الحمد للہ، يہ جاننا ضرورى ہے كہ ہر بوجھ اور تكليف اور تھكاوٹ يا مشقت ايسا عذر شمار نہيں كيا جاتا جس كى بنا پر رمضان المبارك كا روزہ چھوڑنا مباح ہو كيونكہ روزہ مشقت اور تھكاوٹ سے خالى نہيں، ليكن يہ مشقت كم جس كا انسان غالبا عادى ہوتا ہے۔ تو اس بنا پر؛ جب حاملہ عورت كچھ تكليف اور بوجھ محسوس كرے تو اس كى دو حالتيں ہيں: پہلى حالت: تكليف اتنى كم ہو كہ اس كے ليے روزہ غير عادى اور شديد مشقت كا باعث نہ ہو، اور اسے اپنے آپ اور پيٹ ميں بچے كے بارہ كوئى خطرہ نہ ہو تو اس صورت ميں اس پر روزہ ركھنا واجب ہے، اور اس كے ليے روزہ چھوڑنا جائز نہيں۔ دوسرى حالت: مشقت شديد ہو يا پھر اسے اپنے آپ يا اپنے بچے كو ضرر پہنچنے كا خطرہ ہو، تو اس صورت ميں اس كے ليے روزہ چھوڑنا افضل ہے، اور بعض اوقات روزہ چھوڑنا واجب ہو گا۔ حاملہ عورت كے ليے روزہ نہ ركھنے كى رخصت كى دليل مندرجہ ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے: (اللہ سبحانہ وتعالى نے مسافر سے نصف نماز اور روزہ ميں كمى كر دى ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت سے) (سنن نسائى:2274)۔ اور جب حاملہ عورت روزہ نہيں ركھے گى تو اس پر ان ايام كى قضاء لازم ہے جس كے اس نے روزے نہيں ركھے۔ واللہ اعلم۔ إذا شعرت الحامل ببعض التعب فهل تفطر؟ UR |