English - عربي
  صفحہ اول ويب سائٹ ہم سے رابطہ زائرين کا ريکارڈ
  فتوے -: روزے دار كا بواسير وغيرہ كے ليے مرہم اور كريم استعمال كرنا - فتوے -: کسی شخص نے فجرکے بعد یہ گمان کرکے کہ ابھی اذان نہیں ہوئی سحری کھا لی اس کا کیا حکم ہے؟۔ - فتوے -: چاند ديكھنے كا حكم - فتوے -: سيكسى سوچ كے نتيجہ ميں منى كا انزال ہونے سے روزہ باطل ہو جائيگا؟۔ - فتوے -: روزے كى حالت ميں ناك كے ليے سپرے استعمال كرنا - نخلستان اسلام -: فصل کاٹنے کا وقت قریب آگیا - نخلستان اسلام -: نجات کی کشتی قریب آگئی -  
ووٹ ديں
مغرب کی اسلام دشمنی کے اسباب میں سے ہے؟
اسلام اور مسلمانوں سے نفرت
صحیح اسلام سے عدم واقفیت
تطبیق اسلام کی صورت میں غیراخلاقی خواہشات پر پابندی
تمام سابقہ اسباب
سابقہ را? عامہ
کتابيں -

مغرب کی اسلام دشمنی کے پہلو۔۔ قسطنطنیہ کی فتح

س?د ابوداؤدبقلم: سید ابوداؤد۔۔ حقیقت میں شہر "قسطنطنیہ" کی فتح ایک خواب تھا جو تمام مسلمانوں کو بے چین و پریشان کئے ہوئے تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زبان مبارک سے اس شہر کی فتح کی خوشخبری اور فتح کرنے والے سے متعلق خوشخبری سننے کے بعد سے ہی تمام مسلم خلفاء اور بادشاہ اس فتح کی سعادت حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھے۔

مسلمانوں نے عظیم بازنطینی سلطنت کے اسی دارالحکومت کو فتح کرنے کی متعدد بار خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں سنہ 35ھ سے لے کر عباسی خلیفہ "مہدی" کے دور حکومت میں سنہ 165ھ تک پانچ مرتبہ کوششیں کیں، اور پھر عباسی حکومت کمزور پڑنے لگی اور ایک ایسا وقت آیا کہ مسلمان اپنے آپ میں الجھ گئے اور ان کی طاقت و قوت اور شان و شوکت جاتی رہی اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کا جذبہ بھی ان کے دلوں میں سرد پڑگیا اور متحد مسلم حکومت کے دھڑوں سے بڑے بڑے حصوں نے الگ ہو کر چھوٹے چھوٹے اور بکھرے ہوئے ممالک کی شکل اختیار کرلی، اور پھر فاطمی حکومت کا دور آیا جس کی بنیاد ہی الحاد اور زندیقوں والے عقیدے پر تھی، فاطمی حکومت نے عباسی دور کے منہج اور طور طریقے کی کھلم کھلا مخالفت کی اور اس کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان قسطنطنیہ کی فتح کو مکمل طور پر بھلا بیٹھے، یہاں تک کہ عثمانی دور کا آغاز ہوا۔ اس حکومت نے اپنا ایک بہت ہی بڑا اور اسٹراٹیجی پر مبنی ہدف بنایا جس ہدف کو عثمانی ریاست کی بنیاد رکھنے والے "عثمان اول" نے ہی متعین کیا اور وہ ہدف تھا قسطنطنیہ کی فتح۔ سنہ 699ھ میں عثمانی حکومت کی بنیاد پڑتے ہی اس فتح کی کوششیں شروع ہوگئیں، اور یہ کوشش سنہ 798ھ میں سلطان "بایزید صاعقہ" کے دورحکومت کی ابتداء سے مزید تیز ہوگئی اور قریب تھا کہ وہ فتح بھی ہوجاتا اگر شیعی مزاج رکھنے والا سرکش تیمورلنگ نے تدخل نہ کیا ہوتا جو عثمانی حکومت پر آٹھ لاکھ جنگجوؤں سے حملہ آور ہوا اور انقرہ میں سنہ 804ھ میں ایک آسان اور مختصر سی جنگ کے بعد عثمانی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا، بعد ازاں عثمانی سلطنت پچاس سالوں تک اپنے زخموں کی مرہم پٹی کرنے اور اپنے آپ کو ازسرنو تیار کرنے میں مصروف رہی، یہاں تک کہ ایک عرصہ بعد وہ اپنی شان و شوکت دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

