|
۔(2-4) عقلی اور نقلی دلائل کے ما بین تعلق اسلام میں عقل کے رول کو ہم اس کی قدر وقیمت کا ادراک کرتے ہوئے کچھ اس طرح سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ایسی نعمت ہے جسے اللہ نے اپنی رحمت سے اپنی مخلوق اور اپنے بندوں میں ودیعت کر رکھی ہے بلکہ اسے مکلف کئے جانے کا سبب اور علم ومعرفت کا محور بنایا ہے۔ افعال کے درجۂ کمال تک پہنچنے اور صحیح ہونے کے لئے اس کی شرط لگائی ہے۔
اللہ تعالی اور اس کے رسولۖ نے عقل وسمجھ رکھنے والوں کی بڑی تعریف کی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو غور وفکر کرتے ہیں۔ تدبر سے کام لیتے ہیں اور عقل رکھتے ہیں۔
آسمان کا پیام عقلوں کو کالعدم قرار دینے یا اسے ضائع کرنے کے لئے نہیں آیا ہے۔ یہ آسمانی پیغام بندوں کو ضلالت وجہالت بھٹکتے رہنے کے لئے نہیں چھوڑتا بلکہ اس نے عقل کی قدر وقیمت کو پہنچانتے ہوئے اس کے رول وکردار کو بلند کیا ہے۔ اس نے اسے اعزاز وتاج پوشی کے رتبے تک پہنچایا ہے۔
عقل کے رول کو اجاگر کرنے اور اس کا اعتراف کرنے پر ایمان رکھتے کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ ایمان ویقین بھی ہے کہ بشری عقل کتنی ہی بلندی تک کیوں نہ پہنچ جائے۔ فضا کو مسخر کر لے جائے۔ ذرات اور اس کی جزیئات کو دریافت کر لے جائے۔ علم ومعرفت میں چاہے یہ کتنی ہی بلندی تک پہنچ جائے لیکن یہ ان سب کے باوجود قاصر ہے۔ یہ وحی کی روشنی اور اس کی ہدایت کی محتاج ہے۔
پس عقل کبھی بھی قانون سازی میں آزاد نہیں ہو سکتی۔ آسمانی وحی سے تجاوز نہیں کر سکتی ورنہ خود بھی گمراہ ہوگی اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گی۔
نبیۖ کی بعثت سے قبل پوری سر زمین پر عقل کا دور دورہ تھا۔ اللہ کی ہدایت سے پوری طرح دور تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہالت کی تاریکیوں اور شرک وضلالت کی نجاستوں میں بھٹکنے لگی۔
بتوں کی پرستش کی لڑکیوں کو درگور کیا، شراب نوشی، زنا کاری اور سود خوری کو حلال کیا۔ آج ہم مغربی عقل کو دیکھ رہے ہیں کہ اس نے جب وحی سے بغاوت کی تو یہ ہم جنسی تعلقات کے قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کر رہی ہے۔ شیطان کی عبادت میں اسے کوئی مانع نہیں۔ غلاموں کی تجارت کی جا رہی ہے۔ حریت کے نام سے مذاہب کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ڈیموکریسى کے نام سے قوموں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ بشری عقل کا یہ حال اس وقت ہوتا ہے جب وہ نور ہدایت سے علیحدہ ہو جاتی ہے اور وحی کی منطق سے آزادی حاصل کر لیتی ہے۔
ہم اس بات پر ایمان ویقین رکھتے ہیں کہ عقل کو استعمال کئے جانے کی اپنی حدیں ہیں جہاں اسے رک جانا چاہئے۔ بشری عقل کو آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور جو کچھ اللہ نے پیدا کیا ہے اس میں غور وفکر کی مہم انجام دینے کے لئے مکلف کیا گیا ہے۔ بشری عقل کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ خود بشری نفس پر تدبر کرے تاکہ اس کے غامض پہلوؤں کو اجاگر کرے اور کائنات اور اس کی آفاقیت پر غور وفکر کرے تاکہ اس کے مخفی امور سے پردہ اٹھا سکے۔ تاریخ کے حادثات وواقعات اور گذرے ہوئے لوگوں کے حالات پر غور کرے تاکہ اس میں موجود عبرتوں اور اس کے پوشیدہ معنی ومطلب کو پا سکے۔ بشری عقل کو يہ مہم سونپی گئی ہے کہ وہ کائنات کو آباد کرنے کے لئے جد وجہد کرے اور خلیفہ ہونے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرے۔ علم ومعرفت کی مہم کو سر انجام دینے پر اسے معمور کیا گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ شریعت کے نقوش راہ اور وحی کے بتائے ہوئے طریقے کے دائرے میں رہتے ہوئے انجام دینا چاہئے۔
