|
اسلامی تحریک، حقیت پسندی کا مفہوم، اختلافات اور ذات کا مسئلہ بقلم: استاذ محمد صلاح۔۔ شاید کہ یہ مبالغہ آرائی نہ ہوگی اگر ہم یہ کہیں کہ اسلامی تحریکیں یہ امت کےحق میں بہتر صورت حال کے لئے امیدوں کی کرن ہوگئیں ہیں خاص طور پر سیکولرکے اس کے سارے افکار وخیالات پر غلبہ پانے کے بعد چاہے وہ ڈیموکریسی ہو یا سوشلزم (اشتراکی) موقع ہو جو مکمل طور پر تبدیلی پیدا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں لیکن پھر بھی وہ اس تبدیلی کو بروئے کار لانے سے عاجز ہیں، زندگی کے تمام اقتصادی ، سیاسی اور سماجی گوشوں کے اندر سوائے سلبی تبدیلی کے۔ سیکولر منہج اورعملی تطبیق کے پیمانے پر اس کے پس پردہ شکست بھی کھا چکی ہے، لہذا سوشلزم (اشتراکی) یہ سویتی اتحاد (یونین) کے زوال کے بعد ماند پڑ چکی ہے، اور پھر ڈیموکریسی کے کھوکھلے دعوے سامنے آرہے ہیں اور عراق ، افغانستان بلکہ بذات خود امریکہ میں بھی اسکی حقیقت آشکارا ہو رہی ہے ۔ آزادی ومساوات اور برابری کے تئیں ان کے افکار وخیالات اور اصول ومبادی یہ عجوۃ (کھجور) کے دیوتا ہو گئے ہیں جسے وہ جب چاہتی ہے ہڑپ کر جاتی ہے۔
بے شک اس صورت حال نے اسلامی تحریکوں کے لئے یہ سنہرا موقع فراہم کردیا کہ وہ اپنے قوموں سے قریب ہو سکے اور ان پر مکمل طور پر بھروسہ کر سکے، اسلامی تحریکوں کی کامیابی کا راز اسی میں پنہاں ہے کہ وہ کس حد تک اس صورت حال کو سمجھـ رہی ہے جس سے وہ گزر رہی ہے، اور اسی طرح سے وہ منہج واسلوب جس پر وہ عمل پیرا ہے اور اسی کے ساتھـ ساتھـ یہ تحریکیں کس قدر اپنی اپنی ذات پر دوسروں سے پہلے نقد کرتی ہیں اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتی ہیں ، صحیح ودرست اسلامی طور طریقے تک پہنچنے کے لئے جو صورت حال کے مناسب ہے کس درجہ تک اپنے آپ کا محاسبہ کرتی ہیں، اور کس حد تک اس کی جڑیں کتاب وسنت اور امت کے اجماع کے ثابت شدہ اصولوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
ہم یہاں ان چند چیزوں کا ذکر کر رہے ہیں جو بسا اوقات اسلامی تحریکوں کے لئے اپنے سماج پر بھروسہ کرنے کے لئے معاون ومددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
پہلا: اسلامی تحریکوں کا باہم تعاون کرنا ضروری ہے:
یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ اسلامی فیلڈ میں موجود کوئی بھی جماعت اس وقت تنہا اپنے سماج کے ساتھـ ایسا معاملہ کرنے پر قادر نہیں ہے اور نہ ہی بنیادی تبدیلی پر قادر ہے جو ہماری امت کو اس کے صحیح دین پر گامزن کردے، خاص طور پر اسلامی تحریکوں کے خلاف عالمی برادری کے دشمنی رکھنے کی وجہ سے اور ساتھـ ہی ساتھـ ہمارے ممالک کے حاکمانہ نظام کی وجہ سے۔ تو جب یہ بات ساری کی ساری اسلامی تحریکوں کے حق میں اجتماعی طور پر مشکل ہے تو پھر اس وقت کا عالم کیا ہوگا جب ساری کوششیں بکھری ہوئی ہوں، افراد بھی ایک پلیٹ فارم پر نہ ہوں، دلوں میں بھی ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھری ہو، عقل وخرد بھی معاندانہ انداز کے ہوں۔ بسا اوقات یہ چیز جائز بھی ہو سکتی ہے اگر وہ جگہ یقینی طور پر محل خلاف ہو لیکن بات زیادہ نہیں ہوتی ہے چاہے اختلافات کے اسباب جزئی ہوں یا ایسے امور ہوں جن میں ایک سے زیادہ بھی صحیح رائے کی گنجائش ہو، اور اس اختلاف نے ایسے افراد پیدا کئے ہیں جن کے نزدیک ان کی پارٹی اور جماعت سے ربط یہ ایمانی ربط سے کہیں زیادہ قوی اور مضبوط ہوتی ہے لہذا ایسے لوگ پارٹی کی وجہ سے محبت کرتے ہیں اور پارٹی ہی کی بنیاد پر بغض وعداوت کرتے ہیں چہ جائے کہ اللہ کے لئے اور اللہ کے راستے میں ایسا کریں، اور یہ خصلت ایسی ہے جو دین کو ضائع کرتی ہے اور شکشت وہزیمت کو دعوت دیتی ہے۔
