مغرب کی اسلام دشمنی کے پہلو۔۔ ٹکراؤ کا آغاز بقلم: سید ابوداؤد۔۔ اگر ہم اسلام اور مغرب یا مسلمانوں اور بازنطینی رومی سلطنت کے درمیان ٹکراؤ کے آغاز کے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں تو لامحالہ ہمیں ملک روم کے متعلق کچھـ بات کرنی ہوگی جس کی بنیاد (سنـہ 753ق م میں) حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے قبل پڑی اور اس کے ساتھـ ہی رومی سلطنت قائم ہوئی اور ملک روم اس سلطنت کا پایہ تخت بنا رہا اور سنـہ 321ء میں تخت شاہی کو پیزانٹیم منتقل کردیا گیا اور قسطنطین کبیر بھی وہاں منتقل ہوگیا اور اس کا نام قسطنطنیہ رکھا۔
پانچویں صدی عیسوی میں مشرقی رومی سلطنت کی سرحدیں مغرب میں بحر ادریا ٹک ، اور مشرق میں دجلہ کے کناروں تک تھیں اسی طرح شمال میں اس کی سرحدیں ملک تاتار کے بالائی علاقوں اور جنوب میں ملک حبشہ تک پھیلی ہوئی تھیں۔ غسانی ملک کی سرحدیں بھی رومی سلطنت سے ملتی تھیں ، یہ بھی قبیلہ ازد میں سے ایک قبیلہ تھا جو یمن میں سد مارب کے پھٹ جانے کے بعد تیسری صدی عیسوی میں شبہ جزیرۃ عربیہ سے نکل گئے اور شام کے جنوب میں حوران کے علاقہ میں مستقل طور پر آباد ہوگئے جہاں پہلے سے قضاعہ کی قوم آباد تھی جو ضجاعمہ کے نام سے جانے جاتے تھے ، چنانچہ غسانیوں کی ان کے ساتھـ مڈبھیڑ ہوئی اور انہوں نے ان کو وہاں سے مار بھگایا اور بذات خود یہ وہاں ان کی جگہ میں آباد ہوگئے ، بعد ازاں انہوں نے عیسائی مذہب کو اپنا لیا جس کا اس وقت شام کے علاقوں میں بول بالا تھا۔ رومیوں نے (جو اس وقت وہاں کے شمالی علاقوں پر قابض تھے) آگے بڑھ کر غسانیوں سے ہاتھـ ملا کر ان سے اتحاد قائم کرلیا تھا تاکہ وہ ان کے تعاون سے اہل فارس اور ان کے حلفاء اہل مناذرہ اور ان کے علاوہ دیگر قرب وجوار میں بسنے والی عربی قوموں کے حملوں سے اپنی سرحدوں کی حفاظت کر سکیں اور اس کے بدلے رومیوں نے انہیں ہرسال کچھـ مالی امداد پیش کی۔ ادھر غسانیوں نے بھی رومانی قیادت کے زیر سایہ ایک حکومت قائم کرلی تھی جو کہ شرق اردن ، حوران اور جولان کے شمالی حصوں پر مشتمل تھی ۔ انہوں نے جابیہ اور پھر بصری کو اپنا دارالحکومت بنایا تھا۔ غسانیوں اور رومی سلطنت کے درمیان تعلقات بحال رہے اور پانچویں صدی عیسوی تک کافی اچھے رہے یہاں تک کہ رومیوں نے منذر بن حارث پر ملک سے غداری کرنے اور اہل فارس کے ساتھـ تعاون کرنے کا الزام عائد کیا اور انہیں گرفتار کرکے سنہ 582ء میں جزیرہ صقلیہ کی طرف جلاوطن کردیا ، اسی طرح سے انہوں نے غسانیوں سے ان کی مقرر کردہ سالانہ مالی امداد بھی بند کردی جو وہ انہیں سالانہ ادا کیا کرتے تھے ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غسانیوں کا ملک تقیسم ہوکرکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا اور ہر ایک کا الگ الگ قائد ہوگیا ، اور ساتویں صدی عیسوی میں فتح اسلامی سے پہلے تک بھی یہی صورت حال برقرار رہا۔ بازنطینیوں نے ساسانی اور لخمی خطرے کے پیش نظر مشرقی صوبوں کو خصوصی اہمیت دے رکھی تھی ، بنابریں غسانی حکومت بازنطینی سلطلنت کے لئے تجارتی راستوں کے محافظ کا کردار ادا کر رہی تھی، غسانی حکومت کے بہت سے افراد بازنطینی فوج میں بھی شامل ہوگئے تھے اور غسانی بادشاہ حارث بن جبلہ (جس نے 529ء سے 569ء تک حکومت کی) بازنطینی سلطنت کی مدد سے اہل فارس سے ایک جنگ بھی لڑ چکا تھا اور سنہ 529ء میں شہنشاہ جیسٹنیان نے اس کے اخلاص کی بناء پراسے پیٹریسیوس کا لقب بھی بطور انعام دے چکا تھا۔ جب اسلام کا ظہور ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاری کو دین اسلام میں داخل ہونے ، شرک سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی دعوت دی ، انہیں تثلیث والے عقیدہ سے منع کیا ، دین میں غلوکرنے سے منع کیا ، اور ان کے حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ رب العالمین کا بیٹا ماننے کے عقیدہ کی برائی بھی ان کے سامنے واضح کی ، اب جس کی قسمت میں بھلائی لکھی ہوئی تھی اس نے آپ کی دعوت کو قبول کیا لیکن جو لوگ اپنی پرانی روش پر برقرار رہے ، ان کی بدبختی ان پر غالب آگئی ، تو اللہ رب العالمین نے ان کے کفر کا فیصلہ سنا دیا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر مسلمانوں کو ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا، غرضیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیڈروں ، دینی اور سیاسی شخصیات کو دین کی دعوت دینے کے لئے ہر ممکنہ تدبیر اختیار کی۔ چنانچہ ان کے بادشاہوں میں شہنشاہ روم ہرقل ، قبطیوں کے بادشاہ مقوقس ، غسانی بادشاہ حارث بن ابی شمر ، ملک حبشہ کا بادشاہ نجاشی سے خط و کتابت کے ذریعہ رابطہ کیا۔ اسی طرح سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے بھی مناظرہ کیا ، اور انہیں زیر کیا ان سے مباہلت کی لیکن وہ لوگ باز نہ آئے نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بعض لوگوں نے جزیہ دینے کو قبول کیا اور بعض لوگوں نے لڑائی کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اللہ کے راستے میں روڑا اٹکانے والے بن گئے۔ جنگ موتہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والی سب سے بڑی مڈبھیڑ تھی ، جو مسلمانوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں لڑی ، اور یہ جنگ آئندہ آنے والے دنوں میں عیسائی ملکوں کے فتح ہونے کا آغاز تھی یہ جنگ جمادی الاولی سنۃ8ء میں ہوئی۔ سفیروں اور قاصدوں کا قتل کرنا بہت ہی سنگین جرم خیال کیا جاتا تھا ، یہی نہیں بلکہ یہ جنگ چھیڑنے کے مساوی بلکہ اس سے بھی زیادہ تصور کیا جاتا تھا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ بات اس وقت بہت گراں گزری جب آپ کو اس کی اطلاع ملی ، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین ہزار(3،000) پر مشتمل ایک لشکر تیار کیا ، یہ اسلامی تاریخ میں سب سے بڑی فوج تھی اس سے پہلے اتنی بڑی فوج غزوہ خندق کے علاوہ کسی اور موقع پر اکٹھا نہیں ہوئی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فوج کا کمانڈر حضرت زید بن حارثہ کو متعین کیا اور آپ نے فرمایا: (اگر زید قتل کردیئے جائیں تو جعفر اور جعفر بھی قتل کردیئے جائیں تو ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ امیر فوج ہوں گے) آپ نے ان کے لئے سفید جھنڈا اختیار کیا ، اور اسے حضرت زید بن حارثہ کے حوالے کیا ، آپ نے انہیں یہ وصیت کی کہ وہ حارث بن عمیر کے قتل کی جگہ میں جائیں اورجو لوگ وہاں موجود ہیں انہیں اسلام کی دعوت دیں ، اگر ان لوگوں نے اسلام کی دعوت قبول کرلی تو اچھا ہے ورنہ اللہ کا نام لے کر ان سے لڑائی کرنا شروع کردیں۔ مسلمان موتہ کے مقام پر جمع ہو کر خیمہ زن ہوئے اور لڑائی شروع ہوئی ، تین ہزار لوگوں کا سامنا دولاکھـ لڑاکوؤں پر مشتمل فوج سے تھا۔ چنانچہ زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈا لے کر جنگ شروع کی یہاں تک کہ وہ مخالف فوج کے نیزوں کی زد میں آگئے ، ان کے بعد جھنڈا حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ نے لیا اور لڑتے رہے یہاں تک کہ جب معرکہ میں شدت آگئی تو وہ اپنے چتکبرے گھوڑے سے اتر گئے اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ اس طرح سے حضرت جعفر وہ پہلے مسلمان تھے جس نے گھوڑے کی کونچیں کاٹی ہوں ، پھر وہ یونہی میدان جنگ میں ثابت قدم رہے یہاں تک کہ ان کا داہنا ہاتھـ کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈے کو اپنے بائیں ہاتھـ میں لے لیا اور لڑتے رہے یہاں تک کہ ان کا بایاں ہاتھـ بھی کٹ گیا اب انہوں نے جھنڈے کو اپنے دونوں بازؤں سے تھام لیا اور اسے مستقل اٹھائے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کے بعد جھنڈا حضرت عبداللہ بن رواحہ نے لیا اور لڑتے لڑتے وہ بھی شہید ہوگئے۔ اس کے بعد لوگوں نے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالی عنہ کو سردار مقرر کیا جو کہ ایک ایسی جنگی چال چلنے کی سخت ضرورت محسوس کر رہے تھے جس کے ذریعہ رومیوں کے دلوں میں خوف و دہشت بٹھاتے ہوئے اسلامی افواج کو اس انداز سے ایک طرف کرلیا جائے کہ رومی لشکر مسلمانوں کو دوڑانے کی بھی جسارت نہ کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے پروگرام کے مطابق فوج کی ترتیب بدل ڈالی اور اسے نئے سرے سے پھر ترتیب دیا ، چنانچہ انہوں نے سامنے والے فوجی دستہ کو پیچھے کردیا اور داہنے جانب موجود فوجی دستہ کو بائیں جانب منتقل کردیا اور بائيں جانب والے دستے کو داہنے جانب کردیا ، جب دشمنوں نے انہیں دیکھا تو ان کی اس حالت کو دیکھ کر گھبرا گئے اور کہنے لگےکہ ان مسلمانوں کو کہیں سے مزید مدد حاصل ہوگئی ہے چنانچہ رومی ڈر گئے اور حضرت خالد بن ولید (دونوں فوجوں کی ہلکی پھلکی چھڑپ کے بعد) اپنی فوج کو لے کر پورے نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہوئے دھیرے دھیرے پیچھے ہٹتے گئے اور رومی لشکر نے بھی یہ سوچ کر ان کا پیچھا نہیں کیا کہ کہیں مسلمان انہیں دھوکہ نہ دے رہے ہوں اور کوئی ایسی چال نہ چل رہے ہوں جو انہیں اس صحراء میں چاروں شانے چت کرڈالے۔ میدان کارزار سے لوگوں کے پاس خبر آنے سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ وحی اطلاع ملنے کے بعد فرمایا: جھنڈے کو حضرت زید نے لیا اور وہ شہید کردیئے گئے، پھر چھنڈا حضرت جعفر نے لیا اور وہ بھی شہید کرديئے گئے پھر جھنڈا حضرت عبداللہ بن رواحہ نے لیا اور وہ بھی شہید کرديئے گئے۔ (یہ اطلاع دیتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے) یہاں تک کہ جھنڈے کو اللہ کی تلوار میں سے ایک تلوار نے اٹھایا اور پھر اللہ رب العالمین نے ان کے ہاتھوں فتح نصیب کی۔ اس طرح مخالف فوج کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی افواج بغیر نقصان کے واپس لوٹ آئیں ، انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا جب یہ لشکر مدینہ کے قریب پہنچا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سارے مسلمانون نے ان سے ملاقات کی اور کچھـ لوگ اس لشکر کی جانب مٹی پھینکنے لگے اور انہیں کہنے لگے کہ آپ لوگ بھگیڑو ہیں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے بھاگ کھڑے ہوئے ، اس کے بدلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کہا کہ آپ لوگ بھگیڑو نہیں ہیں بلکہ آپ لوگ انشاء اللہ دوبارہ پھر سے حملہ کرنے والے ہیں۔ اس معرکہ نے مسلمانوں کی شہرت میں مزید اضافہ کردیا کیونکہ اس نے تمام عربوں کو دہشت میں مبتلا کردیا تھا ، کیونکہ رومی فوج اس وقت روئے زمین کی سب سے زیادہ طاقتور فوج تھی اہل عرب تو ایسی جنگ میں شرکت کرنے کو خودکشی کے مترادف قرار دیتے تھے ، کیونکہ اس چھوٹی سی فوج (جو صرف تین ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھی) کا اتنے بڑے لشکر (جن کی تعداد دو لاکھـ تھی) کے ساتھـ ٹکرانا اور اس بھاری بھرکم رومی فوج سے ٹکرانے کے بعد بغیر کسی قابل ذکر نقصان کے اٹھائے واپس آجانا تو اس کا کافی اثر پڑا ، کیونکہ یہ بھی ایک طرح کا عجوبہ تھا ، اور یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ یہ مسلمان کچھـ دوسرے انداز کے ہیں جس سے ابھی یہ عرب نامانوس ہیں اور نہ ہی انہیں جانتے ہیں ، ان مسلمانوں کو اللہ رب العالمین کی جانب سے تائید حاصل ہے اور رسول اکرم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) برحق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ قبائل جو بہت زیادہ لڑنے جھگڑنے والے تھے اور ابھی تک ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھری ہوئی تھی یہ قبیلے بھی اس معرکہ کارزار کے بعد اسلام کی طرف مائل ہوگئے ، لہذا قبیلہ بنوسلیم ، اشجع ، غطفان ، ذبیان اور فزارہ وغیرہ کے تمام لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔ یہ لڑائی رومیوں کے ساتھـ مستقبل میں ہونے والے خونریز معرکوں کی شروعات اور ساتھـ ہی مسلمانوں کے ہاتھوں دیگر رومی شہروں اور دور دراز کے علاقوں کی فتوحات کا نقطہ آغاز تھی۔ عہد نبوی میں جنگ مؤتہ (جوکہ سنـہ 8ھ میں پیش آیا) کے بعد چار دیگر غزوات میں (غزوہ ذات السلاسل سنـہ 8ھ میں ، غزوہ تبوک سنـہ 9ھ میں ، سریہ دومۃ الجندل سنـہ 9ھ میں ، جیش اسامہ کا خروج سنـہ 11ھ میں) مسلمانوں کا رومی سلطنت سے ٹکراؤ ہوا پھر سنـــہ11ء ھجری میں لشکر اسامہ رومیوں سے مقابلہ کے لئے نکلا۔ یہ سب واقعات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مغربی تہذیب کے ساتھـ مستقبل میں پیش آنے والے تصادم کا قبل از وقت اندازہ لگائے جانے کا پتہ دیتے ہیں اور تب سے اب تک مغرب اور اسلام کے درمیان تصادم و ٹکراؤ کا سلسلہ جاری ہی ہے۔ خلیفہ دوم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے مانعین زکوۃ کی سرکوبی کرنے ، اسلام سے مرتد ہونے والوں کے خلاف لڑائی کرنے ، اور جزیرۃ العرب میں اسلام کے پھیل جانے کے بعد ، جزیرۃ العرب کے باہر اسلام کی نشر و اشاعت کے تعلق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طے کردہ پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسلامی فوج کو دو محاذوں پر جہاد کرنے کے لئے روانہ کیا ، ان محاذوں میں سے ایک محاذ حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں عراق کا تھا اور دوسرا حضرت ابوعبیدہ بن جراح کی قیادت میں شام کا تھا اس محاذ میں حضرت خالد بن ولید کے ساتھـ یزید بن ابی سفیان اور ان کے بھائی معاویہ ، شرحبیل بن حسنۃ اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہم بھی تھے، عراق میں اس کا جنوبی حصہ فتح کرلیا گیا ، اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا کہ وہ عراق سے ایک فوج لے کر ملک شام کا رخ کریں تاکہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح کی مدد کرسکیں اور ملک شام بھی فتح ہوگیا۔ یہاں جنگ "اجنادین" کا ذکر بھی ضروی ہے یہ معرکہ حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں مسلمانوں اور بیزنطینی فوج کے درمیان سنـہ 634ء مطابق سنـہ 13ھ میں پیش آیا اور مسلمانوں کو اس میں کامیابی ملی۔ معرکہ اجنادین (جو کہ رملہ اور جبرین کے درمیان فلسطین میں واقع ہے) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات سے چند دن پہلے پیش آیا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ 22 جمادی الاول سنـہ13ھ کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ دوسری جانب جنگ یرموک کا محاذ تھا ، یہ بہت گھمسان کی لڑائی تھی یہ 5 رجب سنــہ 15ھ کو حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں پیش آیا ، اور اس کو یرموک کے نام سے اس لئے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ یہ معرکہ ایک نہر کے پاس پیش آیا جس کا نام یرموک تھا۔ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ سے فوج کی کمان اپنے ہاتھوں میں لی اور رومیوں سے ایسی جنگ لڑی جس کا شمار اسلامی فتوحات میں سب سے زیادہ بڑی اور دور رس اثرات کی حامل جنگوں میں ہوتا ہے۔ اس جنگ میں انہوں نے رومی فوج کو - جو کہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور فوج شمار ہوتی تھی روند کر رکھـ دیا۔ اسی بناء پر شہنشاہ روم ہرقل نے اپنی فوج کو لاحق ہونے والے زبردست نقصان کا اندازہ لگاتے ہوئے اس پورے علاقے سے اپنا بوریا بسترسمیٹ لیا۔ اس عظیم فتح نے شام کے باقی ماندہ علاقوں کو فتح کرنے کا راستہ کھول دیا اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں فتح بھی کرلیا گیا ، حضرت عمر ہی کے دور خلافت میں حضرت معاویہ نے عموریہ میں روم سے جنگ کی ، اور اسلامی فوجیں الجزیرۃ ، آرمینیا ، آذربائجان ،کو فتح کرتے ہوئے بحرقزوین کے دروازوں پر دستک دینے لگیں۔ جنگ یرموک کے بعد شام میں صرف چند بازنطینی قلعے رہ گئے تھے جو کہ فلسطین کے بعض شہروں میں واقع تھے انہیں بعد میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے فتح کرکے اسلامی سلطنت میں شامل کرلیا ، حضرت عمر بن خطاب نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو سنـہ 18ھ میں ان کے بھائی زید کی وفات کے بعد ملک شام کا والی بنا کر بھیجا تھا۔
کتابيں -
|