سنہ 855ھ میں سلطان محمد ثانی عثمانی سلطنت کے تخت پر جلوہ افروز ہوا وہ اس وقت 22 سال کا ایک نوجوان تھا لیکن یہی وہ حاکم تھا جو زبان نبوت سے نکلنے والی خوشخبری کا مستحق تھا۔ اس کے والد سلطان "مراد ثانی" نے اس کو اسی مشن کے لئے بہت ہی اچھی طرح سے تیار کیا تھا چنانچہ انہوں نے علم، دینداری اور تقوی و پرہیزگاری پر ہی اس کی تربیت کی اور اس لائق بنادیا کہ وہ اپنی عمر کے چودہویں برس ہی سے بہت بڑے بڑے کام انجاد دینے لگا اور قیادت کا منصب بھی سنبھالنے لگا، اس کے والد نے اسے شیخ "شمس الدین آق" اور "کورانی" کے زیرسایہ تعلیم دلوائی، لہذا محمد ثانی ایسے ماحول میں پلا بڑھا کہ اسے اپنی زندگی میں قسطنطنیہ کی فتح کے سوا کچھ اور دکھائی ہی نہ دیتا تھا، یہی وجہ ہے کہ جب اس نے سنہ 855ھ میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو براہ راست اسی وقت سے اس عظیم فتح کی تیاری کرنے لگا۔

 سلطان محمد ثانی نے فتح قسطنطنیہ کے لئے تیاری کرنا شروع کی اور اس نے مسلمانوں کو اس فتح میں شرکت کرنے کی اپیل کی، سلطان کی اس دعوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس فوج میں شرکت کرنے والے جنگجوؤں کی تعداد ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی، سلطان محمد ثانی نے جدید ترین اسلحوں کو فراہم کرنے کے لئے "اوروبان" نامی ایک ہنگری کاریگر کو طلب کیا، یہ ہنگری توپ بنانے میں اس وقت کا بہت ہی مشہور کاریگر تھا، محمد ثانی نے اسے سرکاری توپ بنانے کا مکلف بنایا، تاریخ میں یہ سب سے بڑا توپ جانا گیا، سلطان محمد ثانی نے عثمانی بحری بیڑوں کو بھی مضبوط بنانے کی طرف کافی دھیان دیا یہاں تک کہ اس وقت مختلف سائز اورحجم کے اعتبار سے کشتیوں کی تعداد چار سو (400) سے بھی زائد ہوگئی، بعد ازاں وہ اپنے فوجیوں کے دلوں میں ایمانی روح پھونکنے لگا اور انہیں فتح حاصل کرنے والوں کو اللہ رب العالمین کے وعدے کی یاد دلانے لگا، اس نے فوجیوں کے اندر مزید ایمانی روح پھونکنے کے لئے وعظ و نصیحت کرنے والے علماء بھی متعین کئے۔

محرم سنہ 856ھ میں محمد ثانی اپنی لشکر جرار کو لے کر شہر "ادرنہ" جو غازیوں کے راجدھانی کے نام سے مشہور تھا کا رخ کیا اور دو ماہ بعد قسطنطنیہ کی فصیلوں تک پہنچ گیا، اپنے فوجیوں میں جہاد کی روح پھونکنے کے لئے اور ان کے جوش و جذبات کو بھڑکانے کے لئے اس نے خطبہ دیا، اسلامی وصیت کی اور فتح کردہ علاقوں اور مغلوب عوام کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کی ترغیب دلائی۔