لہذا ہم یہاں چند چیزوں کا ذکر کر رہے ہیں جو تعاون کو مضبوط کرتی ہیں اور دوریوں کو ختم کرتی ہیں، ساتھـ ہی ساتھـ بہت سارے اختلافات کا بھی قلع قمع کرتی ہیں پھر ایسا کوئی بھی اختلاف باقی نہیں بچتا ہے جو روحانی بھائی چارگی اور اسلامی سرگرمیوں کے وجہ سے اس کے فرزندگان کے اندر سے ختم نہ ہو جاتا ہو۔
1- اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ یہاں اختلاف ضروری ہے کیونکہ اللہ رب العالمین نے اس عقل کو بنایا ہے جو معرفت کا آلہ ہے اور اس کے اندر تفاوت بھی ہے، اسی طرح سے دلوں کوبنایا ہے جو شعور واحساس کا آلہ ہیں اور وہ بھی مختلف ہیں، اور نصوص جو کہ معرفت کا مرجع ومصدر ہیں وہ زیادہ تر ثابت ہونے اور دلالت کرنے کے اعتبار سے ظنی ہیں، اور اس میں سے کچھـ نصوص ایسے ہیں جو کہ متشابہ ہیں تو جب معرفت کا آلہ مختلف ہے اور مراجع ومصادر بھی ظنی ہیں تو پھر ضروری ہے کہ علم بذات خود بھی مختلف ہو۔
2- اختلاف رحمت ہے: شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل سے کہا گیا کہ: ایک شخص نے کتاب لکھی ہے اور اس کا نام رکھا ہے "اختلاف" تو امام احمد نے فرمایا: بلکہ ہم اس کو "کتاب السعۃ" (کشادگی) کے نام سے موسوم کریں گے، کیونکہ اللہ رب العالمین نے یہ مقدر کر دیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام میں آپس میں اختلاف پایا جائے تا کہ امت کے ہر شخص کے لئے یہ سلف صالح کی حیثیت رکھے جس کی اتباع کی جا سکے، اور یہاں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اختلاف رحمت ہے۔
3- جو چیزیں اختلاف کو قبول نہیں کرتی ہیں وہ تین (3) طرح کی ہیں: پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو چیزیں اختلاف کو قبول نہیں کرتی ہیں وہ تین ہیں: کتاب اللہ، سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ، اور امت کا اجماع۔ اور ان سے ہٹ کر جو بھی ہیں ان میں اختلاف کی گنجائش ہے اور یہ چیز بھی ضروری ہے کہ ہم نص(متن) کے درمیان اور اپنے نص کے سمجھنے کے درمیان فرق کریں، یہ ضروری نہیں ہے کہ جو شخص ہمارے سمجھـ بوجھـ کے خلاف ہے وہ نص کے بھی خلاف ہو، وہ نصوص جو ثبوت اور دلالت کے اعتبار سے قطعی ہیں اور وہ نصوص جو ثبوت اور دلالت کے اعتبار سے ظنی ہیں ان کے درمیان ضروری ہے کہ ہم فرق کریں۔
دوسرا: حقیقت پسندی:
شاید کہ زیادہ تر پیچیدہ اشکالات جو اسلامی تحریک کو در پیش ہے وہ ہے بعض ان رجحانات کا وجود جو پیچھے کی طرف کھینچنا چاہتا ہے اور ماضی کو اس کے تمام احکام کے ساتھـ آخری حد تک دعوت دیتا ہے پھر ان احکامات کو ہمارے موجودہ صورت حال پر لاگر کرنا چاہتا ہے ان تبدیلیوں کو نظر انداز کئے بغیر جو اس میں ہوئی ہیں، اور ایک دوسرا رجحان ہے جو موجودہ صورت حال کی طرف دیکھتا ہے اور ہر طرح سے اس کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے جڑوں کو اکھاڑ پھینکے اور اس کی شکل وصورت کو بدل دے تا کہ وہ مسخ ہو کر رہ جائے اور اسلامی نام رکھے حالانکہ اس کے اندر اسلام کے نام کے سوا اور کچھـ بھی نہیں ہے۔ ابھی بھی اشکال اپنی جگہ باقی ہے اور حق تو ہمیشہ دونوں پہلوؤں کے درمیان ہوتا ہے، اسلامی تحریک کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک آنکھـ سے نصوص کی طرف دیکھے اور دوسری آنکھـ سے مصلحت کی طرف دیکھے، ایک آنکھـ اصول کی حفاظت کرے تو دوسری آنکھـ فروعات میں سے جو مناسب ہو اس میں سے اختیار کرلے۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی تحریکیں یہ بھی جان لیں کہ وہی تنہا میدان میں نہیں ہیں بلکہ یہاں سماج میں ایسے سیکشن بھی ہیں جن کا اس کے ساتھـ اختلاف ہے، لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم یہ بات جان لیں کہ جو شخص ہم سے اختلاف رکھتا ہے یہاں تک کہ ہم سے دشمنی بھی رکھتا ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اسلام سے بھی دشمنی رکھتا ہو، بلکہ ہمارے ساتھـ اس کا اختلاف صرف اسلام کے سمجھنے میں ہے؛ لہذا اسلامی قیم واقدار اور ہمارے اسلام کے سمجھنے کے درمیان کا فرق یہ اہم امور میں سے ہیں جو ضروری ہے کہ اسلامی تحریکوں کے فرزندگان کے ذہنوں میں اچھی طرح سے واضح ہو۔
