|
۔(2-8) فروعی فقہی اختلافات ہم سمجھتے ہیں کہ ثانوی اور اجتہادی مسائل میں علماء اور مجتہدین کا اختلاف امت کے لئے باعث رحمت اور وسعت ہے نیز اس کی فقہی اور فکری تحریک کے لئے اس میں زرخیزی ہے۔۔ اسی طرح اسے ہم اس فقہی ثروت میں واضح طور پر دیکھتے ہیں جسے ائمہ اور علماءِ امت نے ہمارے لئے چھوڑا ہے اور یہ سب کچھ دلائل پر بحث ومباحثے اور غور وفکر کا نتیجہ ہے مسلسل مناظرے اور مکالمے کا نتیجہ ہے۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ علماء کا اختلاف ہر صورت میں پیش آنے والا ہے اس لئے کہ اختلاف ایک قدرتی کائناتی سنت ہے اور علماء کا اختلاف عقلوں وفہموں کے ما بین پائے جانے والے فرق واختلاف کی طرف لوٹتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بحث وجستجو اور اجتہاد کی قدرت وصلاحیت میں بھی ان علماء کے ما بین فرق پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کے ما بین اس بات میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ کس نے کس قدر تعلیم حاصل کی ہے۔ پھر مسلمانوں کے ما بین سیکھنے اور سکھانے کے طور طریقوں میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ پھر نصوص کا اکثر حصہ ظنی ہے مختلف شکلیں اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ زمانے کے واقعات وحادثات غیر محدد ہیں ایسی صورت میں ایک جگہ کے مقابلے میں دوسری جگہ کے احکام واجتہادات میں فرق ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو۔ ایک مجتہد دوسرے مجتہد سے مختلف بھی ہوتا ہے۔
ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ کتاب وسنت کی نصوص سے ثابت شدہ قطعی اصول اور اجماع امت انبیاء کے ما بین مشترک دین کے مساوی ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کہنا ہے (کسی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اس سے تجاوز کرے یا اس میں تنازعہ کرے۔ اس لئے کہ اگر کوئی اس سے نکل گیا یا اس پر تنازعہ کیا تو وہ حقیقت میں تفرقہ کرنے والوں اور بدعتیوں میں سے ہوگیا)۔
رہے ان کے علاوہ فقہی اجتہادی مسائل میں اختلاف تو یہ مسلمانوں کے لئے رحمت ہے اگرکوئی شاذ اختلاف یا اجماع کے بر عکس نہیں ہے۔
یہ لوگوں کے لئے ان کی عظمتوں میں تنوع پایا جاتا ہے۔ حالات میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس کا خیال رہے کہ علماء کی رخصتوں کا پیچھا نہیں کیا جائے۔ اسی طرح ان کی طرف سے صادر ہونے والی لغزشوں اور غلطیوں کے پیچھے پڑ کر ان سے فائدہ اٹھانا بھی صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن عبد البر نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ہمارا ایمان ہے کہ فرعی امور میں اجتہاد کو تابع داری اور براءت کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا خواہ اس رائے پر اتفاق کا درجہ کتنا ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے کہ دین دلالت قطعی کی جگہوں پر رخصت دینے والوں کی رخصت اور اجتہاد کی جگہوں پر تشدد برتنے والوں کے ما بین ہے۔
پوری تاریخ اسلام میں فقہی اختلاف وقوع پذیر ہوئے ہیں یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی ایسا ہوا۔ جیسا کہ بنی قریظہ میں عصر کی نماز ادا کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم دیا اس میں اختلاف کرنے والوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرفت نہیں کی۔ اسی طرح علماء امت نے اختلاف کیا تو اس میں انہوں نے کوئی برائی نہیں دیکھی اور اپنے سوا دوسروں کو اپنے مسلک پر عمل کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا۔ نہ ہی دوسرے کی رائے کو حقیر سمجھا اور نہ اس کے علم پر قدغن لگایا بلکہ یہ ایک ایسا اختلاف تھا جو ادب کے سائے میں رہا اور محبت وبھائی چارگی اسے اپنے دائرے میں لئے رہی۔
فهمنا للخلافات الفقهية الفرعية 2-8 UR
ہمارے بارے ميں -
|