بازنطینی امپائر "قسطنطین" بہت ہی مضبوط اور قوی شخص تھا۔ اس نے مختلف وسائل و ذرائع کے ساتھ بہت ہی جواں مردی دکھلائی تاکہ "قسطنطنیہ" پر عثمانی یلغار کو روک سکے یہاں تک کہ اس نے اپنے اس خطہ کو کامیاب بنانے کے لئے خطرات سے بھرپور قدم بھی اٹھایا وہ یہ کہ اس نے کیتھولک مذہب کے پوپ سے مدد طلب کیا اور اس کہ سامنے یہ پیشکش رکھی کہ مشرقی آرتھوذکس چرچ یہ تمام مغربی کیتھولک چرچ کے تابع ہوجائیں گے لیکن اس کے اس اقدام سے تمام اہل قسطنطنیہ کے اندر غیظ و غضب بھڑک اٹھا۔

 قسطنطین اور اس کے فوجی کمانڈر "گوسٹنیان" نے شہر قسطنطنیہ کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی اور (قسطنطنیہ) یہ شہر حفاظتی نقطہ نظر سے بہت مضبوط بھی تھا، یہی نہیں بلکہ اس وقت پوری دنیا میں یہ سب سے زیادہ محفوظ تھا، قسطنطین نے محمد ثانی کے ساتھ صلح و مفاہمت کرنے کی بہت کوشش کی یہاں تک کہ وہ اس کی تابعداری بھی قبول کرنے پر راضی ہوگیا اور بہت زیادہ مال و دولت سے بھی اس کا دل جیتنے کی کوشش کیا لیکن محمد ثانی نے ان سب کو مسترد کردیا اور شہرقسطنطنیہ فتح کرنے پر اٹل رہا کیونکہ وہ اپنے گھر سے دنیاوی زیب و زینت حاصل کرنے کی غرض سے نہیں نکلا تھا بلکہ وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے مقصد سے نکلا تھا۔

عثمانیوں نے مختلف محاذوں پر زبردست بری وبحری حملہ کیا اور سلطان محمد نے اپنے بحری بیڑے کو خشکی پر تقریبا 3/ کلومیٹر دوری کے فاصلے پر لے جا کر ایک ترچھے راستے سے گولڈن یارن کے پاس اتار دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عثمانی بحری بیڑا اب قسطنطنیہ میں داخل ہوگیا۔ اس نے بعض علاقوں میں زیر زمین سرنگیں کھدوائیں تاکہ شہر کے حفاظتی دستہ کو پھاڑتے ہوئے اندر گھس سکیں۔ عثمانیوں نے شہر قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے مختلف اور جدید ترین حربہ استعمال کیا یہاں تک کہ وہ تاریخی فتح کا وقت بھی آ پہنچا، فتح ہونے سے پہلے والی رات کو سلطان محمد ثانی نے اپنے تمام فوجیوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ واستغفار کریں، اللہ رب العالمین کا تقرب حاصل کریں اور اس عظیم فتح کی تیاری کرنے کے لئے وہ زیادہ سے زیادہ قیام اللیل کریں اور خوب دعائیں مانگیں۔