اسلامی تحریکوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھـ لے کہ وہ (اس کام میں) شریک ہے یقینی طور پر بدیل نہیں ہے جو دوسروں کو ہٹاتی ہے تا کہ وہ میدان میں اکیلے باقی رہے، اسلامی تحریکوں کے لئے آپس میں شرکت کرنا ضروری ہے تا کہ وہ اپنے سماج تک پہنچ سکیں۔
اسلامی تحریکوں پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ زیادہ خواب بھی نہ دیکھے اور یہ کہ اس کے اہداف ومقاصد وقت کی ضرورت ہوں اور اس کے امکانیات کے اندر ہوں اور ساتھـ ہی ساتھـ کسی محال چیز کے طلب میں ممکن چیز کو بھی نہ ضائع کردے، کیونکہ بعض لوگوں نے اپنی امکانیات سے بڑھـ چڑھکر اپنے اہداف ومقاصد متعین کئے ہیں لہذا ان لوگوں نے اپنی عمریں ضائع کرڈالیں اور اپنا سارا وقت بھی برباد کر ڈالا اور کچھـ بھی نہ کر سکے بلکہ جو کچھـ ان کے پاس تھا وہ سب بھی گنوا بیٹھے اور ہر چیز کھو بیٹھے اور سب سے زیادہ جو چیز کھویا ہے وہ ہے نصرت وکامیابی پر یقین۔
تیسرا: اپنی ذات سے عوام کی سطح پر نکلنا:
ضروری ہے کہ ہر جماعت اپنی ذات سے نکلے اور امت کی مصلحت کو اپنی مصلحت پر مقدم کرے، اسلامی تحریکوں سے منسوب بعض لوگ اپنی پارٹی کی کامیابی کے سوا اور کوئی خواب نہیں دیکھتے ہیں اور کسی بھی طرح کی کامیابی ان کے نزدیک کامیابی شمار نہیں ہوتی جب تک کہ وہ کامیابی خود ان کے ہاتھوں نہ انجام پائے۔
چوتھا: طرزعمل تیار کرنے کے بعد ضروری ہے کہ اسلامی تحریکیں اپنے افراد کو اس کے لائق بنائیں:
یہاں تک کہ یہ افراد عملی تصویر ہوں، یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ہی ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی صفت بیان کرتی ہوئی فرماتی ہیں: آپ زمین پر چلتے پھرتے قرآن تھے، بے شک لوگ لکھے ہوئے صفحات یا بنائے گئے عادات و اطوار کی طرف نہیں دیکھتے ہیں، بلکہ وہ ان افراد کے ساتھـ زندگی گزارتے ہیں جو بسا اوقات ان کی خاطر کسی طرز عمل کو پسند کرتے ہیں اور اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ہیں، اور کبھی کبھار انہی کی خاطر کسی ایسے طرز عمل کو ناپسند کرتے ہیں جن کے بارے میں زیادہ جاننا پسند بھی نہیں کرتے ہیں۔
بعض ایسے ممالک میں اسلام پھیلا جہاں مسلمانوں کی فوجیں نہیں پہنچیں اور نہ ہی ان کی کتابیں پہنچیں بلکہ سچّے اور امانتدار تاجر یا پاکدامن نوجوان یا پھر با وقار بزرگ نے اسلام کا پیغام وہاں پہنچایا، تو اسلامی تحریکیں اس کی کس قدر ضرورت مند ہیں کہ وہ اپنے فرزندوں میں سے ایک ایسی نسل تیار کرے جو اس طرز عمل کی حقیقی طور پر نمائندگی کرے کیونکہ انہی جیسے لوگوں کے ذریعہ دلوں کے دروازے کھلتے ہیں اور ظلمت وتاریکی میں گھری عقلیں روشن ہوتی ہیں۔
یہی وہ چند باتیں ہیں جن کی طرف ہم توجہ دلانا چاہتے تھے، اس میں ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ ہمیں نے اس کی طرف پہل کی ہے اسی طرح اس میں لغزشات سے بھی ڈرتے ہیں اور ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ ہم ان کے لئے دروازہ کھول دیں اور راہ ہموار کردیں جو ہم سے زیادہ جاننے والے ہیں تا کہ ہمارے غلطیوں کی اصلاح ہوجائے اور ساتھـ ہی ساتھـ خامیوں کی تکمیل بھی ہو جائے۔
الحركة الإسلامية ومفردات الواقعية والخلاف والذاتية UR
موجودہ قضيے -
|