمیان جھگڑے کا خاتمہ کرنے کے لئے بیچ کا آدمی بنے۔ بلاشبہ کسی بھی جگہ اقتدار اسوقت تک بھیانک شکل اختیار نہیں کرتی ہے جب تک کہ اس اقتدار پر براجمان شخص کافی لمبے عرصہ تک ضرورت سے زیادہ نہ ٹھہرے جیسے جیسے اس پر وقت گزرتا جاتا ہے اقتدار یہ مال و دولت کی بوچھار کرتا جاتا ہے اور یہیں سے فساد، رشوت اور اثرورسوخ کا ناجائز استعمال سامنے آتا ہے۔ اور جیسے جیسے اس پر مزید وقت گزرتا ہے اس کے گردوپیش چمچہ گیری کرنے والے حضرات ابھرنے لگتے ہیں جو خود اس کو اسی کی اپنی ہی قوم سے دور کردیتے ہیں اور اس صدر اور اس کی قوم میں موجود ديگر مخلص لوگوں کے رائے و مشورے کے سننے کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس صدر کو ان نیکوکاروں کے تیئیں منفی پہلو پیش کرتے ہیں تا کہ یہ نیکوکار اس صدر تک یا وہ صدر ان نیکوکاروں تک کبھی بھی نہ پہنچ سکے۔ بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اسلام ہمیشہ ہمیش حکمرانی کرنے کی طرف دعوت دیتا ہے اور یہ بہت ہی بھیانک غلطی ہے۔ اموی اور عباسی خلفاء نے اقتدار ہی میں اپنی زندگی گزار دی یہاں تک کہ وہ اس دارفانی سے کوچ کرگئے، یہ لوگ بذات خود اسلام کی نمائندگی نہیں کررہے ہیں کیونکہ ہر وہ چیز جو ظلم وستم، زیادتی، اقتدار اور فساد کی طرف دعوت دے تو اسلام نے اس سے منع کیا ہے اور یہ لوگ اسلام کے حق میں دلیل نہیں بن سکتے ہیں۔ اس سے پہلے ہم نے کئی بار اسلام اور اسلامی فکر، اسلام اور اسلامی حکم، اسلام اور اسلامی تحریک کے درمیان فرق کو اچھی طرح سے واضح کیا ہے۔ رہا اسلام تو یہ بالکل معصوم ہے لیکن اسلامی حکم تو یہ اسلامی تعلیمات پر حکم لگانے کے لئے انسانوں کا اجتہاد اور اس دور میں ان کے اس حکم کے قواعد کی انسانی سمجھـ بوجھـ ہے۔ یہ چیز خواہشات نفس کے ساتھـ خلط ملط ہوجاتی ہے اور بعض جذبات اس کے لئے لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں اور مختلف طرح کے ظلم وستم اس کو دبوچ لیتے ہیں، اسلامی حکم کے اندر صحیح و غلط، حق و باطل کے وجود کا امکان ہے لیکن بذات خود اسلام تو وہ بالکل معصوم ہے، اس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے۔ اسلام نے سیاسی نظام کے تفصیلات پر مکمل طور پر روشنی اگرچہ نہیں ڈالی لیکن اس نے عام اصول و ضابطے کی تعیین کردی جیسے کہ صلاح و مشورہ، عدل وانصاف اور امانتداری والے طاقت و قوت کا وجود، ان تمام کلمات کے قانونی و دستوری پہلو کو مدّنظر رکھتے ہوئے اسلام نے ان کی نشاندیہی کی۔ حقیقت میں ڈاکٹر/ سلیم العوّا نے اپنی مایہ ناز کتاب " النظام السیاسي في الاسلام" ( سیاسی نظم ونسق اسلام کے آئینے میں) میں یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اسلام یہ کسی بھی حاکم کے لئے منصب صدارت پر ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے کا اقرار نہیں کرتا ہے استدلال کی بوچھار لگادی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ تمام عربی و اسلامی ممالک میں اصلاح کا راز یہ صرف اور صرف اقتدار کو امن وسلامتی کے ساتھـ دوسروں کے حوالے کرنے میں پنہاں ہے کیونکہ یہی عدل و انصاف کو قائم کرنے اور ظلم و ستم کا قلع قمع کرنے میں امن وامان کا بندھن ہے اور اگر یہ پورا ہوگیا تو ہم سب لوگ موجودہ صورت حال سے بہتر صورت حال میں ہوں گے۔

14-2-2011

التداول السلمي للسلطة هو حقيقة الإصلاح UR



موجودہ قضيے -

  • اخبار
  • ہمارے بارے ميں
  • نخلستان اسلام
  • بيانات
  • مسلم خاندان
  • موجودہ قضيے
  • کتابيں
  • حادثات
  • جہاد کا حکم
  • ملاقاتيں
  • ويب سائٹ کي خدمات
  • اپني مشکلات بتائيں
  • فتوے
  • ارئين کي شرکت