بروز منگل مطابق 20/جمادی الاول سنہ 857ھ میں شہر قسطنطنیہ پر عام ہجوم شروع ہوا اور یہ ہجوم فوجی دستوں کی جانب سے مختلف طریقہ کار کو اختیار کرکے ہرچہار جانب سے شروع کیا گیا، عثمانیوں کی جانب سے سلسلہ وار متعدد چار حملے کرنے کے بعد بالآخر جہادی افواج کا ایک منتخب (بہادروں پر مشتمل) جانباز دستہ شہر کی فصیل پر چڑھ کر دشمن کے علاقے میں گھسنے میں کامیاب ہوگیا۔ اور اس کے اوپر عثمانی جھنڈا بلند کردیا، اور بیزنطینی فوج کا قائد گوسٹنیان اس مزاحمت میں بری طرح زخمی ہوگیا اور زخمی ہونے کے بعد وہ معرکہ کارزار سے ہٹ کر نیچے آگیا تاکہ وہ شہر کا دفاع کرنے والوں کی قیادت کرسکے، اس نے اپنا شاہی لباس بھی جووہ زیب تن کئے ہوئے تھاش وہ اتار دیا اور پیادہ ہو کر اپنی تلوار سے لڑنے لگا یہاں تک کہ وہ اسی معرکہ کارزار میں مارا گیا، اس طرح اس نے اپنا وہ قسم بھی پورا کردیا جو اس نے کھایا تھا کہ وہ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک اس شہر کا دفاع کرتا رہے گا، دشمنوں کی فوج میں اس کے مرنے کی خبر بہت ہی افسوسناک ثابت ہوئی کیونکہ اس کی موت سے فوجی معنوی طور پر شکست خوردہ ہوگئے اور دوپہر کے وقت شہر قسطنطنیہ فتح ہوگیا، سلطان محمد فاتح اس شہر میں داخل ہوا اور وہاں پہنچتے ہی اللہ رب العالیمن کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوگیا، اس نے اللہ رب العالیمن کا شکریہ ادا کیا اور اس کی تعریف کی۔ اس نے "ایاصوفیا" چرچ کو فورا جامع مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم صادر فرمایا اور شہر کا نام تبدیل کرکے اسلامی شہر استنبول رکھ دیا۔

عالمی سطح پر طرف فتح قسطنطنیہ کی ایک گونج سنائی دی اور انسانی تاریخ میں اسی فتح سے عہد وسطی کے خاتمہ کی تاریخ رقم کردی گئی اور اس کے ساتھ ہی اسلام اور مغرب کے تعلقات ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوگئے جس میں باہمی کشمکش کا انداز اور اس کا طور طریقہ بدل گیا، قسطنطنیہ فتح کئے جانے سے پہلے پورے یورپ میں اسلام پھیلانے میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ تھی اور اس کے فتح کرنے کا مطلب پورے یورپ میں مکمل آزادی کے ساتھ اسلام پھیلانے کا دروازہ کھل گیا، اور اسلام قبول کرنے والے بھی پہلے سے زیادہ امن و امان محسوس کریں گے۔ قسطنطنیہ کی فتح کو عالمی تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے اور خاص طور پر یورپ اور اس کے اسلام سے منسلک ہونے کی تاریخ میں یہاں تک کہ بعد میں آنے والے یورپی مؤرخین نے اس فتح کو عصور وسطی کے خاتمے اور دورجدید کا آغاز قرار دیا۔

اس فتح کی خبر سے یورپی عیسائی بہت متاثر ہوئے، اور انہوں نے اس سے خوف و ہراس، رنج وغم اور اپنی شکست و شرمندگی گردانا، اور استنبول سے آنے والی لشکر جرار ان کے اس خطرہ کا باعث ثابت ہوا۔ شاعروں اور ادیبوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت و کراہیت کی آگ بھڑکانے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑا، امراء و ملوک نے پیہم کئی کئی میٹنگیں کیں، عیسائیوں نے باہمی اختلافات اور رنجشوں کو ختم کرنے کی دعوت دی۔ پانچواں پوپ "نیقولا" کو قسطنطنہ کی فتح کی خبر سن کر سب سے زیادہ تکلیف ہوئی چنانچہ اس نے مسلسل جدوجہد سے کام لیا اور ایٹالین ممالک کو یکجا کرنے کے لئے اور انہیں مسلمانون کے خلاف جنگ کرنے میں بھڑکانے کے لئے اپنا سارا وقت صرف کردیا، اس نے اپنی صدارت میں روم میں ایک کانفرنس بھی منعقد کی اور اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک نے باہم تعاون کرنے کا عزم کیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ دشمن کے خلاف سب لوگ مشترکہ طورپرکوشش کریں۔ قریب تھا کہ ان کی یہ کوشش اور حلف برداری کامیاب بھی ہوجاتی لیکن قسطنطنیہ کے عثمانیوں کے ہاتھ چلے جانے کا صدمہ پوپ کا اس قدر ہوا کہ وہ اس صدمہ کی تاب نہ لاسکا اور اسی صدمہ سے کڑھ کڑھ کر مارچ سنـہ 1455ء کو مرگیا۔

