|
۔(2-6) باضابطہ معاصر اجتہاد ہماری ضرورت ہم نے اس سے پہلے جو اپنا فہم پيش کيا ہے جس کا خلاصہ يہ ہے کہ نصوص ميں عقل کے استعمال کی جگہ اجتہاد کے سرچشمے ہيں تو ہم تاکيد کرتے چليں كہ اپنے اصول ومبادئ کی پابندی کرتے ہوئے باضابطہ اجتہاد شريعت کے عظيم مقاصد اور بلند غايتوں کے فلک پر گردش كرتا ہے۔۔ امت کے لئے اپنے قانونی بحران سے نکلنے کا يہى واحد طريقہ ہے۔۔ اسى طرح اس كى فقہى اور قانونى پسماندگى سے نكلنے كا ذريعہ ہے کيوں کہ حادثات وواقعات کثرت سے پيش آتے رہتے ہيں اور نصوص محدود ہيں۔
يہ بات کہی جا چکی ہے کہ شريعت اسلامی اپنے اندر نرم پہلو لئے ہوئے ہے۔ ہر واقعے کا سامنا کرنا اور جديد کا معالجہ کرنے کى وسعت اپنے اندر رکھتی ہے اور ايسا بغير کسی پريشانی، مشقت اور تنگی کے کرتى ہے۔ اس لئے کہ اللہ نے اس کے اندر نرمی کے اسرار وعناصر وديعت کر دئے ہيں، شريعت نے علماء اور مجتہدين کو يہ حق ديا ہے کہ وہ نصوص پرغور کريں اور اس کے پوشيدہ پہلوؤں کو اجاگر کريں، اصول فقہ کے ماہرين نے جن ضوابط کا تعین کيا ہے ان کی پابندی کرتے ہوئے يہ علماء ومجتہدين شرعی احکام کا استنباط کرنے كى بھر پور کوشش کريں۔
ايسا اس لئے تا کہ زمانے کے واقعات اور تہذيب کے پيدا کردہ مسائل جو لا متناہی ہيں کا ساتھ ديا جا سکے۔
امت کو اس امر کی شديد ضرورت ہے کہ اجتماعی اور انفرادی اجتہاد کا باب کھولا جائے جو اپنے ضوابط کے دائرے ميں ہو اور اپنی حدوں سے گھرا ہوا ہو۔ اسی طرح ان قديم فقہی ابواب پر نظر ثانی کی جائے جو تجديد کے ضرورت مند ہيں۔ اس لئے کہ فقہ کے بہت سے ايسے ابواب ہيں جو معاصر اجتہاد کے ضرورت مند ہيں۔ اسی طرح قديم فقہی کتابوں اور فتوے کے باب ميں درج ايسے فقہی مسائل ہيں جو نظر ثانی کے محتاج ہيں تا کہ بدلتے ہوئے عصر وزمانے اور تازہ ترين حالات کی ہم رکابی کر سکيں۔
وضعی قانونی فقہ نے فروغ پایا تو یورپ اور مغربی دنیا کے فقہی مدارس پھلے پھولئے اور يہ سب كچھ عرب واسلامى ممالك كى سطح پر آنے والى فقہى پس ماندگی اور قانون سازی کے میدان میں پسماندگی کے سبب سے ہوا۔
اگر امت نے اجتہاد کے باب کو اس کے شایان شان مقام دیا ہوتا، علماء اور مجتہدین نے اپنی ذمہ داریاں ادا كی ہوتیں تو آج ہم سالار قافلہ ہوتےـ اور ان لوگوں کو یہ موقع نہ مل ملتا جو یہ پروپیگنڈہ کرتے پھرتے ہیں کہ شریعت اسلامی تہذیب كى ہم آہنگی سے عاجز ہے۔
شریعت اسلامی نے صدیوں تک نصف کرہ ارضى پر حکومت کی ہے، اس کا پرچم ہر ہر جگہ بلند ہوا ہے، اس نے مختلف قوموں پر حکومت کی، تمام تہذیبوں سے ملی لیکن اس کا بازو کسی نئی چیز کے اٹھانے سے بوجھل نہیں ہوا اور کسی تقاضے کو پورا کرنے میں اس سے تقصیر نہیں ہوئی بلکہ ہر پیش آنے والی صورت حال کا اس نے معالجہ کیا اور ہر اٹھنے والے سوال کا جواب دیا۔
ہم اس ضرورت پر ایمان رکھتے ہیں کہ اجتہاد کی دونوں شکلوں کا دروازہ کھولا جائے خواہ وہ انفرادی یا شخصی اجتہاد ہو یا اجتماعی یا ادارياتى اجتہاد ہو، ساتھ ہی ہمیں اس کا بھی ادراک ہے کہ ادارے کی سطح پر جو اجتہاد ہوگا وہ صحیح طریقے سے استنباط کرنے، صورت حال كا جائزہ لینے اور مکلف کئے گئے امر کو عملی شکل دینے پر زیادہ قادر ہوگا۔
حاجتنا للاجتهاد المنضبط المعاصر 2-6 UR
ہمارے بارے ميں -
|