زیادہ تر اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص نے طلوع فجرمیں شک کی بنیاد پر کھا پی لیا تو اس کا روزہ صحیح ہے کیونکہ اصل رات کا باقی ہونا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: (وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر) (البقرہ:187)۔ (تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے)۔ لہذا جب تک کسی شخص کے لئے طلوع فجر کا وقت بالکل واضح نہیں ہوا وہ اپنے کھانے پینے کی بنیاد پر روزہ توڑنے والا نہیں سمجھا جائے گا۔ اس جیسے مسئلہ کے بارے میں اقوال کی تفصیل درج ذیل ہے:
1- آدمی کو اس بات کا پختہ یقین ہو کہ ابھی طلوع فجر نہیں ہوا ہے جیسے کہ کوئی شخص اذان سے کافی وقت پہلے کھائے پیئے تو اس جیسے آدمی کا روزہ صحیح ہے، کیونکہ اس شخص نے فرض روزے کے اوقات میں نہ تو کچھـ کھایا ہے اور ہی کچھـ نہ پیا ہے۔ 2- آدمی کو اس بات کا پختہ یقین ہو کہ طلوع فجر ہوچکا ہے جیسے کہ وہ طلوع فجر کے بعد کھائے پیئے اور اس کو اس بات کا پتہ بھی ہو، تو اس کا روزہ حقیقت میں فاسد ہوجائے گا۔ 3- آدمی کو اس بات کا غالب گمان ہو کہ طلوع فجر ہوچکا ہے اور وہ کھائے پیئے تو اس کا روزہ فاسد ہوجائے گا۔ 4- آدمی کو شک ہے کہ طلوع فجر ہوچکا ہے یا ابھی نہیں؟ اور اس کا غالب گمان یہ ہو کہ ابھی طلوع فجر نہیں ہوا ہے، تو اس صورت میں اس کا روزہ صحیح ہے۔ 5- آدمی کا گمان دونوں کے تئیں برابر ہو کہ طلوع فجر ہوچکا ہے یا ابھی نہیں اور وہ کھائے پیئے ، تو ایسی صورت حال میں اس کا روزہ صحیح ہے کیونکہ اصل ہے رات کا باقی ہونا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ما حكم من تناول سحوره بعد الفجر ظناً منه أنه لم يؤذن UR |