خواتین مسجد سے بے دخل کیوں؟۔ ڈاکٹر/ خالد مشتاق۔۔ وہ مسلسل رو رہی تھی۔ ہچکیاں لیتے ہوئے اس نے بتایا کہ ”میرا نام صائمہ ہی، میں بی ایس کی طالبہ ہوں۔ مجھے بھائی اور چچا نے مارا ہے۔ یہ ظالم ہیں...“ بھائی اور دیگر گھر والے چیخے ”ڈاکٹر صاحب یہ تو اس قابل ہے کہ اسے قتل کردیا جائی... اس نے ہماری ناک کٹوادی“۔ میں نے ان سے کہا کہ وجہ کوئی بھی ہو، پہلے اِس کے درد کو دور کرتے ہیں۔ صائمہ کو درد کا انجکشن لگایا۔ فوری انگزائٹی دور کرنے کے لیے دوا دی، تسلی دی اور اسپتال میں ہی آدھا ایک گھنٹہ آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کی طبیعت بحال ہوگئی۔ گھر والوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب یہ ضدی ہی، بچپن سے ہی جو بات کہتی تھی وہ منواتی تھی۔ اس کے میٹرک میں اچھے نمبر آئے‘ انٹر میں بھی آئے۔ ہم نے اسے یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دیا۔ خاندان کی ہونہار لیکن ضدی لڑکی ہے۔ اس کی بھتیجی اور چھوٹی بہن نے اس سے کہا کہ آپ یونیورسٹی جاتی ہیں، ہم بھی جائیں گے۔ اس نے ان دونوں بچیوں کو اسکول میں کم عمری میں ہی داخل کروانے کے لیے ہم پر دباو ڈالا۔ ہم نے کروا دیا۔ یہ نماز کبھی کبھار پڑھتی تھی۔ بھائی‘ جو پہلے نماز نہیں پڑھتا تھا‘ تبلیغ سے متاثر ہوا اور اس نے بہن کو بھی نماز کی طرف راغب کیا۔ یونیورسٹی میں بھی اسے ایسی دوست مل گئیں۔ اس نے اسلامی لٹریچر پڑھنا شروع کیا۔ احادیث کی کتاب پڑھتی اور بچیوں کو سناتی۔ اس نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے میں بھی مسجد میں جاکر نماز پڑھوں۔ ہم نے ٹال دیا۔ اس نے یہ بات خاندان کی دیگر بچیوں کو بھی بتادی۔ سب بچیاں ضد کرتیں۔ ایک مرتبہ چچا اپنی 7 سالہ بیٹی کو جمعہ کی نماز کے لیے لے گئے۔
مسجد میں کئی لوگوں نے انہیں سنادیں کہ اتنی بڑی لڑکی کو مسجد میں لے آئے‘ شرم و غیرت نہیں ہے! اس پر چچا کو شرمندگی ہوئی۔ بچیوں نے اس کے بعد ضد کی تو چچا نے سختی سے ڈانٹ دیا اور کہا کہ محلے میں اپنی بے عزتی نہیں کراسکتا۔ اسی دوران ہمارے دادا کے عمرہ پر جانے کی بات ہوئی۔ صائمہ دادا کی چہیتی تھی، اس نے ضد کی۔ ایمرجنسی میں پاسپورٹ بنوایا گیا۔ یہ دادا کے ساتھ عمرے پر چلی گئی۔ وہاں سے آئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے اور خاندان میں مکہ مدینہ سے واپس آنے والوں کی دعوتیں چل رہی تھیں کہ ایک دن یہ بازار گئی، مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو یہ دیگر بچیوں کے ہمراہ مسجد چلی گئی اور نماز ادا کی۔ مسجد میں چچا کے دوست اور بڑے بھائی نے بھی نماز ادا کی۔ وہاں کئی افراد نے شدید اعتراض کیا۔ چچا کے دوست نے بھائی کو سنائیں کہ غیرت تو شاید تم میں ہے ہی نہیں، تمہاری بہن مردوں کے درمیان میں... بھائی کو شدید غصہ آگیا۔ جب یہ گھر پہنچیں تو اسی دوران چچا کے دوست کا فون آگیا۔ انہوں نے چچا سے کہا کہ تم بڑے بنتے ہو، اپنی بھتیجی اور بچیوں کو قابو میں رکھو... یہ بازار گئی تھیں۔ اور کہا کہ بچیوں کو آداب بھی سکھاو کہ کہاں کیسے جاتے ہیں۔ بھائی غصے میں آیا ہوا تھا، دوست کے فون کے بعد چچا کو بھی شدید غصہ تھا۔ جب صائمہ سے بات کی تو اس نے غصہ کیا۔ اس پر چچا اور بھائی نے اسے پیٹ ڈالا۔ صائمہ نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! میں نے ان سے کہا تھا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ابھی میں عمرہ کرکے آئی ہوں... مکہ اور مدینہ شریف میں تو سب مساجد میں‘ میں گئی ہوں۔ وہ دنیا کے مقدس ترین مقامات ہیں۔ ان مقامات پر مسجدوں میں خواتین نماز پڑھتی ہیں۔ ان مقامات پر جماعت سے نماز پڑھنے کی عادت بن چکی تھی۔ اسی عادت کے تحت میں نے نماز اپنی کزن کے ساتھ مسجد میں ادا کرلی۔ مغرب کا وقت کم ہوتا ہے اس لیے بھی مسجد گئے۔ گھر پر آنے میں چالیس‘ پچاس منٹ لگتی، اس وقت تک مغرب کا وقت ختم ہوجاتا۔ لیکن گھر پر ان لوگوں نے جس مارپیٹ کا سلوک میرے ساتھ کیا اس سے میرا جسم اور روح دونوں زخمی ہوئے۔ کہنے لگی: ”ڈاکٹر صاحب! ہمارے چچا بہت غیرت والے بنتے ہیں۔ ان کی تین بیٹیاں ہیں۔ ایک بینک میں ملازمت کرتی ہے جبکہ دو بیٹیاں فیکٹری میں۔ کیا بینک میں مرد نہیں آتے؟ بینک میں عورتوں اور مردوں کے کام کرنے کی جگہیں اور اوقات مختلف ہوتے ہیں یا ان کے درمیان پردے حائل ہوتے ہیں؟ فیکٹری میں جانے والی لڑکیاں پہلے بس اسٹاپ پر انتظار کرتی ہیں۔ بس اسٹاپ پر مرد بھی ہوتے ہیں عورتیں بھی۔ بس سے وہ فیکٹری کے قریب اترتی ہیں۔ چوکیدار گیٹ پر ہوتا ہے۔ فیکٹری کا منیجر، ان کا سیکشن انچارج، فیکٹری کا کیشیر سب مرد ہوتے ہیں۔ لیکن یہ لڑکیاں روزانہ فیکٹری جاتی ہیں... کوئی بات نہیں۔ جو لوگ مجھ پر مسجد میں نماز ادا کرنے پر تنقید کررہے تھے ان کے محلے سے لڑکیاں آفس‘ فیکٹریاں... ہر جگہ جاکر کام کرتی ہیں۔ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں! اس سے ان کی غیرت بالکل متاثر نہیں ہوتی۔“ کہنے لگی: ”سر! یہ بتائیں کہ فیکٹری اور آفس کے ماحول اور مسجد کے ماحول دونوں میں سے کون سا بہتر ہے؟ مسجد میں ہم نے ایک برآمدے میں الگ جگہ نماز ادا کی تھی۔“ کہنے لگی: ”ہمارے بڑے بھائی جنہوں نے مجھے مارنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے‘ ان کی بیوی ایک بوائز سیکنڈری اسکول میں ٹیچر ہیں۔ ان کے اسکول میں پچیس‘ تیس کے اسٹاف میں سے صرف 5 خواتین ہیں۔ انہیں ٹیچرز اور ہیڈ ماسٹر کے ساتھ کام کرنے میں کوئی شرم نہیں آتی۔ ہمارے بھائی کی غیرت بالکل متاثر نہیں ہوتی۔ لیکن میرے مسجد میں الگ جگہ نماز ادا کرنے سے ”غیرت“ آجاتی ہی!“ صائمہ کی باتوں کا اس کے گھر والوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ سب خاموش تھے۔ ایک بزرگ خاتون سے ملاقات ہوئی، ان کے بیٹے ڈاکٹر بابر سعید میرے دوست ہیں۔ وہ ڈاکٹروں کی تنظیم پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ کے صدر اور مرکزی جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔ خاتون خدمت خلق کے کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔ ”گوشہ عافیت“ کے نام سے یتیم بچیوں اور بے سہارا خواتین کے ادارے کی بانیوں میں سے ہیں‘ عملی سرپرستی کرتی ہیں۔ ترکی کی ایک مہمان کے ساتھ بات چیت میں کہنے لگیں کہ واقعی تم لوگ آزاد ہو اور ہم... بتانے لگیں: میری بہو اور پوتیوں نے کئی مرتبہ مسجد میں نماز ادا کرنے کی خواہش کی۔ میں نے محلے کی مسجد میں خواتین کے الگ حصہ کے لیے کافی بات چیت کی لیکن کوئی بھی مسلمانوں کی ان بچیوں کو مسجد میں داخلے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ اب ڈاکٹر بابر امریکا چلے گئے ہیں۔ امریکا میں ان کے گھر کی خواتین مسجد میں باقاعدگی سے باجماعت نماز ادا کرتی ہیں۔ ترکی کے وفد کی نمائندہ زلیخا ککسال ان کی بات پر حیران تھی۔ وہ بتارہی تھیں کہ ترکی میں سو فیصد مسلمانوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی آزادی ہے۔ معاشرے میں پچاس فیصد خواتین ہوتی ہیں اور بیس‘ پچیس فیصد چھوٹے بچے۔ ترکی کے معاشرے میں بچپن ہی سے بچوں کو مسجد میں لے جایا جاتا ہے۔ اس طرح ان میں اللہ کے گھر سے محبت بچپن سے پیدا ہوجاتی ہے۔ ترکی میں خواتین آرکیٹکٹ مسجدوں کی اندرونی خوب صورتی کے ڈیزائن بناتی ہیں۔ مساجد کی اندرونی تزئین و آرائش میں خواتین کے حصہ لینے کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ ترکی کی مساجد صفائی ستھرائی اور خوب صورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ مجھے ڈاومیڈیکل کالج کا ہاسٹل یاد آگیا۔ ہاسٹل کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ لڑکوں کے ہاسٹل میں بدسلیقگی ہوتی ہے اور کمروں کی صفائی بھی ٹھیک نہیں ہوتی، جب کہ لڑکیوں کے ہاسٹل کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ صاف ستھرے ہوتے ہیں‘ ہر چیز کمرے میں سلیقہ سے رکھی جاتی ہے۔ پاکستانی معاشرے کی مساجد میں چوں کہ صرف مرد ہی جاتے ہیں اس لیے بیشتر مساجد کے وضو خانے اور... بھی صفائی کے اس معیار کے ہوتے ہیں کہ کوئی نومسلم اسے دیکھ لے تو یقین نہ آئے کہ یہ مسجد ہے۔ میں نے صائمہ کو بتایا کہ مسجد میں خواتین کے نماز ادا کرنے کے مسئلے کا حل میں نے ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ بہت عارضی ثابت ہوا۔ شادی کے بعد میری اہلیہ نے مسجد میں نماز ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں اسے ایئرپورٹ پر واقع مسجد میں لے جاتا تھا کیوں کہ وہ محلے کی مسجد نہیں، وہاں کوئی کسی پر اعتراض نہیں کرتا۔ بڑی مسجد کے صحن میں وہ نماز ادا کرلیتی۔ اسلام آباد میں‘ باغ کشمیر کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے خیریت دریافت کی۔ وہ کہنے لگے کہ میں رمضان گزارنے فیملی کے ساتھ اسلام آباد آیا ہوں۔ بتانے لگے کہ باغ میں تو ہمارا اپنا گھر ہے۔ کون اپنے گھر کو خوشی سے چھوڑ کر دوسرے شہر میں رہتا ہے اور وہ بھی رمضان میں! اور یہاں اسلام آباد میں ہم کرائے پر رہتے ہیں۔ بتانے لگے کہ میری تین بیٹیاں ہیں، انہیں مسجد میں نماز اور تراویح باجماعت ادا کرنے کا شوق ہے۔ دو مرتبہ تو ایسا ہوا کہ ہم عمرہ پر چلے گئے۔ اب اتنی گنجائش نہیں اس لیے اسلام آباد میں گھر کرائے پر لے کر رمضان یہاں گزار رہے ہیں۔ خواتین اور بچے سب فیصل مسجد اسلام آباد میں نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں۔ کشمیر میں تو خواتین کے لیے مسجد میں جگہ ہی نہیں ہے۔ ترکی میں محترمہ زینب فوزی لوگو کی مسجد تو خواتین آرکیٹکٹ میں مشہور ہوگئی ہے جو ترکی کے سیکولر قانون میں خواتین کی اللہ کے گھر سے محبت کا اظہار ہے۔ لیکن پاکستان میں پیما کراچی کے سابق صدر ڈاکٹر فرخ ابدالی صاحب نے بھی اپنی مسجد کا ڈیزائن اسی طرز پر کروانے کے لیے کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر فرخ ابدالی اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر صبیحہ نے اپنے محلہ کی مسجد کا ڈیزائن اس طرح بنوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ خواتین مسجد کے بالائی حصے پر نماز ادا کریں اور مسجد دیکھ بھی سکیں۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب نے اپنے محلے کی خواتین کے لیے اللہ کے گھر میں باآسانی جانے کی راہ ہموار کی ہے۔ خواتین کے ہمراہ چھوٹے بچے بھی مسجد جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں بڑے ہی مسجد جا پاتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کا 70 فیصد سے زیادہ طبقہ مسجد جانے سے محروم رہ جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے ہاں خواتین اور چھوٹے بچوں کا مسجد میں جانا معمول بن جائے تو ان کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ Source: karachiupdates.com
مسلم خاندان -
|