اور عیسائی حاکم فیلیپ طیب دوق پورگونڈیا نے بہت ہی پرجوش ہو کر تمام عیسائی بادشاہوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آواز لگائی، اور اسی کے نقش قدم پر شہسوار اور عیسائی مذہب کے متعصبین بھی چلے، یہاں تک کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کا نظریہ ایک مقدس عقیدہ بن گیا جو انہیں جنگ کرنے پر ابھارنے لگا، مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی اس جنگ کی قیادت روم کے پوپ نے کی، سلطان محمد فاتح عیسائیوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتا تھا اس نے اپنے ملک کو تقویت پہنچانے اور دشمن کو نیست ونابود کرنے کے لئے جومناسب سمجھا وہ سب کچھ کیا، اور جو عیسائی سلطان محمد کے قرب وجوار میں تھے یا اس کی سرحدوں سے متصل آماسیا، مورہ اور طرابیزون وغیرہ شہروں کے علاقوں کے قریب تھے وہ اپنا حقیقی احساس چھپانے کے لئے مجبو تھے، چنانچہ انہوں نے ظاہری طور پر خوشی کا اظہار کیا اور ادرنہ میں سلطان کے پاس اس کے اس عظیم کامیابی پر مبارک باد دینے کے لئے اپنے وفود بھیجے۔

پوپ "پیوس ثانی" کو جس قدر خطابت اور سیاست میں دسترس حاصل تھی اس نے عیسائی بادشاہوں، قوموں، قیادیوں اور فوجوں میں نفرت کی آگ بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، عثمانیوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے اس کا جو نظریہ تھا اس نظریہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بعض ممالک نے پوری طرح کوششیں کیں، لیکن جب عام یلغار کرنے کا وقت آیا تو عین اس وقت پر یورپ کے بعض ممالک نے اپنے داخلی خلفشار کی وجہ سے معذرت کردیا۔ فرانس اور انگلینڈ کے درمیان ہونے والی سو سالہ جنگ نے ان کی کمر توڑ رکھی تھی، جیسا کہ برطانیہ اپنا آئینی لائحہ عمل بنانے میں اور داخلی جنگوں میں مشغول تھا، اور ہسپانیا اس وقت اندلس کے مسلمانوں کا صفایا کرنے میں مشغول تھا، باقی بچی ایٹالین حکومت تو وہ عثمانی ملکوں کے ساتھ نا چاہتے ہوئے اور مال و دولت کی لالچ میں بھی اپنے تعلقات بنانے میں مشغول تھی، کیونکہ اس کو اپنے ملک کی عثمانی حکومت کے ساتھ علاقات بنانے کی فکر لگی ہوئی تھی۔

اس صلیبی حملے کی پلاننگ بنانے والے کے مرجانے سے ان کی یہ پوری پلاننگ ختم ہوگئی۔ ہنگری اور وینس دونوں کو تنہا عثمانی ملکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وینس نے اپنی مصلحت عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے عثمانیون کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور تعلقات خوشگوار بنائے رکھنے کے لئے معاہدے کئے، رہا ہنگری تو وہ عثمانی فوج کے سامنے شکست خوردہ ہوکر رہ گیا، عثمانیوں نے صرب، یونان، افلاق، قرم اور ارخیل کے بڑے بڑے جزیرے اپنی ریاست میں ملانے میں کامیابی حاصل کی اور یہ عمل بہت ہی کم عرصے میں سامنے آیا کیونکہ سلطان محمد فاتح نے انہیں موقع نہ دیا اور ان کے شیرازہ کو منتشر کردیا اور ان سب کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