بشری عقل کو فیصلہ کرنے اور قانون سازی کی مہم انجام دینے کے لئے صرف ان امور میں مکلف کیا گیا ہے جس کی اللہ نے خود اجازت دی ہے۔
قرآن وسنت کی نصوص دو طرح کے ہیں۔ قطعی دلالت والی نصوص اور یہ وہ ہیں جنکے سامنے سوائے سپردگی اور فرمان برداری کے عقل کا کوئی رول وکردار نہیں۔ ان نصوص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں۔
ظنی دلالت والی نصوص اور یہ وہ نصوص ہیں جو مختلف صورتیں اختیار کئے ہوئے ہیں۔ عقل کا کام ان میں یہ ہے کہ وہ نصوص اور دلیلوں کے ما بین موازنہ کرے احکام اور اس کے متعلق آراء پر غور کرے اور پھر شریعت کے ثابت شدہ امور قطعی احکام، دین کے اصول ومبادیء اور ان کے اغراض ومقاصد پر اعتماد کرتے ہوئے کسی رائے کو ترجیح دینے کا کام کرے۔
اس کے ساتھ ساتھ قانون سازی میں پائے جانے والے عفو ودرگذر کے پہلو کو بھی سامنے رکھے۔ یہ وہ پہلو ہے جس پر شارع نے سکوت اختیار کیا ہے۔ پیدا ہونے والے جدید ترین واقعات اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق عقل کو اپنا رول وکردار ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ ان امور میں عقل ثابت شدہ اٹل بنیادوں، عظیم مقاصد، دین کے قطعی امور اور اس کے احکام کے دائرے میں رہتے ہوئے اجتہاد کریگی۔ آخری دونوں صورتیں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں کثرت کے ساتھ اور وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ قیاس، مصالح مرسلہ اور اجتہاد کے ان دوسرے وسائل وذرائع کو بھی استعمال میں لایا جائے گا جنھیں شریعت اسلامی نے پیش کیا ہے۔ یہ سب وہ امور ہیں جو شریعت کے اندر پائے جانے والے ثبات اور نرمی کے کفیل ہیں۔ پس اگر عقل وحی کے نور سے اعراض کرجائے تو یہ گمراہ ہو جائے گی۔ شکوک وشبہات کی تاریکیوں میں ڈوب جائیگی۔ بھول بھلیوں کا شکار ہو جائے گی۔ ایسی ہی صورت میں نقل کے ساتھ عقل کے تعارض کا دعوی اٹھ کر سامنے آتا ہے۔ اور یہ ایسا بے سروپا دعوی ہے جسے عقل سلیم اور قلب صحیح اٹھا پھینکتا ہے۔ اس لئے کہ جو نقل وضاحت پر مبنی ہوتی ہے اسے صحیح عقل ہمیشہ قبول کرتی ہے بلکہ کسی بھی صورت میں ان دونوں کے ما بین اختلاف پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ عقل اپنے ناقص ہونے کی وجہ سے شریعت کے لائے ہوئے امر کا پوری طرح ادراک نہ کر سکے لیکن یہ کسی بھی صورت میں نہ تو ٹکراتا ہے اور نہ ہی مخالفت کرتا ہے۔ پھر یہ اس کے شایان شان بھی نہیں ہے۔
لہذا اگر عقل ونقل دلائل کے ما بین تعارض کا وہم بھی ہو تو یہ حتمی طور پر عقل کا قصور ہے کہ وہ پوری طرح اس کا ادراک نہیں کر پا رہی ہے یا ایسا وہم ہے جس میں شک پیدا ہوگیا ہے یا جہالت کا پردہ اس کی آنکھوں پر پڑگیا ہے۔ یا پھر یہ کہ نص ثبوت ودلالت کے باوجود ظنی ہے۔ ان تمام حالتوں میں کوئی حقیقی تعارض نہیں بلکہ یہ محض خام خیالی ہے اور جان بوجھ کر اسے اچھالا گیا ہے۔
فهمنا للعلاقة بين العقل والنقل 2-4 UR
ہمارے بارے ميں -
|