|
۔(4-15) قبول و رد کے مابین خطاب دینی کی تجدید نو ہم اپنی دعوت میں تجدید خطاب دینی کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔ ایسی تجدید و فروغ جو اسلامی اصولوں کے دائرے میں ہو۔۔۔ شریعت اسلام کی مخالفت نہیں بلکہ موافقت کرے۔۔۔ امر واقع کے ساتھ ٹکراۓ نہیں بلکہ اس کے ساتھ مثبت اور درست معاملہ کرے۔۔۔ اس واقع کے ساتھ مل کر اسلام کی خدمت کے لیے اس (واقع) کی اصلاح اور اسے تسخیر کرے۔
ہم خطاب دینی میں پختہ تجدید پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔ ایسی تجدید جو دین سے عاری نہ ہو۔۔۔ بلکہ وہ اسلام کے شعار، لباس اور اس کے لیے کارآمد ہو۔۔۔ ایسی دینی تجدید جس سے دنیا میں بہتری۔۔۔ زندگی میں وقار اور اس سے دینی شناخت اور شگفتگی لوٹ آۓ۔۔۔ اور اس سے پژمردہ اثار کو تازگی ملے۔۔۔ اس بارے میں ہمارا شعار یہ ہے۔۔۔ جی ہاں
خطاب دینی کی تجدید کے لیے۔۔۔ انھدام دین و اسلام نا منظور
خطاب دینی کی تجدید کے لیے۔۔۔ شریعت اسلام کی منسوخی نامنظور۔
خطاب دینی کی تجدید کے لیے۔۔۔ اپنی شناخت کا مٹنا اور اپنی تہذیب کا بگاڑ نامنظور۔۔۔
خطاب دینی کی تجدید کے لیے۔۔۔ اپنے عظیم تراث سے واقفیت کے رابطے کا انقطاع نامنظور۔۔۔
خطاب دینی کی تجدید کے لیے۔۔۔ اپنے سرکاری معاملات میں ننگی مداخلت اور اپنی ثقافت کی تبدیلی کی کوشش نامنظور۔
ہم خطاب دینی کی تجدید نو کو جاری رکھنے کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔ جیسے کہ حقیقی ضرورت اور اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔۔۔ تا کہ زمانے کے تغیرات کا ساتھ دے اور لوگوں کی سمجھ و دانش کے مناسب ہو۔۔۔ اور مخلوق کی ہدایت کے لیے مطلوبہ مقصد پورا ہو نیز اسے آگے بڑھنے کے لیے طاقت بھی عطاہو۔۔۔ ہم ایسی تجدید پر یقین رکھتے ہیں جو ثابت اور متغیر میں فرق کرسکے کیونکہ اصول، ارکان اور احکام قطعی اور مبادیات میں تجدید کچھ نہیں ہو سکتی۔۔۔ یہ ایسے ستون ہیں جن پر دین (کی عمارت) قائم ہے۔ان کے اثار میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔۔۔ ورنہ اسلام اپنی امتیازی شان و شوکت کو کھو دے گا۔
اسی طرح خطاب دینی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاقی پائیداری اور عدم پامالی کا خیال رکھے۔۔۔ کیونکہ اسلامی نقطۂ نظرمیں اخلاقی اقدار کسی صورت میں بھی تبدیل یا ٹیڑھی نہیں ہوسکتیں۔۔۔ جہاں تک لچکدار (قدروں) کا تعلق ہے تو وہ زمانے کے تغیرات اور احوال کی تبدیلی کی مناسبت سے تجدید و فروغ کو قبول کرتی ہیں۔۔۔ یہ ہمارے پاکیزہ دین کی مروت ہے۔۔۔ جو ہر زمان و مکان میں قابل پیروی ہے۔۔۔ ہمیں اس ضرورت کا بخوبی ادراک ہے کہ تجدید خطاب دینی کی آواز امت اسلامیہ کے اپنے اندر سے اٹھنی چاہیے۔۔۔ باہر سے یہ امت پر مسلط نہ کی جاۓ۔۔۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ یہ تجدید، اسلام اور امت اسلام کے فائدے کے لیے ہونی چاہیے نہ کہ اسلام دشمن اور اس کے مخالفین کے لیے۔۔۔ ہم اس ضرورت کا بھی ادراک رکھتے ہیں کہ تجدیدی کاروائی امت کے علماء، فقھاء اور مفکرین اسلام کے ہاتھوں ہو۔۔۔ تاکہ امور گڈ مڈ اور حالات بگڑ نہ جائیں۔
تجدید خطاب دینی کی مھم علماء امت اور مجتھدین کی ہے اور ان کے ساتھ ایسے اصحاب فکر و دانش اور اہل قلم شامل ہوں جو محبت اسلام، حمیت دینی اور امت کے مفادات میں دلچسپی کے حوالے سے معروف ہوں۔۔۔علاوہ ازیں ہم سختی سے اس بات کو مسترد کرتے ہیں کہ اسلام کے حاسدین کو یہ موقع فراہم کیا جاۓ کہ وہ تجدید خطاب دینی کے نام سے دین کے انہدام اور اس کے ارکان کو ٹھیس پہنچانے کے لیے مداخلت کریں۔۔۔ اور امت کو فکری و ثقافتی اور اس سے پہلے نظریاتی و قانونی مفاہیم سے بیگانہ کردیں۔
تجديد الخطاب الديني۔۔ بين القبول والرفض 4-15 UR
ہمارے بارے ميں -
|