پوپ "پیوس ثانی" کو جس قدر مہارت اور سیاسی عبور حاصل تھا ان سب کی روشنی میں اس نے دو پہلوؤں پر زیادہ زور دیا: پہلی کوشش اس نے یہ کی کہ اس نے ترکوں کو عیسائی مذہب قبول کرنے پر مقتنع کیا، اس کے لئے اس نے مشنریوں کی وفد نہیں بھیجی بلکہ اس نے سلطان محمد فاتح کی جانب خطاب بھیجا کہ وہ عیسائییت کو تقویت پہنچائے جیسا کہ اس سے پہلے قسطنطین اور کلوفیس نے تقویت پہنچائی تھی، اس "پوپ" نے "سلطان محمد ثانی" سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ (یعنی پوپ) اس کے (یعنی سلطان محمد ثانی کے) سارے گناہ معاف کردے گا اگر سلطان محمد مخلص بن کر عیسائی مذہب اختیار کرلے، اس پوپ نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ سلطان کو اپنی خاص رحم و کرم سے نوازے گا اور اسے گلے لگائے گا اور اسے جنت میں داخل ہونے کا سرٹیفیکٹ بھی عطا کرے گا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود بھی جب پوپ کو اپنی کشتی ڈوبتی ہوئی نظر آئی تو پھر اس نے دوسرے پلاننگ پر عمل کیا وہ یہ کہ دھمکی اور طاقت و قوت کے استعمال کرنے کا سہارا لیا، لیکن اس پلاننگ کے اثرات ناکامی ونامرادی کی شکل میں پہلے سے ہی دکھائی دے رہے تھے۔ صلیبی فوجیوں کی شکست اور جس حملے کی قیادت ہنگری کا لیڈر ہونہاد کر رہا تھا اس کا پہلے ہی کام تمام ہوجانا یہ اس دوسری پلاننگ کے نتیجہ کو سرخ جھنڈی دکھا رہا تھا۔

اس طرح مشرقی جانب سے اسلام نے یورپ کا دروازہ کھٹکھٹایا، اور ایسا اس وقت ممکن ہوا جب مسلمانوں نے قسطنطنیہ فتح کرنے کے لئے حضرت معاویہ بن ابی سفیان (41-60ھ) کے عہد حکومت سے لے کر بارہا کوششیں کرتے رہے۔

اسی طرح سے وسط یورپ کو فتح کرنے میں خلافت عثمانیہ کا بھی بڑا ہاتھ رہا بایں طور کہ عثمانیوں نے بلقان کے علاقے کو سنـہ (756ھ / 1355ء) میں فتح کرلیا اور اس کے بعد وسطی یورپ کے تمام شہر یکے بعد دیگرے ان کے مطیع و فرمانبردار ہوتے چلے گئے، چنانچہ سنـہ (774ھ / 1372ء) میں بلغاریہ فتح ہوگیا، اور سنـہ (788ھ / 1386ء) میں صربیا فتح ہوگیا، سنـہ (792ھ / 1389ء) میں بوسنیا اور ہرزیگوینا فتح ہوگیا، اسی طرح سے کروشیا، البانیہ، بلغراد اور ہنگری کے شہربھی فتح ہوتے چلے گئے۔ اسی طرح سے عثمانی فوج سلطان سلیمان اعظم قانونی کی قیادت میں ویانا کی فصیلوں تک پہنچ گئی اور سنـہ (936ھ / 1529ء) میں اس کا محاصرہ بھی کیا، لیکن ایک سو پچاس برس سے زا‏ئد عرصہ گزرنے کے بعد بھی سنـہ (1094ھ / 1683ء) میں سلطان محمد رابع کے عہد حکومت تک بھی اسے فتح کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

