امت اسلامیہ کو اجتماعی طور پر مرتد گرداننا۔۔۔ جھوٹ اور بے بنیاد ہے بقلم: شیخ/ علی شریف۔۔ بسا اوقات آپ (اس بات پر) تعجب کریں گے کہ بعض لوگ کسی متعین شخص پر کفرکا، ملت سے نکل جانے کا اور اہل قبلہ سے جدا ہوجانے کا حکم لگانے میں بہت جلد بازی سے کام لیتے ہیں، لیکن آپ شاید اس بات کو سچ نہیں مانیں گے کہ یہاں بعض لوگ ایسے(بھی) ہیں جو پوری امت اور سارے لوگوں پر کفر کا حکم لگاتے ہیں!!۔ لیکن وہ (سب کچھـ) ہوا جو سوچا بھی نہ تھا اور وہ بھی بات بھی سامنے آئی جو ہم تصور کر سکتے تھے۔ یہ انہی بحران کی وجہوں میں سے ایک وجہ ہے جو امت مسلمہ کو درپیش ہے۔ مختلف علاقوں میں بھیانک حادثات کے وقوع پذیر ہونے سے آپ حیرت میں پڑجائیں گے جس کے لپیٹ میں دسیوں مسلمان بھی آجاتے ہیں، اور ایسا کرنے والوں کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ان لوگوں کا خون معاف ہے، وہ اس لئے کہ اس امت کے فرزندگان یا دیگر لوگ سب اسلام سے مرتد ہوگئے ہیں بنابریں ان کے مال ودولت کو حلال سمجھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے قتل کو مقصد بنانے میں، چاہے (یہ قتل کرنا) راستوں میں دھماکہ خیز مادے فٹ کرکے یا بارود بھری گاڑیوں کو دھماکہ سے اڑا کرکے یا کسی دوسرے طریقے سے ہی کیوں نہ ہو۔ اس پوری کی پوری امت کو کافر گرداننا (اس بات کی) ایسا کہنے والوں کے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں ہے بلکہ ان کی دلیلیں ان کے باطل عقیدوں کی مطابق مختلف ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو معصیت کا ارتکاب کرنے والے کو کافر گردانتے ہیں، اور انہیں میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کفریہ کام کرنے والوں پر مرتد کا حکم لگاتے ہیں کیونکہ وہ اس کو (کسی چیز کے) نہ جاننے پر معذور نہیں سمجھتے ہیں، اور انہیں میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو موالاۃ (غیر مسلموں سے دوستی وغیرہ کرنا) اس کی بنیاد پر کافر کا حکم صادر کر دیتے ہیں۔ یہ دلیلیں کیسی بھی ہوں بہر صورت امت اسلامیہ کو اجتماعی طور پر مرتد گرداننا یہ ایک بہت ہی بھیانک غلطی ہے اور ظالمانہ حکم ہے، حق کو زیر کرنے والی اور نیچا دکھانے والی ہے اور صحیح روش سے ہٹی ہوئی ہے (لہذا) اس کے باطل ہونے کا انکشاف کرنا اور اس کے لغزشات وکمزوریوں کو بیان کرنا بے حد ضروری ہے؛ ان لغزشات کے پہلووں کو تفصیل کے ساتھـ بیان کرنے سے پہلے ہم مندرجہ ذیل نقاط کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پر مختصر انداز میں روشنی ڈالتے ہیں: پہلا: یہ کہنا کہ سارے مسلمان اجتماعی طور پر مرتد ہو گئے ہیں اس کے لئے دلیل کی ضرورت ہے اور صورت حال اس کے خلاف ہے، کیونکہ ہم دیکھـ رہے ہیں کہ زیادہ تر مسلمان شرعی واجبات کی ادائیگی کر رہے ہیں اور کسی بھی ایسے کفریہ چیز میں جان بوجھـ کر یا بخوشی ملوث نہیں ہیں جو ان کو ملت سے نکال دے، اور اسلامی علاقوں میں سے کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں ایسی مختلف اسلامی تحریکیں نہ پائی جاتی ہوں جو اہل سنۃ (کتاب و سنت کی پابندی کرنے والے لوگوں) کے عقیدے کی پابندی نہ کرتی ہوں، اس جیسے تحریکوں اور مسلم جماعتوں کا پایا جانا اس دعوی کو ہی سرے سے باطل کردیتا ہے۔ دوسرا: یہ ماننا کہ مسلمانوں میں گناہ اور معصیتیں اس قدر عام ہیں ہیں جیسے کہ چوری، زناکاری اور شراب نوشی ۔۔۔ وغیرہ۔ اس کی وجہ سے تمام لوگوں پر اسلام سے مرتد ہوجانے اور پھر جانے کا حکم لگانا یہ درست نہیں ہے کیونکہ اہل سنۃ کے مذہب کا تقاضا یہ ہے کہ اس طرح کے معصیت کا ارتکاب کرنا یہ اسلام سے نہیں نکالتا ہے، اور اس طرح کی مخالفات یہ ایمان توڑنے والی چیزوں میں سے شمار کی جاتی ہیں نہ کہ ایمان ہی توڑنے والی شمار کی جاتی ہیں۔ اس کی دلیل اللہ رب العالمین کا یہ قول ہے: (إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ) (النساء:48) یقینا اللہ تعالی اپنے ساتھـ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔ اور اللہ رب العالمین کا یہ قول بھی: (وَعَصَى آَدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى) (طه:121) آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گیا۔ اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات پر بیعت کی کہ وہ چوری نہیں کریں گے اور نہ ہی زناکاری کریں گے۔۔۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے جو شخص اس کو پورا کرے تو اللہ کے ذمہ اس کا اجر ہے اور جو ان میں سے کسی چیز کا مرتکب ہوا اور اس کا بدلہ لیا گیا تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے، اورجو شخص ان میں سے کسی چیز کا مرتکب ہوا اور اللہ تعالی نے اس کو چھپایا تو اس کو اختیار ہے چاہے وہ بخش دے یا اس کو عذاب دے)۔ (صحیح بخاری: 6286) اس حدیث میں موضع استشہاد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ قول ہے: (تم میں سے جو شخص اس کو پورا کرے تو اللہ کے ذمہ اس کا اجر ہے اور جو ان میں سے کسی چیز کا مرتکب ہوا اور اس کا بدلہ لیا گیا تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے اورجو شخص ان میں سے کسی چیز کا مرتکب ہوا اور اللہ تعالی نے اس کو چھپایا تو اس کو اختیار ہے چاہے وہ بخش دے یا اس کو عذاب دے)، یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص نے معصیت کا ارتکاب کیا اور اسی پر اصرار کرتے ہوئے انتقال کرگیا اس سے توبہ نہیں کیا تو ایسا شخص اللہ رب العالمین کی مشیئت میں ہے، اگر یہ شخص اس معصیت کی بنیاد پر کافر ہوتا تو اللہ رب العالمین کے اس قول کی بنا پر وہ شخص اللہ کی مغفرت کا مستحق کبھی نہیں ہوتا، ارشاد باری ہے: (إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ) (النساء:48) یقینا اللہ تعالی اپنے ساتھـ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔ تیسرا: بعض مسلمانوں کے شرکیہ اعمال میں ملوث ہونے کے باوجود جیسے کہ غیراللہ کے لئے ذبح کرنا یا ان کے لئے نذر ونیاز ماننا یا ان سے دعاء کرنا ان (مسلمانوں) کی تعداد جتنی بھی ہو پوری امت کو اس کی وجہ سے کافر کہنے والی بات درست نہیں ہے کیونکہ ان میں سے اکثر وبیشتر لوگ اس طرح کے شرکیہ اعمال میں جہالت کی بنیاد پر ملوث ہو جاتے ہیں جو کہ ایسا عذر شمار کیا جا سکتا ہے جو انہیں کفر کے دائرے میں ڈھکیلنے سے منع کرتاہے۔ اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں: "یہ چیز میں ہمیشہ اور جو لوگ میرے ساتھـ اٹھتے بیٹھتےہیں وہ بھی اچھی طرح سے میرے بارے میں جانتے ہیں کہ: میں لوگوں میں سب سے زیادہ اس بات سے منع کرنے والا ہوں کہ متعین کرکے کسی شخص کو کافر وفاسق اور گناہگار کہا جائے، مگر وہ شخص جس کے بارے میں یہ بات معلوم ہو چکی ہو کہ اس (فلاں شخص) پر وہ نبوی حجت قائم ہو چکی ہے کہ جس کی کوئی شخص خلاف ورزی کرے تو وہ کبھی کافر کبھی فاسق کبھی گناہگار کہلائے گا، اور میں یہ بات ثابت کرتا ہوں کہ اللہ رب العالمین نے اس امت کی غلطیوں کو معاف کردیا ہے: اور یہ غلطیاں تمام زبانی طور پر منقول مرویات کے مسائل اور علمی مسائل کو عام ہیں" (مجموع الفتاوی:3/229)۔ چوتھا: اس بات کو دلیل بنا کرکے کہ امت اسلامیہ کے بہت سارے فرزندگان غیر مسلموں کے ساتھـ نا جائز وحرام طریقے سے موالاۃ یعنی دوستی کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں پوری کی پوری امت اسلامیہ کو کافر کہنا صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ صورت حال اس کے برعکس ہے ، کیونکہ یہاں اس امت کے بہت سارے فرزندگان ایسے ہیں جو کہ مبالغہ آرائی کئے بغیر(غیر مسلموں کے ساتھـ) دوستی کرنے اور اٹھنے بیٹھنے میں (اسلام کے) احکام کی پابندی کرتے ہیں، اگرچہ دوستی کی بہت ساری صورتیں ایسی ہیں جس میں بعض مسلمان ملوث ہیں وہ باطل دوستی کے زمرے میں آتی ہے جس سے کفر لازم آتا ہے اگر چہ ان کا اعتبار غلط دوستی کے زمرے میں کیا جا سکتا ہے جس پر آدمی گناہگار ہوتا ہے، اور اس طرح کی دوستی یہ انہی ممنوعہ دوستی میں سے ہے جس میں جلیل القدر بدری صحابی حاطب بن ابی بلتعہ ملوث ہو گئے تھے جب انہوں نے فتح مکہ سے کچھـ دن پہلے مشرکین قریش سے خط وکتابت کی تاکہ انہیں یہ اطلاع دیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے لڑائی کرنے کے لئے تیاری کر رہے ہیں، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عمر سے یہ اس وقت فرمایا جب انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیں اجازت دیجئے کہ میں ان کا سر قلم کردوں: (اے عمر انہیں چھوڑ دو، یہ اہل بدر میں سے ہیں اور تمہیں کیا معلوم کہ یقینا اللہ تعالی نے اہل بدر کی طرف دیکھا اور فرمایا: جاؤ جو چاہو عمل کرو تحقیق کہ میں نے تمہیں معاف کردیا)۔ (مسند الفاروق لابن کثیر:2/613)، یہی اہم دلیلیں ہیں جس کو ایسا غلط نظریہ رکھنے والے بنیاد بناتے ہیں۔ ہم اللہ رب العالمین سے اپنے لئے اور ان کے لئے ہدایت کی دعاء کرتےہیں۔ الردة الجماعية للشعوب الإسلامية.. أكذوبة واهية AR
موجودہ قضيے -
|