پوری خلافت عثمانیہ کے عرصہ میں عثمانیوں کے ذریعہ فتح کردہ ان علاقوں کا بڑا حصہ عثمانی سلطنت کے ماتحتی میں مسلمانوں کے قبضہ میں باقی رہا لیکن جیسے جیسے عثمانی کمزور پڑتے گئے تمام علاقے ان کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے، اور سنـہ (1337ھ / 1918ء) میں عثمانی سلطنت کے تابع پورے یورپ میں سوائے استنبول کے اور کچھ نہ باقی رہا۔البتہ جو علاقے عثمانیوں کے قبضہ میں ایک طویل مدت تک رہ گئے تھے وہ سب کے سب مسلم اکثریت والے علاقے بن گئے جیسا کہ مقدونیہ، البانیہ، بوسنیا اور ہرزیگوینا جبل اسود اور اسکے ساتھ ہی بلغاریہ اور رومانیہ میں اسلامی جالیات وغیرہ۔

اور مسلمانوں نے اپنے زیراقتدار علاقے جو انہوں نے فتح کئے تھے وہاں کے باشندوں کے ساتھ عدل وانصاف کا جو معاملہ کیا اس کی وجہ سے ان علاقوں کے بہت سے باشندے اسلام میں داخل ہوگئے، چنانچہ ایک کمزور اور دیہاتی فقیر آدمی بھی عثمانی سلطنت میں اعلی سے اعلی اور کافی اثرورسوخ والے عہدہ پر پہنچ سکتا تھا۔

یہ سماجی انصاف کا وہ نمونہ تھا جس کا عثمانیوں کے معاصر یورپی معاشروں میں پایا جانا ناممکن تھا نیز عثمانیوں کے غلبہ کے ساتھ ہی ان تمام علاقوں میں جنگ وجدال اور کشمکش کی جگہ امن و امان کا دور دورہ ہوگیا۔ اہل یورپ نے ترکی فوج کی اعلی درجے کی نظم و نسق سے بھی کافی استفادہ کیا اور اس کے ادارتی نظام سے بھی جو کہ صلاحیت و قابلیت کے معیار پر قائم تھا اور پورے عثمانی حکومت کے عرصہ میں جہاں تک بھی عثمانیوں نے حکومت کی وہاں کے دیگر مذاہب مثلا عیسائیت اور یہودیت کے پیروکاروں کے ساتھ نہایت ہی اچھا برتاؤ کیا۔ اس کے آثار واضح طور پر نمایاں نظر آتے ہیں بایں طور پر کہ ان مذاہب کے پیروکاروں نے اپنی زبان اور ثقافت کو نہ کھویا اس کے برخلاف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہسپانیوں نے سنـہ (897ھ /1492ء) میں اندلس پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا، انہوں نے مسلمانوں کو شمالی افریقہ اور مشرقی بحیرہ رومی کے علاقوں میں بھگا دیا اور ان میں سے اگر کچھ لوگ باقی بھی رہ گئے تو وہ ہسپانوی حکومت کے سائے میں جس میں رواداری نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی وہاں متعصب اندھی عیسائیت کے ظلم و ستم سے دوچار ہورہے تھے جس کے نتیجہ میں وہ بالآخر عیسائیت اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے اور یہ سب ان تفتیشی عدالتوں کے دباؤ میں آکر ہوا جوکہ مسلمانوں کے لئے جگہ جگہ قائم کی گئی تھی۔



کتابيں -

  • اخبار
  • ہمارے بارے ميں
  • نخلستان اسلام
  • بيانات
  • مسلم خاندان
  • موجودہ قضيے
  • کتابيں
  • حادثات
  • جہاد کا حکم
  • ملاقاتيں
  • ويب سائٹ کي خدمات
  • اپني مشکلات بتائيں
  • فتوے
  • ارئين کي شرکت